بے بی کا موبائل اور ادھوری فلم


دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا؛ فلم سیٹ تک نہیں جا سکی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ فلم صرف منصوبہ بندی کے مراحل میں اٹکی ہو، بہت سا کام مکمل بھی کر لیا گیا تھا۔ کہانی مکمل تھی، پہلے دو ایکٹ کا سکرین پلے لکھا جا چکا تھا، تین گانے ریکارڈ ہوچکے تھے اور کوریو گرافر استاد دتہ کی ہدایت میں ان دھنوں پر رقص کی مشق چلتی رہتی تھی۔ معاون کردار نبھانے والے اداکار چن لئے گئے تھے اور ہیرو کا انتخاب بھی ہو چکا تھا۔ بس اب ہیروئن کی سنگا پور سے پاکستان آمد کا انتظار تھا۔ فلم پروڈیوسر شاہنواز نے، جو اتفاقاً ان دنوں سنگاپور میں ہی موجود تھا، ساری عکس بندی، خصوصاً ہیروئن کے مناظر، دسمبر میں مکمل کرنے کی ہدایت دے رکھی تھی۔

رشید پلمبر کے پانچوں لڑکوں میں سے ایک شاہنواز ہی کام کا نکلا تھا۔ باقیوں نے تو اپنی زندگی رینچ اور ہتھوڑی سے زور آزمائی کے لئے ہی وقف کر دی تھی مگر شاہنواز آوارہ ہو گیا اور یہاں وہاں بھٹکتا رہا۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ اس کے جانے پہچانے شہر کے بیچ و بیچ ایک قلعہ بند سی دنیا تھی جہاں سے کوئی اونچی مخلوق اپنی گاڑیوں میں نمودار ہو کر شاپنگ مالز کی پارکنگ میں غائب ہوجاتی تھی۔ وہ اس قلعے کی آس پاس منڈلاتا رہا کہ شاید کوئی سرنگ مل جائے جس میں رینگ کر وہ اندر جا سکے، شاید کوئی طاق ہو جس میں سے اندر کی روشنی باہر آتی ہو۔ اس کا طواف جاری رہا یہاں تک کہ ایک رحم دل چوکیدار نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا۔ کچھ سال بعد اس کا نام سنگاپور سے پام آئل درآمد کرنے والے بڑے تاجروں میں سر فہرست تھا۔

کام کے سلسلے میں اس کا سنگاپور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک دورے کے دوران اس کی ملاقات ایلینور سے ہوئی۔ کسی حسن شناس کے لئے وہ ایک عام سا چہرہ تھا مگر شاہنواز کو اس میں کچھ بھا گیا۔ شاید جس انداز سے اس نے کافی پیش کی، اس کی ٹوٹی پھوٹی مگر پر اعتماد اردو، یا پھر اس کی آنکھوں سے پھوٹتی حیرت۔ وہ حیرانی نہیں جو عموماً سادہ لوح گھبرائے ہوئے چہروں پر نظر آتی ہے، نہ وہ استعجاب جو شاہنواز کی بیوی کے چہرے سے ہمہ وقت جھلکتا تھا، بلکہ ایسا تحیر جس سے ایک نومولود بچہ دنیا کو دیکھتا ہے۔ شاہنواز نے شدت سے محسوس کیا کہ بیرا گیری اس حسینہ کے شایان شان کام نہیں تھا۔

اسے وہ دورہ طویل کرنا پڑا۔ ہر شام، ہوٹل کے کمرے کی بالکونی پر، ایلینور سورج کو غروب ہوتے دیکھتی، جب کہ وہ اس تغیر کا اثر اس کے چہرے پر تلاش کرتا۔ ایسی ہی ایک شام کی رات وہ اسے ایک پاکستانی فلم انہماک سے دیکھتے ہوئے پوچھ بیٹھا ”کیا تمہیں پاکستانی فلمیں پسند ہیں؟“ اس نے شاہنواز کو بتایا کہ کسی دور میں اس کی ماں ایک بڑے ہوٹل میں ملازمہ تھی جہاں 90 کی دہائی میں کئی بار پاکستانی فلمی ستارے عملے سمیت قیام کر چکے تھے۔ اس نے ایک آدھ فلم کی عکس بندی بھی دیکھی تھی جسے دیکھتے ہوئے اس کے دل میں یہ خیال بھی ابھرا تھا کہ کاش وہ بھی اس منظر کا حصہ ہو۔

اپنی خواہش کا اس سے زیادہ برملا اظہار ممکن نہیں تھا۔ شاہنواز نے دو فون کالز میں اس کی خواہش کو حقیقت میں بدل دیا۔

پہلی کال شاہنواز نے اپنے دوست بلا جی کو کی جو فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کیا کرتا تھا۔ ایک گھنٹے تک اسے دوسری کال موصول ہوئی جو ہدایت کار حسن جاوید کی تھی۔ اس کال میں مختصر بات ہوئی۔

میں ایک فلم بنانا چاہتا ہوں۔
ایلینور ہیروئن ہوگی۔
کتنے پیسے لگیں گے؟
اور اگر پاکستان میں شوٹنگ کریں تو؟ اچھا ٹھیک ہے۔

شاہنواز سنگاپور میں ایک ہفتہ مزید رکا، اس سے زیادہ قیام ممکن نہ تھا۔ وہ ایلینور کو بھی اپنے ساتھ پاکستان لانا چاہتا تھا تاہم ہدایت کار نے اس پر واضح کر دیا کہ اتنی جلدی شوٹنگ شروع ہونے کی قطعاً امید نہ رکھے۔ عکس بندی کی شروعات جن لوازمات سے مشروط تھی، ان کے لئے وقت درکار تھا۔ چنانچہ ہیروئن کی پاکستان آمد کی پہلی تاریخ چار ماہ بعد یعنی فروری کی طے کی گئی، جو بعد میں اس کے کاغذات اور ویزا مسائل کی وجہ سے موخر کرنی پڑی۔ دو ماہ میں وہ مسائل حل ہو گئے، شاہنواز کی خواہش تھی کہ شوٹنگ مئی میں کر لی جائے مگر برف باری اور برف سے ڈھکے پہاڑ، فلم کی بصری کشش (ویژوئل اپیل) کے لئے ضروری تھے اور اسکرپٹ کے کئی سیکوئنسز کا لازمی جز تھے لہذا نومبر دسمبر تک شوٹنگ ممکن نہ تھی۔

شاہنواز چاہتا تھا کہ شوٹنگ سے نمٹ کر وہ ایلینور کو پاکستان کے مختلف حصوں کی سیر پر لے جائے۔ وہ بے صبری سے دسمبر کا انتظار کر رہا تھا۔ ستمبر تک سب ٹھیک تھا۔ اکتوبر میں شاہنواز کے سسر نے اپنے علاج کے لئے سنگاپور جانے کا فیصلہ کیا اور ظاہر ہے کہ شاہنواز کو ان کے ساتھ جانا تھا۔ اس کے سسر، اس کے امیر ہونے کے بعد والے رشتہ داروں میں سے تھے ورنہ وہ کسی حیلے سے انہیں منع کر دیتا۔

سسر کے آپریشن اور مکمل صحت یابی میں دسمبر بھی گزر گیا مگر شاہنواز کو پاکستان واپس آنے کا موقع نہ ملا۔ حتیٰ کہ سنگاپور میں قیام کے دوران بھی اس نے ایلینور سے ملنے سے احتراز کیا کہ کہیں اس کا سالا، جو ان کے ساتھ ہی موجود تھا، کوئی اشارہ نہ پا لے۔ اس طرز عمل سے ایلینور کو کچھ مایوسی ہوئی۔

جنوری فروری میں عکس بندی ممکن تھی، مگر کیمرہ مین فیصل، ہدایت کار کے پاؤں پڑ گیا۔ شادیوں کا موسم آنے والا تھا اور وہ کسی صورت اپنی دیہاڑی ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ ویڈیو سروس میں اس کے شریک، ایڈیٹنگ والے لڑکے (جو کہ اس فلم کی تدوین کے ذمہ دار بھی تھے) قطعاً شادیوں کی بکنگ منسوخ نہیں کریں گے، چاہے انہیں خود کیمرہ اٹھا کر کیوں نہ جانا پڑے۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں انہوں نے ٹھیک سے ویڈیو اور فوٹو بنا لئے تو کیا ہوگا؟

بالآخر ہدایت کار نے التجائی انداز میں شاہنواز کو یہ سمجھایا کہ جنوری اور فروری میں فلم کی کاسٹ اور عملے کے اہم ارکان کی عدم دستیابی کے باعث یہ ممکن نہیں تھا۔ شاہنواز بہت سٹپٹایا، لے دے کر بات جون جولائی پر طے ہوئی۔ مگر پھر برف سے ڈھکے پہاڑوں کا کیا ہوا؟

ہدایت کار کے مطابق اس کا واحد حل یہ تھا کہ اسکرپٹ میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں۔ بصری کشش کے متعلق اس نے فقط اتنا کہا کہ ”وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں“ ۔

حسن جاوید ایک منجھا ہوا ہدایت کار تھا۔ ان دنوں وہ کچھ ضرورت مند بھی تھا تاہم اس نے پروڈیوسر کو اس بات کا بالکل احساس نہیں ہونے دیا اور دوسری نشست میں ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ فلم صرف پیسے سے نہیں بنتی اور یہ کام باقی کاروباروں کی طرح نہیں ہے۔ حسن نے اس منصوبے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط طے کیے تھے۔ فلم سازی میں شامل ہر عمل کو باقاعدہ مراحل میں تقسیم کیا گیا تھا جس کے لیے اس نے ٹاسک کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ہر ٹاسک خواہ وہ ملبوسات کا چناؤ ہو یا گانوں کے بول لکھنے کی نشست، اس کے لیے مدت تکمیل اور درکار رقم طے کی جاتی تھی۔ ہر ٹاسک کی تکمیل پر متعلقہ اداکاروں، موسیقاروں یا دیگر عملے کو ان کی دیہاڑی ادا کر دی جاتی۔

حسن کے اس پیشہ ورانہ طرز عمل سے نہ صرف فنکار اور عملہ خوش تھے بلکہ اس سبب اسکرپٹ اور حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے جگہ بنانا بھی آسان تھا۔ مثال کے طور پر، پچھلے سال کے اوائل میں جب ایک بزرگ اداکار سردیوں کی نذر ہو گئے تب ان کا متبادل ڈھونڈنے کے لئے ایک ہنگامی ٹاسک ترتیب دیا گیا اور یوں دو دن کے اندر اندر ان کا متبادل چن لیا گیا۔ اسکرین ٹیسٹ میں شامل کیمرہ مین، اسسٹنٹ، اداکاروں اور اسٹوڈیو کے مالک کو معقول معاوضہ موقع پر ہی ادا کر دیا گیا جس کے سبب یہ کام خوش اسلوبی سے انجام پایا۔

شاہنواز اپنے سسر اور سالے سمیت، ایلینور سے بنا ملے ہی پاکستان واپس آ گیا۔ وطن واپس آتے ہی اسے کاروباری مصروفیات نے گھیر لیا۔ شدید خواہش کے باوجود ایلینور سے مستقل رابطہ رکھنا مشکل ہو گیا۔ ایلینور اس کی مصروفیات کو سمجھتی تھی مگر نظر انداز کیے جانے کا احساس اسے تکلیف دے رہا تھا۔ شاہنواز نے اسے منانے کے لئے ہر ہفتے میں ایک دن (عموماً اتوار) ویڈیو کال کے لئے مختص کیا۔ وہ اکثر اپنے دفتر میں یا اسٹوڈیو آ کر یہ کال کیا کرتا۔ اگر یہ دونوں جگہیں دستیاب نہ ہوتیں تو وہ پرانے شہر میں واقع اپنے آبائی گھر چلا جاتا، جو اب بطور گودام استعمال ہوتا تھا۔

مگر پھر ایک اتوار اسے اپنے سسر کی مزاج پرسی کے لئے جانا پڑا اور انہوں نے اصرار کر کے اسے رات وہیں ٹھہرا لیا۔ اگلی صبح اس نے غسل خانے میں ایلینور کا چھوڑا وائس میسج سنا۔ وہ اب مزید اس تعلق کو جاری نہیں رکھنا چاہتی تھی، اس نے شاہنواز کو آخری الوداع کہا تھا اور اسے اپنے اہل و عیال کا خیال رکھنے کی تاکید کی تھی۔ شاہنواز نے اسے کئی بار کال بیک کرنے کی کوشش کی مگر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ چار و ناچار اس نے سنگا پور میں اپنے روابط کی مدد سے ایلینور کی سابقہ ملازمت کی جگہ سے اس کا لینڈ لائن حاصل کیا مگر وہاں بھی فون ہر بار اس کی ماں نے اٹھایا جس نے ایلینور کی غیر موجودگی کے بارے میں بتا کر لائن فوراً کاٹ دی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2