ایک ہی چاند تھا سرآسماں


فاروقی صاحب سول لائنز کے ہیسٹنگس روڈ کی بڑی کوٹھی میں رہتے تھے جس کی مکانیت کا بڑا حصہ ان کی لائبریری پر مشتمل تھا۔ کوٹھی کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد لان پار کر کے اندر جانے کا ایک راستہ سیدھے لائبریری میں کھلتا تھا جس میں دونوں طرف کتابوں کی الماریاں تھیں۔ الماریوں کے اوپر بھی کتابیں تھیں۔ درمیان میں کانفرنس روم کے طرز کی لمبی میز تھی جس کے دونوں طرف کرسیاں تھیں۔ کمرے کے ایک کونے پر فاروقی صاحب کے مطالعے کی وہ میز جس پر کمپیوٹر نے جگہ بنالی تھی، ہے اور دوسری طرف ایک صوفہ۔ میں ہمیشہ اسی دروازے سے ان کے گھر میں داخل ہوا اور اکثر لائبریری میں بیٹھا رہتا۔ مجھے اوپر کی منزل پر جو لائبریری ہے اس کا صحیح اندازہ نہیں مگر سنا ہے کہ جیسی لائبریری نیچے ہے ویسی ہی اوپر بھی ہے۔ نیچے کی منزل میں، جس کمرے میں بھی جانے کا مجھے اتفاق ہوا، اس میں بھی ہر طرف کتابیں ہی ہوتی تھیں۔

کوٹھی کی یہ زمین الٰہ آباد کے پہلے ایڈمنسٹریٹر (یہ ایک مخصوص عہدہ تھا جو کچھ برسوں بعد ختم ہو گیا) سید حامد کے دور میں انھوں نے خریدی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ سرکاری زمین تھی مگر اس وقت وہاں آبادی نہ تھی۔ اس زمانے میں پکی سڑک جہاں بھی ہو گی، وہاں سے فاروقی صاحب کی درخواست پر ان کی کوٹھی تک سڑک کی تعمیر اور سڑک پر بجلی کے کھمبے محمود بٹ (جو سلمان رشدی کے ماموں تھے ) کے زمانے میں ان کے ایک آرڈر پر چند دن میں لگ گئے تھے۔ محمود بٹ کے ایڈمنسٹریٹر کے زمانے کو الٰہ آباد کے لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں۔ بٹ کا دو لائن کا وہ آرڈر جو سڑک کی تعمیر اور بس وہیں تک بجلی کے کھمبوں کے نصب ہونے سے متعلق تھا، جہاں فاروقی صاحب کوٹھی بنا رہے تھے، فاروقی صاحب کو زبانی یاد تھا۔

میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انہیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کر لیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی جن میں اکثریت غالب اور عہد غالب سے متعلق تھی۔ میں جن مضامین کی بات کر رہا ہوں، وہ سب ان کے موجودہ کمپیوٹر میں ہیں۔ اس کے علاوہ ای میل اور یو ایس بی میں جو ہوں گے، وہ الگ ہیں، اور وہ بھی بہت ہوں گے۔

انھوں نے کوئی بیس برس پہلے تمام کام کمپیوٹر پر ہی کرنا شروع کیا تھا، اس لیے یہ تحریریں گزشتہ بیس برس کی ہیں۔ انہوں نے ایک سے زیادہ ای میل آئی ڈیز ان بیس برسوں میں استعمال کیں، اس لیے، دونوں یا تینوں ای میل آئی ڈیز کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان تحریروں میں ایک مکمل مقالہ وہ ہے جو انھوں نے کیمبرج یونی ورسٹی کی دعوت پر لکھا تھا مگر بعد میں یونی ورسٹی کے خسیس رویے کی وجہ سے انھوں نے کیمبرج جانے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے وہ کہیں شائع نہیں ہوا تھا۔

آہستہ آہستہ میں نے انھیں اردو میں نامکمل تحریروں کی فہرست تیار کرنے کے لیے بھی راضی کر لیا۔ جب یہ فہرست بنی تو ہوش اڑ گئے۔ مختلف اوقات میں لکھی گئی تقریباً بیس ایسی اردو تحریریں نکل آئیں جو غالب سے متعلق تھیں۔ انگریزی تحریروں کی تعداد جیسا کہ عرض کیا گیا، اس سے بھی زیادہ تھی۔ انگریزی تحریروں کا متن سنگل اسپیس میں تین سو صفحات کے قریب تھا اور یہ فہرست کسی بھی طرح اس لیے مکمل نہیں کہی جا سکتی کہ ہر فائل اور ہر فولڈر کو کھول کر دیکھنے کے بعد اس میں قابل ذکر اضافہ یقینی ہے۔

اردو تحریروں میں قومی اردو کونسل کے اردو انسائیکلو پیڈیا کے لیے فاروقی صاحب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے 149 صفحات کی وہ تحریر بھی ہے جو اردو زبان کی تاریخ سے متعلق ہے، اور جس کے مندرجات ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ سے قطعی مختلف اس لیے ہیں کہ جو وہ ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ میں لکھ چکے تھے، اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ پروجیکٹ قومی اردو کونسل نے اس وقت شروع کیا تھا جب وہ اس کے نائب صدر تھے، اور ان کی مدت ختم ہونے کے بعد غالباً یہ پروجیکٹ بھی بند ہو گیا۔

پھر معلوم ہوا کہ اس درمیان میں ایسی بہت سی چھوٹی بڑی تحریریں بھی ہیں جو کمپیوٹر پر اردو میں لکھی گئیں مگر ان پیج کے مختلف ورژن اتنے پیچیدہ ہیں کہ انھیں کسی ایک ورژن میں منتقل کرنا مشکل ہے، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اردو تحریروں کے بارے میں طے ہوا کہ نوشاد کامران کی مدد سے انھیں یکجا کر کے انجمن سے شائع کیا جائے گا۔ نوشاد نے الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ہی اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے، اور انھیں فاروقی صاحب کے یہاں نیاز حاصل تھا۔

فاروقی صاحب نے وہ لغت جس پر وہ کام کر رہے تھے، اس کو بھی ان پیج کے کسی ایسے ورژن میں ٹائپ کیا تھا کہ وہ صرف اسی کمپیوٹر پر کھل سکتا تھا جس میں ان پیج کا وہ مخصوص ورژن ہو جو کافی مہنگا ہے اور دہلی میں کسی کے پاس نہیں۔ یہ انہیں پاکستان سے کسی نے بھیجا تھا۔ انجمن میں خاص طور پر یہ ورژن خریدا گیا اور طے ہوا کہ انجمن کے ایک ماہر عبدالرشید صاحب کچھ دن الٰہ آباد جا کر رہیں تاکہ یہ کام ایک ہی ورژن میں منتقل ہو جائے اور انجمن اسے شائع کر دے۔ یہ کتاب انھوں نے انجمن کو بھیجی تھی مگر جب فائل نہ کھل سکی تب جا کر یہ عقدہ کھلا کہ ان پیج کے مختلف ورژن میں ان کی بہت سی نامکمل تحریریں ان کے کمپیوٹر میں ہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ رشید صاحب الٰہ آباد جاتے اچانک مارچ 2020 میں لاک ڈاؤن ہو گیا۔

’اردو ادب‘ کا اپریل تا جون 2020 کا جو شمارہ شائع ہوا، اس میں تمام تر احتیاط کے باوجود کئی ایسی چیزیں شائع ہو گئیں جو فاروقی صاحب کے لیے تکلیف کا سبب بنیں۔ میں اس کی کوشش کرتا تھا کہ ایسا کچھ نہ ہو جس سے انہیں تکلیف پہنچے مگر پھر بھی کبھی کبھی کچھ ایسا ضرور اس لیے ہو جاتا تھا کہ میں فاروقی صاحب کے طویل ادبی سفر سے اس طرح واقف نہ تھا کہ مجھے ان تمام مباحث کا علم ہو جو ’شب خون‘ کے زمانے میں یا ’شب خون‘ یا پھر خود فاروقی صاحب کی ذات کی وجہ سے تلخی کے دائرے میں آتے تھے۔

پڑھنے کے لے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6