بڑی ملاقاتوں کی اندرونی کہانیاں اور نامعلوم ٹانگ


سال گزشت کا آخری عشرہ بڑی سیاسی ملاقاتوں سے بھرپور رہا۔ آخری عشرے کے پہلے دن وزیراعظم عمران خان  نے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف المالکی سے ملاقات کی۔ دوسری طرف اسی دن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہمسایہ ملک چین کے سفیر سے ملے۔ اگلے دن وزیراعظم  نے ایک تقریب میں اپنی بے چینی کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ ملکی مسائل کے سبب انہیں اکثر راتوں کو نیند نہیں آتی۔ انہوں نے فرمایا کہ مالی حالات کے سبب سبکدوش سرکاری ملازمین کی پنشن حکومتی خزانے پر بوجھ بن چکی ہے۔

وزیر اعظم  نے یہ بھی فرمایا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو مناسب تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ ان کو قریب اٹھارہ مہینے تک مسائل کے ادراک کے لئے درست اعداد و شمار کا ہی اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ اب یہ شکوہ وہ کس سے اور کیوں کر رہے تھے کم از کم خاکسار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ ہمیں تو ان کا یہ قول یاد ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں آنے کی پوری تیاری ہے اور خیبر پختونخوا میں پانچ سال حکومت کرنے کا تجربہ بھی۔

اس سے اگلے دن حکومت نے سپریم کورٹ سے ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی غرض سے رائے بھی طلب کر لی ہے۔ خاکسار کی رائے میں تو اس کا ککھ فائدہ نہیں ہوگا لیکن اسی دن وزیراعظم  نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کو بھی شرف ملاقات بخشا۔ اس ملاقات کا احوال اگر آپ سرکاری پریس ریلیز کو سمجھتے ہیں تو میرے لئے اس میں کیا دقت ہے؟ سمجھتے رہیں۔

چوبیس دسمبر ہی وہ دن تھا جب سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی مفاہمت کا پیغام  لے کر لاہور کی جیل میں قید قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے پاس پہنچے۔ ان دونوں شخصیات کے درمیان کیا بات ہوئی خاکسار کی چڑیا یہ بتانے سے قاصر ہے۔ محمد علی درانی نے لیکن کھلے بندوں یہ بتایا ہے کہ شہباز شریف نے ان کے مفاہمتی پیغام کے جواب میں قید کے دوران کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرما دیا کہ قومی مکالمے کے لئے جیلوں میں قید تمام سیاسی قائدین کو رہا کرنا ہوگا۔ اب سلجھانے کی گتھی یہ ہے کہ وفاقی حکومت تو محمد علی درانی کو اپنا پیغام رساں ماننے سے انکار کر رہی ہے لیکن یہ بھی نہیں بتاتی کہ ان ہی کی جماعت کی صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر یہ ملاقات ہو کیسے گئی؟ جہلم کے جہاندیدہ چودھری فواد حسین زیر لب مسکراتے ہیں اور فرماتے ہیں ”اب آپ کو معلوم ہی ہے کہ ملاقات کیسے ہوئی“ ۔

اس سے پہلے کہ پیغام رساں کو بھیجنے والا منظر عام پر آئے مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن  نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں قومی مکالمے کی تجویز مسترد کر کے مفاہمتی پیغام رسانی کی دھجیاں اڑا دیں۔ جس پر اگلے دن وزیراعظم  نے قوم کو بتایا کہ اپوزیشن فوج سے یہ چاہ رہی ہے کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دے۔

قارئین! ان ملاقاتوں اور بیان بازیوں کا باہمی ربط آپ کو سمجھ آیا؟ نہیں آیا تو چھوڑیں، سمجھ مجھے بھی نہیں آیا۔ سچی بات ہے خاکسار کوا ن بڑی ملاقاتوں میں ہونے والی اندر کی بات ہی نہیں معلوم تو باہمی ربط کیا سمجھ آئے گا؟ معلوم تو مجھے یہ بھی نہ تھا کہ لاڑکانہ میں ہونے والی پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں کیا فیصلے ہوئے ہیں۔ لیکن غیبی علم کی حامل بعض ٹی وی سکرینوں اور فیس بک کے ثقہ بند مجاہدوں  نے کمیٹی اجلاس کے دوران ہی قوم کو یہ بتا دیا تھا کہ پیپلز پارٹی استعفے دینے سے مکر گئی ہے۔

اطلاع یہ بھی دی گئی کہ پارٹی قیادت نے لانگ مارچ کو بھی میاں نواز شریف کی واپسی سے مشروط کر دیاہے۔ خدا جانے شام گئے بلاول بھٹو زرداری کو کیا سوجھی کہ انہوں نے مقدس روحانی ذرائع سے حاصل کی گئی ان تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ پیپلز پارٹی اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام فیصلے پی ڈی ایم کی قیادت کو پیش کرے گی۔ بلاول نے وزیراعظم عمران خان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں ورنہ پی ڈی ایم لانگ مارچ کرے گی۔ ظاہر ہے ان کی یہ باتیں اندر کی خبریں دینے والے مقدس حلقوں کو ایک آنکھ نہ بھائی ہوں گی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کی صفوں پر بیانات کے تابڑ توڑ حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ تسلسل سے یہ بات دہرا رہی ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے۔ جواب میں اپوزیشن یہ کہتی ہے کہ این آر او تو وہ مانگ رہے ہیں جو اپنے پیغام رساں جیل میں قید بدعنوانوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھیج رہی ہے لیکن اب حکومت کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔

سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدابخش میں خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کا لہجہ انتہائی جارحانہ تھا۔ حکومت پر کشمیر کا سودا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مریم نواز شریف نے کہا کہ فوج پر تنقید کا سبب بھی وزیراعظم ہیں کیونکہ وہ اپوزیشن کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے فوج کا نام لیتے ہیں۔

قارئین! آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کالم میں پرانی خبروں کے ٹوٹے جوڑ کر میں کہنا کیا چاہ رہا ہوں۔ معذرت چاہتا ہوں یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ خبریں ہی اتنی ہیں، انسان تبصرہ کرے تو کس کس خبر پر۔ لیکن آپ کی اچھی خاصی سمع خراشی کے بعد خاکسار کو صرف چند سطور میں دو اور خبریں بیان کرنے کی اجازت دیجیے۔ یہ خبریں اتنی بڑی نہیں ہیں کہ ٹی وی چینلز پر ان کے لال سرخ ٹکرز چلے ہوں، شن شن کی آوازوں کے ساتھ بریکنگ نیوز میں خبر پڑھتی نیوز کاسٹر کا سانس پھول گیا ہویا پھر ان خبروں پر ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں تبصرے ہوئے ہوں۔ اخبارات میں بھی ان خبروں نے بہت کم جگہ پائی ہے۔

پہلی خبر جیل میں قید قائد ایوان کے پاس جانے والے پیغام رساں محمد علی درانی صاحب کی زبانی سنی ہے کہ قومی مکالمہ یعنی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ شروع ہو چکا ہے۔ میری کیا بساط کہ ایسے طاقتور پیغام رساں کی بات کو جھٹلا سکوں لیکن میں اس بات پر پریشان ضرور ہوں کہ میاں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد انہوں نے فرمایا تھا کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے لئے جیل میں قید تمام سیاسی قائدین کو رہا کرنا پڑے گا۔ ایسا ہے تو میاں شہباز شریف کو تو رہا کرنا پڑے گا۔

مجھے یہ خدشہ ہے کہ اس کے بعد میاں نواز شریف کو بھی سزا ختم کر کے رہا نہ کر دیا جائے کیونکہ جس جرم کی پاداش میں میاں نواز شریف کو نا اہلی اور قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں بالکل ایسے ہی مقدمے میں خواجہ آصف کی نا اہلی کو سپریم کورٹ اہلیت میں بدل چکی ہے۔ آپ اپنے اپنے سیاسی ذوق کے مطابق میرے خدشے کے درست یا غلط ہونے کی دعا کریں تو مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔

اب دوسری خبر بھی سن لیجیے۔ میاں شہباز شریف نے کیا رہا ہونا تھا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں سابق وزیر دفاع مسلم لیگ نون کے خواجہ آصف کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ راہداری ریمانڈ کے لئے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کی موقع پر خواجہ آصف نے اپنی گرفتاری کا سبب وزیراعظم عمران خان کو قرار دیتے ہوئے جاتے جاتے صحافی کی طرف ایک جملہ اچھالا ”نیب دا قنون ہنڑ انج ای رہوے گا“ ۔

لیکن ایک تازہ ترین ملاقات کا احوال ابھی باقی ہے۔ سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی اپنا پیغام  لے کر لاہور میں مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی پہنچے۔ ملاقات کے بعد سال گزشت ختم ہونے سے صرف تیس منٹ پہلے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں کی اپنی زبانی اس ملاقات کی جو اطلاع ہم تک پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ بقول محمد علی درانی میاں شہباز شریف نے ان کو یہ کہا کہ جو فیصلہ مولانا فضل الرحمان کا ہو گا وہی فیصلہ ہمارا بھی ہو گا اور مجھے مولانا فضل الرحمان سے بات کر کے امید ملی ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے لئے شرط صرف ایک ہے کہ وزیراعظم عمران خان مستعفی ہو جائیں اور نئے الیکشن کا اعلان کریں۔

کچھ پلے پڑا قارئین؟ نہیں تو آپ بھی سکون کریں اور گجرات کے چودھریوں کی طرح ایک طرف بیٹھ کر دہی کھائیں۔ کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ شاید کوئی نامعلوم طاقت ایسی ضرور ہے جو جمہور کی منزل کی راہ میں ٹانگ اڑا رہی ہے تاکہ اس کے گلشن کا کاروبار ایسے ہی چلتا رہے۔ خاکم بدہن پاکستانی سیاست کم از کم اگلے ایک عشرے تک سیاسی انتقام کی دلدل میں دھنس گئی ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا ”مجھے خدشہ ہے سب ایسا ہی چلے گا“ ۔

بشکریہ :روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).