کیپیٹل ہل: کیا پارلیمنٹ پر مظاہرین کے حملے کے بعد امریکہ کا پاکستان سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟


Supporters of Donald Trump clash with police officers in front of the US Capitol
'ہم ملک میں تیزی سے بدلتی صورتحال کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں اور ہمیں اس پر تشویش ہے۔ ہماری تمام فریقین سے گزارش ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں اور ہم بات چیت کے عمل میں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

یہ جملے اکثر امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے کسی ایشیائی یا افریقی ملک کی صورتحال پر بطور تبصرہ سننے کو ملتے تھے لیکن چند گھنٹوں پہلے تک پاکستانیوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ لگ بھگ انہی الفاظ کے ساتھ امریکہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کریں گے۔

گذشتہ روز امریکی کانگریس کی جانب سے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ توثیق کے عمل کے دوران صدر ٹرمپ کے حامیوں کا کپیٹل ہل پر چلے جانا پاکستان سمیت دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین کے لیے نیا تھا اور وہ کچھ انہی الفاظ کے ساتھ وہاں کی سیاسی صورتحال پر تبصرے کرتے اور تشویش کا اظہار کرتے نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیے

کیپیٹل ہل کا محاصرہ تصاویر میں

’انھوں نے زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی، پھر میں نے گولی چلنے کی آواز سُنی‘

کانگریس کی بائیڈن کی فتح کی توثیق، ٹرمپ کا اقتدار کی پرامن منتقلی کا وعدہ

تاہم صرف عام عوام ہی نہیں بلکہ دنیا کے متعدد مملک کے رہنماؤں نے بھی امریکہ کی سیاسی صورتحال پر کچھ اسی قسم کا ردعمل دیا۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندرمودی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ انھیں ’واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے فسادات اور تشدد پر تشویش ہے اور اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانا چاہیے۔‘

وزیراعظم نریندرمودی کے علاوہ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ترکی اور برطانیہ کے سربراہان نے بھی کیپیٹل ہل پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کی۔ برطانوی وزیراعظم نے تو ان مناظر کو ’شرمناک‘ تک کہہ ڈالا۔

یہ امریکہ ہے یا پاکستان؟

امریکی صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے امریکی کانگریس پر حملے کی خبریں سامنے آنے کے بعد بہت سے پاکستانی سوشل میڈیا صارفین امریکی سیاسی صورتحال کا موازنہ پاکستان کی سیاسی صورتحال سے کرتے دکھائی دیے۔

کسی نے اس کا موازنہ سنہ 2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے حامیوں کا پاکستان کے پارلیمان اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملے سے کیا تو کسی نے کپیٹل ہل پر مظاہرین کے دھاوا بولنے کے مناظر کو پاکستان میں سنہ 1999 مںی نافذ کیے گئے مارشل لا کے مناظر سے تشبیہ دی۔

تاہم صحافی کامران یوسف اس موازنے سے متفق نظر نہیں آئے ان کا کہنا تھا ’کہ سنہ 2014 میں پی ٹی وی پر ہونے والے حملے اور امریکی کانگریس پر ہونے والے حملے میں یہ فرق ہے کہ امریکی میڈیا یک زبان ہو کر اس کی مذمت کر رہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا (کے چند حلقوں) نے اس حملے کو سراہا تھا۔‘

پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے والے بھی امریکہ میں پاکستان جیسی صورتحال پر پریشان نظر آئے اور ٹوئٹر پر کورونا سے متعلق اہم معلومات دینے کے لیے مشہور پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر فہیم کا کہنا تھا کہ ’میں اسی سے بچنا چاہتا تھا جب میں پاکستان چھوڑا تھا۔‘

پاکستان میں حزب اختلاف کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے بھی اس موقع پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پر تنقید اور طنز کے تیر چلائے۔

سابق وزیر مسلم لیگ نون کے احسن اقبال کا کہنا تھا ’عمران نیازی نے اپنے حمایتیوں کے ساتھ 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس پہ حملہ کر کے جو درخشاں مثال قائم کی تھی بالآخر 2021 میں صدر ٹرمپ اپنے حامیوں کے ساتھ امریکہ میں اسے فالو کر رہے ہیں۔۔ کہیں تو پاکستان امریکہ سے چھ سال آگے ہے۔۔۔’

https://twitter.com/betterpakistan/status/1346917583203807236

جبکہ چند ٹوئٹر صارفین کی جانب سے اس صورتحال کو امریکہ کے لیے مکافات عمل قرار دیا گیا۔

صارف انور لودھی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ دوسرے ملکوں میں جمہوریت کے نام پر بدامنی اور انتشار کا جو کھیل کھیلتا رہا ہے آج اسے اپنے ملک میں اسی کھیل کا سامنا ہے۔‘

جب امریکی صدر ٹرمپ کے حامیوں کے جانب سے کپیٹل ہل کا محاصرہ جاری تھا تو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں انھوں نے حملہ آوروں اور حملے کی مذمت تو نہیں کی لیکن الیکشن میں دھندلی کے الزامات دھراتے ہوئے اپنے حمایتیوں سے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی تلقین ضرور کی۔

تاہم اس ویڈیو کو ٹوئٹر اور فیس بک کی جانب سے یہ کہہ کر ہٹا دیا گیا کہ یہ پیغام مزید انتشار اور بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ 12 جبکہ فیس بک نے 24 گھنٹوں کے لیے معطل بھی کر دیا، جس پر متعدد پاکستانی اور عراقی صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آئے کہ کیا ایسے شخص کے ہاتھ میں ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں جس کو اپنا سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں؟

یہ دن امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ جمہوریت کے لیے بھی سیاہ دن ہے

اقرا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور امریکی سیاست اور خارجہ امور کے ماہر ڈاکٹر تصور حسین کا کہنا ہے امریکی تاریخ میں بہت سے پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن سنہ 1812 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکی کانگریس پر حملہ کیا گیا ہو۔

ماضی اور حال کے حملوں کا موازنہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1812 میں بھی کپیٹل ہل پر حملہ برطانوی سامراجی فوج کی جانب سے کیا گیا تھا جبکہ آج یہ حملہ امریکوں کی جانب سے خود کیا گیا ہے۔

Capitol police point guns at a protester from inside the Senate chamber

’یہ دن نہ صرف امریکی جمہوریت بلکہ پوری دنیا کے جمہوریت کے لیے سیاہ دن ہے کیونکہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کی جمہوری روایات اور جمہوری نظام دنیا کے متعدد مملک میں بطور ماڈل اپنایا گیا اور امریکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ، افریقی اور ایشائی ممالک میں جمہوری اقدار کے فروغ پر زور دیتا نظر آیا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر کئی ممالک جیسا کہ عراق، شام، ویتنام اور افغانستان میں بزور طاقت حکومت کی تبدیلی میں بھی ملوث رہا ہے۔‘

ڈاکٹر تصور حسین کا کہنا ہے کہ اس واقع سے امریکہ کا تشخص بطور بہترین جمہوریت بہت متاثر ہوا ہے، جسے دوبارہ بحال کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

کیا امریکہ کی صورتحال پاکستان جیسی ہے؟

ڈاکٹر تصور حسین متعدد ٹویٹر صارفین کے اس تبصرے سے متفق نہیں کہ امریکہ کی سیاسی صورتحال پاکستان جیسی ہے یا آئندہ کچھ دنوں میں حالات مارشل لا کی طرف جا سکتے ہیں۔

ان کے مطابق ‘ہم پاکستان کی لیڈرشپ کا موازنہ امریکی لیڈرشپ سے تو کر سکتے ہیں لیکن امریکی سیاسی اداروں کا موازنہ پاکستان کے اداروں سے نہیں کیا جا سکتا۔’

ڈاکٹر تصور حسین کے مطابق امریکی جمہوری ادارے اپنی جمہوری اقدار کا تحفظ کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ امریکی پارلیمان، عدالتیں اور سکیورٹی ادارے اتنے مستحکم ہیں کہ وہ جمہوریت کا تسلسل یقینی بنا سکیں۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں۔

‘لہٰذا ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کا طرز حکومت امریکی صدر ٹرمپ جیسا ہے لیکن وہاں کی سیاسی صورت حال پاکستان جیسی نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp