انور مسعود، مخولیات اور ماحولیات



شام تک شام سی رہتی ہے
صبح آتی ہے پر نہیں آتی
بڑھ گیا شہر میں دھواں اتنا
”کوئی صورت نظر نہیں آتی“

پنجاب خاص طور پر لاہور کے ان دنوں کی اس سے بہتر اور منظوم تصویر کشی ممکن نہیں۔ اور یہ انور مسعود کے قلم کا خاصہ ہے کہ انتہائی پیچیدہ اور خشک موضوعات میں بھی طنز و مزاح سے چاشنی بھر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ قطعہ دیکھیے :

کیا دیکھنا ہے کچھ بھی دکھائی نہ دے اگر
کیا فائدہ کہ دید کا احساں اٹھائیے
ملتا ہے ایک غبار دھویں میں ملا ہوا
اک دھند روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے

2010 میں چھپنی والی جس کتاب سے یہ قطعات لیے گیے ہیں اس کے سرورق پرکالا دھواں چھوڑتی گاڑیاں، کٹتے روتے درخت اور ”میلی میلی دھوپ“ کے عنوان سے ظاہر ہے کہ اس شعری مجموعے کا موضوع ماحولیات ہے۔ شاید ماحولیات پر یہ پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں فضائی اور آبی آلودگی، شور، شجر کنی، شجرکاری، تحفظ ماحول، آب و ہوا اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے گمبھیر موضوعات کو قطعات، نظموں اور غزلوں میں باندھا گیا ہے ورنہ اردو شاعری، بقول امجد اسلام امجد غم جاناں، غم دوراں، عشق حقیقی اور عشق مجازی جیسے کلیشوں تک محدود رہی ہے۔ دیباچے میں انور مسعود تحریر کرتے ہیں کہ ”اس کتاب کے مطالعے سے قارئین کے دل میں ایک صاف ستھرے ماحول کے لیے کچھ لگن پیدا ہو جائے تو میں سمجھوں گا میری محنت رائیگاں نہیں گئی۔“

پیش لفظ میں امجد اسلام امجد لکھتے ہیں ”ماحولیات، بظاہر ایک بہت خشک اور غیر دلچسپ موضوع ہے جس پر اصلاحی، تعمیری اور معلوماتی قسم کا مضمون تو لکھا جا سکتا ہے مگر اسے شاعری اور پھر عمدہ اور دلچسپ شاعری کی زبان میں بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مقصدیت اور مزاح کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ جب وہ بڑے رواں دواں، سادہ، ہموار اور موثر انداز میں ہماری توجہ ان مظاہر فطرت اور ہمارے گرد پھیلی ہوئی زندگی کی طرف منعطف کراتا ہے جو اس ماحولیاتی آلودگی کے شکار ہونے کی وجہ سے ایک تباہی کے راستے کی طرف رواں دواں ہیں تو بے اختیار اس کے ہنر کی داد دینی پڑتی ہے۔“

اس مضمون میں فضائی آلودگی سے متعلق قطعات اور اشعار قارئین کے ذوق کی نذر ہیں۔

منیرؔ نیازی کی ایک مشہور غزل کی زمین میں چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
سر پر دھویں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آلودگی کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اک دوسرے کو اب کوئی پہچانتا نہیں
گرد و غبار شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
ہم سے ہوائے شہر کی بابت نہ پوچھئے
رگ رگ میں ایک زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

دھواں چھوڑتی بڑی گاڑیاں، فضائی آلودگی میں ایک اہم حصہ ڈالتی ہیں۔ اس بات کو انور مسعود نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔

میں کیسے اس کے پھیلاؤ کو روکوں
مری ہمت کے فوکس میں نہیں ہے
نہ پوچھو حال میری بے بسی کا
دھواں بس کا مرے بس میں نہیں ہے
ماحول کے تحفظ میں درختوں کا کردار کو شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے :
جلانا جسم اپنا دھوپ کی تپتی انگیٹی میں
مگر فرش زمیں پر چھاؤں کی چادر کو پھیلانا
درختوں سے کوئی سیکھے سبق حسن مروت کا
فضا کا زہر پی لینا مگر تریاق لوٹانا

ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے سماجی آگہی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انور مسعود نے اپنی شاعری سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اجتماعی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آلودہ ہوا سے سانس اور قلب سے متعلق بیماریاں بڑھتی ہیں اورسالانہ 7 ملین لوگ اس کی وجہ سے لقمۂ اجل بنتے ہیں۔ اس بڑھتی فضائی آلودگی میں انسانی سرگرمیوں کا مرکزی کردار ہے جسے انور مسعود نے ایک قطعے میں باور کرایا ہے :

تیرا اپنا ہی کیا آیا ہے تیرے سامنے
تو اگر بیمار پڑ جائے تو واویلا نہ کر
میں بتاتا ہوں تجھے صحت کا بنیادی اصول
جس ہوا میں سانس لیتا ہے اسے میلا نہ کر

فضائی آلودگی نباتات، حیوانات اور انسانوں کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی عمارات کی خوبصورتی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ انور مسعود ایک قطعے میں اس کو یوں بیان کرتے ہیں۔

اب اس کے سراپے سے دھواں لپٹا ہے، جس کی
تعمیر میں زیبائی تھی حافطؔ کی غزل کی
مرمر کی سلوں کی وہ چمک مر گئی ساری
پہلی سے وہ رعنائی کہاں تاج محل کی
”الاماں“ کے عنوان سے ایک نظم میں کمال کا تخیل ہے، ملاحظہ کیجئے۔
دیکھ! اس شہر کے مکانوں سے
گاڑیوں اور کارخانوں سے
ایک دن میں دھواں جو اٹھتا ہے
ایک طوفان ابر تیرہ ہے
یہ اگر علم کیمیائی سے
یا کسی حرف سیمیائی سے
ٹھوس حالت میں ہو سکے تبدیل
الاماں! الحفیظ! رب جلیل
شہر سارا اجاڑ ہو جائے
کوئلے کا پہاڑ ہو جائے

ایک جگہ انور مسعود صنعتی ترقی کے ماحولیاتی اثرات پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
صنعتی پیش رفت کے صدقے
موسم خوشگوار پایا ہے
شہر پر اب دھوئیں کی برکت سے
ایسا لگتا ہے ابر چھایا ہے

ماحولیاتی مسائل کی پیچیدگی کے مد نظر ان کے حل کے لیے ایک کثیر الجہتی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سائنس دان، انجینئر، معیشت دان، سماجیات دان، عوام، قانون ساز اور حکومت کو مل جل کر ان مسائل کے ممکنہ حل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شاعروں اور ادیبوں کی صف سے انور مسعود اپنا حصہ ڈال چکے۔ آئیے سوچیں کہ ہم کیسے اپنے حصے کی شمع جلا سکتے ہیں۔

بڑی مدت سے چشم و گوش و بینی
عذاب آلودگی کا سہہ رہے ہیں
مسلسل ہے یہ سیل آزمائش
بڑی شدت سے تینوں بہہ رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).