سوال غدار ہے!



اسلام آباد میں ایک نو عمر لڑکے کے جسم میں 22 گولیاں پیوست کردی گئیں اور یہ گولیاں معصوم شہری کو کسی یہودی، کافر، بھارتی فوج نے نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کی پولیس نے ماریں۔ تصویر کی ایک جانب مرنے والے کا ہنستا مسکراتا شرارت اور معصومیت سے بھرپور چہرہ ہے تو دوسری جانب اس کی خون آلودہ لاش، وہ آنکھیں جنہوں نے ابھی خواب دیکھنا شروع کیا ہی ہوگا وہ اب چڑھی ہوئی بے سدھ پڑی ہیں۔ اب میں کیا لکھوں کہ 22 گولیوں سے چھلنی اپنے لخت جگر کو دیکھ کر اس کے ماں باپ پر کیا گزری ہوگی۔ یہ سوال دردناک سہی لیکن اس ریاست میں اجڑنے والی گود لیے بیٹھی ماؤں کے لیے نیا نہیں۔ میں یہ کہہ بھی دوں کہ اس بچے کی لاش دیکھ کر بے اختیار مجھے اس میں اپنا بھائی نظر آیا جس کو دیکھ کر میری روح لرز اٹھی ہے تو یہ کون سا پہلی بار ہوا ہے؟

ساہیوال میں گاڑی میں بیٹھے خاندان کا کم سن بچوں کے سامنے قتل تو یاد ہی ہو گا اور کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کی موت کو تو ابھی چند مہینے ہی گزرے ہیں۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ نفرتوں اور ماورائے عدالت ہونے والے قتل ہونے والے افراد کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سے بہت سوں کے نام تو منظر عام پر بھی نہیں لائے جاتے اور اگر کوئی ایسی جرأت کر بھی لے تو نیم سرکاری چیلے غداری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں دیر نہیں کرتے۔

اس وقت بھی عزت مآب وزیراعظم صاحب نے اس کلیجہ چھلنی کر دینے والے واقعے کا نوٹس لینا ہی گوارا نہیں کیا ، یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ انصاف دلانے کا وعدہ کر بھی لیں تو بھی زیادہ سے زیادہ مذمت کے علاوہ کیا کر لیں گے؟ آخر مشال کے لرزہ خیز قتل کے بعد اس کے والدین سے بھی تو کچھ ایسے ہی روایتی وعدے کیے گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسامہ کا بہنے والا خون ایک عام شہری کا خون ہے جسے اکیس توپوں کی سلامی نہیں دی جائے گی ، یہ خون ریاست کے لیے اتنا بھی اہم نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ ’ایہہ پتر وی ہٹاں تے نئیں وکدے‘ یہ سوائے اس کو جنم دینے والی، اپنا لہو پلا کر جوان کرنے والی ماں کے علاوہ کسی کے لئے اہم نہیں۔ کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو کیا کوئی ماں بھی اولاد کی بلی لیتی ہے؟

ہم نے تو بچپن سے گریجویشن تک مطالعہ پاکستان کی کسی بھی کتاب میں یہ ’خرافاتی نظریہ‘ نہیں پڑھا کہ ریاست کا بنیادی فرض عوام کے جان، مال، عزت اور حقوق کا تحفظ ہے کیونکہ ہمیں تو یہی بتایا، رٹایا جاتا رہا ہے کہ ہم ہمیشہ سے ہی کتنی انوکھی مخلوق ہیں لہٰذا خصوصی طور پر ہمارے لیے یہ مقدس زمین حاصل کر کے ہم پہ جو عظیم احسان کیا گیا ہے اس کا حق یہی ہے کہ بجائے ہم ریاست سے اپنے حقوق کا سوال کر کے غداری کے مرتکب ہوں، اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون کی بلی چڑھا کر ریاست کی لمبی عمر کی دعائیں کرنا ہی ہمارا دھرم ہونا چاہیے ۔ اس لیے اگر کسی پولیس والے نے ایک معصوم نہتے طالب علم کو 22 گولیاں مار بھی دیں تو اس پر اداروں یا عوامی منورنجن کے لیے ٹی وی ڈرامے منتخب کرنے اور فیس بک پر اپنے کرکٹ کے دور کی تصویریں پوسٹ کرنے میں مصروف وزیراعظم سے باز پرس کر کے ملک سے سنگین غداری کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

وہ خوف جو بنگالی خون بہا کر، ان کی عورتوں کی عزت پامال کرنے کے بعد نصاب کے ذریعے ہماری نسوں میں اتارا گیا، دن دیہاڑے جیتے جاگتے فرد کو غائب کر کے رٹایا گیا کہ کچھ بھی ہو جائے ریاست سے سوال کرنا غداری کے زمرے میں میں آتا ہے اور ہم عام شہری صرف ریاست پر قربان ہونے کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں وہی خوف سندھ، بلوچستان کے بعد اب اسلام آباد جیسے پوش شہر کے نوجوانوں کے قتل پر بھی سوال نہیں اٹھانے دے رہا۔ وہ دن بھی دور نہیں جب ہر گلی، ہر گھر اپنے کسی بیٹے کی لاش کو بیٹھا رو رہا ہو گا لیکن سوال نہیں کر سکے گا کیونکہ سوال کرنا ریاست سے غداری ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).