کب تک اس شاخ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی


پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے ، یہ دھرتی ماں ہمیں اپنی جان سے بھی پیاری ہے۔ ہمارا پیارا وطن ہمارے زندہ خوابوں کی تابندہ تعبیر ہے۔ ارض وطن زندہ قوموں کے لیے روشنی اور نکہت و نور کا استعارہ ہوا کرتا ہے۔ ہمارا پیارا وطن ایسے ہے جیسے ہولے ہولے اترتی ہوئی سرمئی شام کا حسین منظر، ارض وطن مہر و مہتاب اور ہر دم جواں رہنے والی کہکشاؤں کی روشنی، ارض وطن زمستانی ہواؤں کی مقدس خوشبو، ارض وطن سفید چاندی سے نہائی ہوئی پاکیزہ رت، وطن آب نیل کی جھلملاہٹ، دجلہ اور فرات کی عظمت، گنگا و جمنا کے تقدس اور چناب کی روانی کا پر وقار روپ بن کر ہمارے دل کی زمینوں سے پھوٹتا ہے۔

وطن مامتا کی محبت بھری آغوش بن کر اپنے نافرمان بچوں تک کو پناہ عطا کر دیتا ہے۔ وطن میں امن اور سکون ہونے سے ہی پھولوں میں خوشبو اور پھلوں میں رس بھرا ہوتا ہے۔ ہمارے حسین ترین، محبوب، پرامن وطن کو نہ جانے کس بدخواہ کی نظر لگ گئی، اس کا امن درہم بر ہم ہو گیا۔ ابن آدم ابن آدم کا گلا کاٹ کر مسرور نظر آنے لگا،  قتل و غارت، ، راہزنی، اغوا برائے تاوان، روزمرہ کا معمول بن گیا، وہ دھرتی جس پر رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو فضاؤں کو معطر کرتی تھی آج جب ظلم کی آندھیوں نے زور پکڑا تو پھولوں اور کلیوں سے خون کی بو آنے لگی۔ دہشت گردوں نے اس دھرتی پر ایسی دہشت پھیلائی کہ فضا گولیوں سے گونجنے لگی، اور ارض وطن کا قریہ قریہ نوحہ کناں ہو گیا۔ دہشت گردی کا طوفان بستیاں اجاڑتا چلا گیا۔

پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردوں کے حملوں اور ان کے ظلم و جبر کا سامنا کر رہا ہے۔ ان دہشت گردوں کی دہشت گردی کی وجہ سے راکھ میں دبی چنگاریاں ایک دفعہ پھر سے سلگنے لگیں اور پھر کیا ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا پیارا وطن شعلوں کی زد میں آ گیا، دہشت گردوں نے ہنستے بستے آنگنوں کو ماتم کدوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ دہشت گردی کی وجہ سے وزیرستان جلنے لگا، کے پی کے لہو لہو نظر آنے لگا، بلوچستان تارتار ہو گیا، پاکستان کے ہر شہر میں سانحے ہونے لگے کراچی، کوئٹہ، لاہور، ڈی آئی خان، اسلام آباد، پشاور، بم دھماکوں کی آماجگاہیں بن گئے۔

عروس البلاد کراچی آج بھی امن کو ترستا ہے۔ ٹارگٹ کلر روشنیوں کے شہر کراچی میں خون کی ہولی کھیلتے نہیں تھکتے۔ پاکستان کا شہر شہر خون میں غرق ہو گیا، مسجدیں مرثیہ خواں نظر آنے لگیں، چار طرف آہوں کا دھواں اٹھنے لگا، میرے وطن کی شاہراہیں تڑپتے لاشے سنبھالتے سنبھالتے تھک گئیں۔ اور سب سے بڑھ کر اسی دہشت گردی کی زد میں ایک عرصے سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر دھیرے دھیرے شام غم ناک اتر رہی ہے جو کہ آج بھی ظلم اور استحصال کی مثال پیش کر رہی ہے۔

دہشت گردوں نے اب کی بار معصوم، بے گناہ محنت کش مزدوروں کو جانوروں کی طر ح ذبح کر دیا اور پورے ملک کا امن ایک دفعہ پھر سے برباد کر دیا ، ایک دفعہ پھر ملک بھر میں دھرنے اور احتجاج ہونے لگے۔ مظلوم خون منجمد کر دینے والی سخت سردی میں، پتھرائی ہوئی آنکھوں سے امید کا دامن تھامے، تڑپتی، سسکتی، بلکتی، مچلتی، مائیں، اپنے جگر پاروں کی لاشیں سامنے رکھے احتجاج کرنے لگے وہ اس مسیحا کا انتظار کر رہی تھیں جو ان کے کرب کو سمجھے ان کی آہوں پراس کا دل پسیج جائے اور ان کو انصاف دلائے مگر انصاف!

انصاف تو آج تک کسی مظلوم کو نہیں ملا! یہ پاکستان ہے یہاں انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، یہاں ماؤں کے کلیجے پھٹتے ہی رہتے ہیں، یہاں بوڑھے باپ کی کمر ٹوٹتی ہی رہتی ہے، یہاں بہنوں کی آہیں رد کر دی جاتیں ہیں، یہاں انصاف مانگنے والے ہر مظلوم کی آواز دبا دی جاتی ہے اورعدل! عدل کی تو بات ہی مت کریں ، اس ملک میں عدل تو سرے سے ہی ناپید ہے۔ یہاں ہر دور میں صرف ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہوئی ہیں اور عدلیہ ہر دور میں عدل کرنے میں ناکام رہی۔

تم نے ہر عہد میں ہر نسل سے غداری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
آج تم مجھ سے میری جنس گراں مانگتے ہو
حلف ذہن و وفاداری جاں مانگتے ہو
جاؤ یہ چیز کسی مداح سرا سے مانگو
طائف والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا

آئیں ہم ایک امن کا عہد کرتے ہیں۔ ہم لوگ تو وہ ہیں جو عظمت انسان کے امین ہیں، جو ارباب قلم ہیں، اگر ہم لوگ ہی خاموش رہے تو ظلم ایک حد سے تجاوز کر جائے گا۔ اس لیے ہر ہونے والے ستم پر ہم لوگوں کو ہی آواز اٹھانی ہو گی ، ہم لوگ مل کر امن کی شمع چاروں جانب جلائیں گے۔ اگر ہم آج نہ بولے تو پھر کل لہو بولے گا۔ اس لیے ہمیں ہی بولنا ہے امن قائم کر نے کے لیے کیوں کہ امن تہذیب کا گہوارہ ہے۔ امن دانائی ہے، امن اپنے عہد کی سب سے بڑی سچائی ہوتا ہے۔

امن کے ذریعے ہی ہر خواب کو تعبیر سحر ملتی ہے۔ امن کے دیپ جلانے سے چراغ ہستی روشن ہو جاتی ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں کیوں کہ امن حیوان کو انسان بنا دیتا ہے، امن نفرت کی دیواریں گرا دیتا ہے۔ امن کی وجہ سے ہی آزادی افکار کا حق حاصل ہوتا ہے۔ ہم امن کے علم بردار لوگ ہیں اور ہم اپنے خطے میں صرف امن اور سکون چاہتے ہیں۔

کب تک اس شاخ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پھوٹیں گی تو کل پھوٹیں گی؟

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).