قسطنطنیہ کی فتح اور سلطان محمد فاتح


جمادی الاولیٰ 857ھ کو مسلمانوں کو ایک عظیم الشان فتح ہوئی جس کی خوشخبری صدیوں پہلے تاجدار کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دی تھی ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی تاجدار کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس مبارک حدیث پاک کو پورا کرنے اور اس عظیم فتح کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ادوار میں معرکے ہوتے رہے۔ لیکن یہ فتح ایک نو جوان سلطان کا مقدر تھی جو ارادہ پختگی، عزم و ہمت، جرات و بہادری اور استقلال کا پہاڑ تھا۔

مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے سلطان محمد فاتح کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ کیا آج کے معاشرے میں ہم سوچ بھی سکتے ہیں کہ ایک گیارہ سال کا نوجوان بچہ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور مسلمانوں کا سپاہی بھی اور ایک صوبے کا گورنر بھی، یہ مسلمانوں کا وہ عظیم الشان دور تھا کہ بچہ جب پیدا ہوتا تھا تو اس کی ثقافت اور نظریہ اس کو منتقل کرنا شروع کر دیا جاتا تھا۔

جب بچہ بولتا تھا تو وہ اپنی ثقافت اور نظریات کا علم بردار بن کر بولتا، سلطان محمد فاتح کی عمر اس وقت صرف گیارہ برس تھی جب ان کے والد سلطان مراد نے ان کو اماسیا ریاست میں گورنر اور سپہ سالار بنا کر بھیجا، محمد جب 19 برس کے ہوئے تو خلافت عثمانیہ کا تخت سنبھالا اس وقت قسطنطنیہ کا بادشاہ قسطنطین تھا۔

قسطنطنیہ یعنی آج کا استنبول ایک نہایت اہم شہر تھا۔ ارطغرل کی اولاد خلافت عثمانیہ کے یہ سلطان فتوحات پر فتوحات کر رہے تھے لیکن یورپ کی طرف ابھی تک قدم نہیں رکھا تھا کیوں کہ یورپ کا دروازہ یہ ہی شہر تھا۔ لیکن یہ شہر فتح کرنا بے حد مشکل تھا۔ اس شہر کی فصیلیں بہت مضبوط تھیں۔ اس کے صرف ایک طرف خشکی اور باقی جانب سمندر ہونے کی وجہ سے بھی مشکلات تھیں۔ کئی دفعہ اس شہر کو فتح کرنے کے لیے لشکروں کے لشکر آئے اور اس شہر کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس چلے گئے۔ قسطنطنیہ کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ یہ شہر فتح ہی نہیں ہو سکتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا؛

”لتفتحن القسطنطینیة فلنعم الامیر امیرہا ولنعم الجیش ذلک الجیش
(مسند امام احمد بن حنبل، جلد 6 صفحہ 225 )
ترجمہ:
”یقیناً تم قسطنطنیہ فتح کر لو گے، وہ امیر بھی کیا باکمال ہو گا، وہ لشکر بھی کیا باکمال ہوگا“ ۔

اس حدیث رسول اللہ کی وجہ سے ہر مسلمان بادشاہ، خلیفہ، سلطان نے کوشش کی کہ وہ اس حدیث پاک کا مصداق ٹھرایا جائے۔

بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ شہر پر کم از کم 24 دفعہ حملہ ہوا۔ سب سے آخری حملہ مسلمانوں کے عظیم الشان سپہ سالار سلطان محمد فاتح نے کیا اور اس نے ہی یہ فتح حاصل کی۔ درحقیقت سلطان محمد نے تخت نشین ہوتے ہی قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں تھیں۔ یہ ان کا مقصد بن چکا تھا۔ سلطان محمد نے پہلے تمام باقی دشمنوں سے خطرہ ختم کیا۔ وہ ایسے کہ انہوں نے امیر کرمانیہ سے صلح کر لی۔ چند بغاوتیں تھیں، ان کو ختم کیا اور تین سال کے معاہدے پر ہونیاڈے سے بھی صلح کر لی۔ یوں سلطان محمد کو اطمینان ہو گیا کہ وہ سکون سے قسطنطنیہ پر توجہ دے سکے گا۔

پہلا کام سلطان محمد نے یہ کیا کہ قسطنطنیہ سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ایک قلعہ تعمیر کروانا شروع کیا۔ اس قلعے کی تعمیر کے دوران ترکوں کی کئی چھوٹی لڑائیاں قسطنطین کے سپاہیوں کے ساتھ ہوئیں۔ لیکن یہ بنتا رہا۔ یہ قلعہ 1452ء کے موسم سرما سے پہلے تیار ہو گیا۔ باسفورس اب عثمانیوں کے قبضے میں تھا۔ کوئی جہاز سلطان محمد کی اجازت کے بغیر نہیں گزر سکتا تھا۔ اب سلطان محمد نے باقی تیاریوں پر توجہ دی۔

ادرنہ میں سلطان محمد نے ڈیڑھ لاکھ فوج اکٹھی کی۔ لیکن صرف فوج کی تعداد ہی اس شہر کو حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ چند مزید انتظامات بھی ضروری تھے۔ یہ شہر مثلث نما تھا۔ جس کے دو اطراف سمندر تھا۔ تو بری یعنی زمینی افواج صرف ایک طرف سے حملہ کر سکتی تھیں۔ لیکن یہ حصہ کافی مضبوط تھا۔ یکے بعد دیگرے تین دیواریں اس حصے کی حفاظت کرتی تھیں۔ اندرونی دو دیواریں حد درجہ مضبوط تھیں۔ ہر دیوار کا درمیانی فاصلہ ساٹھ فٹ کا تھا۔

دوسری اور تیسری دیوار کے درمیان 100 فٹ گہری خندق بھی تھی۔ یہ دیواریں پانچویں صدی عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوسیس دوم (Theodosis II) نے بنوائی تھیں اور اب تک تمام حملے ناکام کر چکی تھیں۔ قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ضروری تھا کہ ان دیواروں پر تسلسل سے توپوں سے گولا باری کی جائے۔ توپوں کا استعمال اس وقت ترک کر رہے تھے لیکن سلطان محمد نے پرانی توپوں کو ناکام قرار دے کر نئی عظیم الشان توپیں بنوائیں۔ اربان (Urban) نامی ایک عیسائی انجینیئر اس وقت بازنطینی ملازمت چھوڑ کر سلطان محمد کے پاس آ گیا تھا۔ اس نے ایک بہت بڑی شاندار توپ بنا کر دی۔ جس کے گولے کا قطر ڈھائی فٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس نے چھوٹی توپیں بھی بنا کر دیں جو تیزی سے گولے برسا سکتی تھیں۔

 6 اپریل 1453ء (بمطابق 26 ربیع الاول 857 ھ) سلطان محمد نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔ عثمانی افواج دیواروں سے ٹکراتی رہیں۔ دیوار پر چڑھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ دروازہ توڑنے کی کوششوں میں بے شمار مسلمان فوجی شہید ہوئے۔ کئی مرتبہ مشیروں اور وزیروں نے مشورہ دیا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں یہ قلعہ فتح کرنا ناممکن ہے لیکن مسلمانوں کا یہ عظیم الشان سلطان جو اس وقت میدان میں سپہ سالار کا کردار بھی ادا کر رہا تھا۔ استقامت کا پہاڑ بن کر دشمن کا مقابلہ کرتا رہا۔ سمندر کے پانیوں میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جمادی الاولی 29 مئی 1453ء آج محاصرے کو 54 دن ہو چکے تھے۔ سلطان محمد اور اس کی فوج نے رات عبادت اور دعا میں گزانے کے بعد نماز فجر ادا کی۔

21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح سپہ سالار بن کر غیر متوقع طور پر اپنی فوج کے اگلے مورچوں پر پہنچ گئے اور شہر پر زبردست حملہ کیا۔ توپوں کی گولہ باری کی وجہ سے جس جگہ سے شگاف تھا۔ وہاں گھمسان کا رن پڑا۔ سلطان محمد بھی عزم و حوصلے کی اعلیٰ مثال تھے۔ خود کمان سنبھال کر ایک شدید اور تازہ دم حملہ کروایا۔ ادھر رومی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ لیکن ادھر سلطان محمد بذات خود بھی بہادری اور شجاعت کی زندہ مثال بن گئے۔ سلطان محمد کے شاہی دستے نے سلطان کی کمان میں آ کر ایسا کاری حملہ کیا اور شاہی دستہ شہر میں داخل ہو گیا۔ اس کے پیچھے عثمانی فوج داخل ہوتی چلی گئی۔ دیوار پر حسن (جو کہ شاہی دستے کا کمانڈر تھا) نے عثمانی پرچم لہرا دیا۔

یوں جمادی الاولی 29 مئی 1543 ء کو یہ شہر سلطان محمد نے فتح کر دکھایا۔ اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث پاک کا مصداق ٹھرایا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی اپنا سر اللہ پاک کی بارگاہ میں شکرانے کے طور پر جھکا دیا۔ سلطان محمد وہ نوجوان تھا جس کو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سینکڑوں سال پہلے ہی باکمال اور بہترین قرار دے دیا تھا۔ مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے سلطان محمد فاتح جیسی کئی مثالیں موجود ہیں کاش ہمارے معاشرے کے نوجوان ایسے واقعات سے سبق حاصل کریں کہ ہم بھی انہی باہمت، مرد مجاہد اور اسلام کے علم برداروں کے ہم عمر اور نام لیوا ہیں۔

ہمارے معاشرے کی حالت تو یہ ہے کہ اپنی تاریخ بھی نہیں جانتے۔ اور نہ ہی کبھی مطالعہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے! زندہ قومیں اپنی تاریخ یاد رکھتی ہیں قوموں کی تاریخ ان کے مستقبل کی راز داں ہوتی ہے۔ سلطان محمد فاتح جیسے نوجوان دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کرتے ہیں اور کل اللہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو اٹھائے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).