ہزارہ شہریوں کا خون اور وزیراعظم کی بے ربط باتیں


کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، وزیراعظم اپنی انا اور ضد پوری کرنے کے بعد ہزارہ برادری کو دلاسا اور تسلی دینے کے لیے کوئٹہ پہنچے لیکن باتیں انہوں نے وہاں بھی وہی ہی کیں جو وہ کرنا جانتے ہیں، یعنی دل جلانے یا جگ ہنسائی جیسی باتیں۔

وزیراعظم عمران خان نے ہزارہ برادری کے مقتولین کے ورثا سے ملاقات میں ان کو روایتی طریقے جیسی ڈھارس بندھائی، کھوکھلی تسلی دی، لیکن اصل معاملے پر وزیراعظم نہیں آئے۔

اصل مسئلہ ہزارہ برادری کے قتل عام ان کی نسل کشی کو روکنے کا ہے، لیکن وزیراعظم شدت پسندوں کے ان منصوبوں سے ہی ناواقف ہیں، انہیں اس طرح کی سازشوں کا ہی پتہ نہیں، جس وزیراعظم کے پاس اپنے اتحادیوں کی جماعتوں کے گمشدہ کارکنان بازیاب کروانے کا اختیار نہ ہو اور ایک ایک کر کے ان کے اتحادی ان کو چھوڑ رہے ہوں وہ وزیراعظم ہزارہ برادری کا قتل عام رکوانے کے اختیارات لائے تو لائے کہاں سے؟

یہ پرسا، یہ ڈھارس، یہ یقین دہانی اور یہ دلاسا سب کے سب کاغذی سے ہیں، اور یہ کاغذی صرف اس لیے ہے کہ آپ جناب کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ اس لیے تو انہوں نے بھی روایتی قسم کی بات کی، وقت پاس کیا اور بس ادھر ادھر کی باتیں کر کے کہا کہ آپ کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جائیں گے، ایک سیل یا یونٹ کی بھی بات کی گئی، اور یہ سب سرکار کے معمول کے کام و بیانات ہیں جس ملک کا سیکیورٹی کا وزیر ایک غیر سنجیدہ قسم کا شخص ہو جو کابینہ کے اجلاس میں یہ کہے کہ ایسے چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں اس ملک کی سیکیورٹی کی تباہی اس سے زیادہ اور کیا ہونی ہے؟

وزیراعظم عمران خان نے متاثر خاندانوں سے ملنے کے بعد جو پریس کانفرنس کی اس میں کی گئی باتوں میں ہنسنے کا کافی سامان موجود ہے، بلکہ وہ ایسی باتیں تھیں جس کو کل پھر زبان کے پھسلنے کا نام دیا جائے گا، اور ضرور دیا جائے گا۔ پھر کئی وزرا اور ترجمان وزیراعظم کے دفاع میں آ جائیں گے-

مجھے زبان کے تواتر سے پھسلنے والی بات پر کراچی کے سب سے بڑے پاور فل لیڈر الطاف حسین یاد آ جاتے ہیں کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم اور الطاف حسین میں کئی چیزیں مشترکہ ہیں خاص طور پر زبان کی حد تک۔

جب کراچی میں الطاف حسین کا طوطی بولتا تھا اور وہ لنڈن سے بیٹھ کو وڈیو اور آڈیو خطابات اور جی بھائی جی بھائی کی گونج میں وہ کچھ کہہ جاتے تھے جس کو سننے کے بعد ان کی پارٹی کے لیڈران کو بھی کپکپی لگ جاتی تھی۔ ان پر ان خطابات کے دوران ایک ہی کیفیت طاری ہوتی تھی اور پھر ان کو بھی دوسرے دن پتا لگتا تھا کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں، ویسے تو ان کے خطابات حرف آخر ہوتے تھے مجال ہے کہ کراچی میں ہیڈ آفسز رکھنے والے میڈیا ہاؤسز ان کے گھنٹوں پر محیط خطابات پر کوئی سوال اٹھائیں۔ لیکن کبھی کبھار جب پانی سر سے گزرنے ہی لگتا تھا تو ان کی زبان سے نکلی آلودگی کو صاف کرنے کے لیے فاروق ستار، حیدر امام رضوی اور علی رضا مرحوم کو آگے آنا پڑتا تھا۔

الطاف حسین کا ایک نظریہ تھا ویسے وزیراعظم بھی کہتے تو ہیں کہ ہمارا اور متحدہ کا ایک ہی نظریہ ہے، لیکن الطاف حسین کے نظریے کا نون ہی بندوق کی نالی سے نکلتا تھا، بوری بند نظریے کے زور پر انہوں نے کراچی میں نہ صرف اپنے مخالفوں کا جینا محال کر دیا لیکن نفرتوں کے بیج بو کر انہوں نے سندھ کے اصلی باشندوں سے بھی شہر قائد خالی کروانے میں کسر نہیں چھوڑی۔ وہ تو شہر قائد کو شہر قائد متحدہ کہنے لگے تھے۔

اس کی گواہی ہم بھی دیں گے ہمارے وزیراعظم کا وہ مائنڈ سیٹ الطاف حسین والا نہیں لیکن زبان کی حد تک ان کی کیمسٹری ملتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو بھی یہ پتا نہیں چلتا کہ کس موقع پر کس جگہ پر کیا بات کرنی ہے؟

ایران میں بیٹھ کر ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین کے استعمال کی بات اپنے ملک کے خلاف ایف آئی آر ہے۔ یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آئی۔

امریکہ میں بیٹھ کر طالبان اور دہشتگردوں کو اپنی فوج کے پیدا کرنے والا بیان عالمی برادری کے الزامات کو بڑے ثبوت دینے کے مترادف ہے۔ ایسے بات باہر کرنا بری بات ہے۔

فرض کریں اگر یہ دونوں یا اس سے ملتی جلتی باتیں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف یا کوئی اور کرتا تو یہ ہی عمران خان کسی کے کہنے پر ان پر دھرتی تنگ کر دیتے۔ اور دونوں پر غداری کا پرچہ درج کروانے کا مطالبہ کرواتے، ایسی کئی باتیں ہمارے وزیراعظم کی زبان سے نکلیں جس کو پھر زبان کا پھسل جانا کہہ کر شاہ محمود قریشی اور کئی وزرا اور ترجمان جان بخشی کے لیے آگے آئے۔ ایسی ہی باتوں پر پرانے جیالے اور وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن ڈپریس اور ان ایزی رہتے ہیں اور خاص کر کے جب وہ وزیراعظم کی پھسلتی زبان کے پھلسن کا دفاع کرتے ہیں تو اس لمحے ان رحم ہی آتا ہے۔

اب ان باتوں کی بھی وضاحتیں آ رہی ہیں کہ ہزارہ مقتولین کے ورثا کو وزیراعظم نے بلیک میلر نہیں کہا تھا، اس کی وضاحت وزیراعظم نے خود بھی دی ہے کہ میرا مطلب ہے کہ اس طرح وزیراعظم کو نہیں بلایا جا سکتا،

حالانکہ انہوں نے لاشوں پر نوحہ کنا سوگواروں کو واضح کہا تھا آپ کے مطالبے جب مانے جا چکے ہیں تو پھر کیا مسئلہ ہے، اس طرح کسی وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔

یہ کیسے وزیراعظم ہیں کہ آئینی، قانونی، جائز مطالبات کرنے والی اپوزیشن کو کہہ رہے ہیں کہ مجھے بلیک میل کر رہی ہے۔

یہ تو اسلام آباد کی باتیں تھیں لیکن کوئٹہ میں کیا ہوا؟ وزیراعظم نے کیا کہا؟ وہاں بھی جو باتیں ہوئیں وہ بھی اسلام آباد میں کی گئی باتوں کا تسلسل ہی تھا، وہاں بھی بات دہرائی گئی کہ وزیراعظم کو بلانے کی غلط روایت پڑ گئی تو یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ ایک تو خان صاحب بلیک میل جلدی ہو جاتے ہیں اب یہ پتہ نہیں اصل میں ان کو بلیک میل کون کر رہا ہے؟

وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جانا چاہیے اور ان کے حوالے سے ایسی ویسی باتیں بھی نہیں ہونی چاہیں۔ لیکن وزیراعظم تھوڑا اپنے ماضی مبارک کو بھی ٹٹولیں۔ آپ نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک سو چھبیس دنوں کے دھرنے میں اس وقت کے وزیراعظم کو کن القابات سے نوازا تھا؟ وزیراعظم سے لے کر آئی جی تک آپ نے کسے بخشا؟ آپ نے پارلیمنٹ اور اس کے ممبران کی جو لاج رکھی اور ان کے خلاف جو زبان استعمال کی اس کا گواہ ڈی چوک سے گزرنے والا ہر شہری ہے۔

کئی باتیں ہیں اور اس بار بھی وہ اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھ سکیں زبان کئی بار پھسل چکی اور اب ان کی وضاحتیں آنے کو ہیں، کوئٹے میں جو کچھ کہا گیا وہ جگ ہنسانے کے لیے کافی ہے، لیکن یہ وزیر، مشیر اور ترجمان پھر اپنے گنڈاسے لے کر یہ ہی کہیں گے کہ وزیراعظم کی باتوں کو توڑ مروڑ کر کے پیش کیا گیا، اس کنٹرولڈ میڈیا اور پس پردہ آمریتی دور میں کس میڈیا ہاؤس کی مجال ہے کہ وہ لاڈلے وزیراعظم کی بات کو توڑ مروڑ کر کے پیش کرے؟ کوئی کر سکتا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کوئی بیان کو ٹوئسٹ کرنے کی جرات ہی نہیں کر سکتا

وزیراعظم نے کوئٹہ میں جو کچھ کہا ہے وہ نہ صرف حقیقت کے برعکس ہے اور تھا لیکن اس بیان پر جگ ہنسائی بھی ہوئی ہوگی، کیوں کہ تاریخی اور موجودہ عالمی صورتحال کے تناظر میں وہ باتیں غیر حقیقی ہیں۔

ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ کتنے سادہ اور بے خبر وزیراعظم ہیں، فارن پالیسی سے منسلک باتوں کو چھوڑ کر ان کی مقامی باتوں کو لیں تو انہوں نے کہا کہ میں پہلے ایک عام شہری کی حیثیت سے ہزارہ برادری کے پاس آیا کرتا تھا اور اب میں وزیراعظم بن چکا ہوں، یعنی اب وزیراعظم کے لیے رعایا کے پاس آنا ذرا مشکل ہے تو ان کا کہنا ہے کہ ایسے چھوٹے موٹے واقعات ہو جائیں تو وہاں ہر جگہ پر وزیراعظم کا آنا ذرا مشکل ہے اس لیے ایسا مطالبہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔

سیکیورٹی صورتحال پر وزیراعظم نے باتیں کر کے سب کو ہنسنے کا موقع فراہم کیا وہ فرماتے ہیں کہ اب ملک میں تیس چالیس دہشت گرد ہی بچے ہیں باقی تمام دہشت گردوں کو ہماری ایجنسیوں نے مار دیا ہے یہ سب کارروائیاں وہ تیس چالیس کا ٹولہ کر رہا ہے۔

ہائے صدقے قربان ہمارے وزیراعظم کتنے سادے ہیں کنٹینر سے لے کر وزیراعظم کی کرسی تک پرچی پر یقین رکھنے والا ان معاملات پر سوال بھی اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتے، اگر دہشتگرد ہی تیس چالیس بچ چکے ہیں تو پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ اور اگر دہشت گرد اتنے ہی ہیں تو پھر ان اداروں کو اربوں کے حساب سے بجٹ دینے کا کیا جواز بچتا ہے؟ اگر اب دیتے بھی ہیں تو پھر ان سے حساب کتاب بھی لیں ان کا حساب پارلیمنٹ میں بھی پیش کردیں اس میں کیا رکاوٹ ہے؟

پھر وزیراعظم کہہ رہے ہیں یہ پورا معاملہ فرقہ واریت کا ہے، اب اس فرقہ واریت میں وزیراعظم میں ایک ہی وقت تین ملکوں کو ملوث قراردے دیا ہے۔ اب یہ سب رپورٹس ہیں جو وزیراعظم کو ملیں ہیں اور ان پر ذہن استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔

وزیراعظم نے ایک پرانی وڈیو میں کہا تھا کہ ہماری حکومت آئے گی تو میں یہ کبھی نہیں کہوں گا کہ ایسے واقعات میں کسی ملک کا ہاتھ ہے، لیکن وہ بات وہ بھول چکے ہیں اب وہی کہہ رہے ہیں جو ان کو بتائی جاتی ہے اور یہ ہی آسان طریقہ ہے کسی بھی ملک پر الزام لگائیں اور تحقیقات سے جان چھڑا لیں۔

وزیراعظم صاحب شیعہ سنی فرقوں کی بات کر کے کہہ رہے تھے کہ ہم ایران اور سعودی سے معاملات حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے مراد کہ اس معاملے میں ایران اور سعودی عرب ملوث ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے کہ دونوں ملکوں نے آپ کے ساتھ کیا رویہ رکھا ہوا ہے؟ کیا آپ دونوں ملکوں تک رسائی رکھتے ہیں؟ دونوں ملک تو آپ کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

وزیراعظم ادھر ادھر کی بات کرنے، رپورٹس اور سرگوشیوں پر چلنے کے بجائے سچ بتائیں، وہ ان ہزارہ شہریوں کے اصلی دشمنوں کو سامنے لائیں جو ان کی نسل کشی کے پیچھے پڑے ہیں، جو اس ملک کا مسلک طے کرنے کے درپے ہیں، جو اہل تشیع برادری پر فتویٰ در فتویٰ صادر کرتے رہتے ہیں، جن کے خلاف پرائیویٹ ملیشا بنے ہوئے ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ بلوچستان میں سول حکومت برائے نام ہے صوبے کی سیکیورٹی جن اداروں کے پاس ہے ان سمارٹ اداروں سے پوچھیں کہ ہزارہ آبادی کے قتل عام کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے اور آخری بات یہ کہ اگر دہشت گرد ہی تیس چالیس بچے ہیں تو سیکیورٹی اداروں اور انٹلی جنس اداروں پر بے حساب سرمایہ لگانے کی ضرورت کیا ہے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar