ابوجی کی ساتویں برسی


اپنے والد پر کالم لکھتے ہوئے انگلیاں ساتھ نہیں دے رہیں اور نہ ہی الفاظ کا چناؤ کر پا رہا ہوں۔ اتنی شفیق اور پیاری ہستی کے لیے گفتگو کا آغاز کہاں سے کروں ، کس کس واقعے ،  یاداشت کو قلم بند کروں سمجھ سے باہر ہے۔ جس ہستی نے ہر قدم پر سپورٹ کیا ہو اور جو ہستی دھوپ میں آپ کے لیے سائباں بنی ہو ، اس کا اچانک جدا ہو جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس سے آپ باقی تمام عمر باہر نہیں آ سکتے۔ کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جو آپ ہمیشہ اپنے سینے سے لگا کے رکھتے ہیں، والد صاحب سے آخری گفتگو ، ملاقات اور یادیں میں نے گزشتہ سات برسوں سے اپنے سینے سے لگا رکھی ہیں۔

10 جنوری 2014ء میری زندگی کا ایک تاریک دن تھا،  اس کے بعد اگرچہ خدا نے بہت کامیابیوں سے نوازا ، کئی اچیومنٹس ملیں لیکن ابو کی جدائی ایک ایسا اندھیرا ہے جس کی روشنی،  وہ خود ہی تھے۔ ان کا خلا انہی سے پر ہو سکتا ہے۔ کوئی جتنا بھی پیار دے لے، کوئی جتنا بھی آپ کی تکلیف میں سہارا بن جائے مگر باپ کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے۔

میں نے میٹرک سے بھی پہلے لکھنا شروع کیا تھا ، میرا رسمی تعلیم کی جانب قطعاً رجحان نہیں تھا۔ سکول اور مدرسے سے میری شکایت ملنے پر میرے ابو مجھے ڈانٹے تھے مگر اس ڈانٹ میں بھی پیار ہوتا تھا۔ سکولنگ کے بعد کالج گیا تو وہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا،  ابو جانتے تھے کہ میں شعر کہتا ہوں ، صحافت سے بھی دل چسپی رکھتا ہوں مگر وہ سب جانتے ہوئے بھی نظر انداز کر دیتے۔ ایک آدھ بار انہیں دوستوں سے معلوم پڑا کہ یہ کالج جانے کے بہانے یا تو اخبار کے دفتروں میں وقت گزارتا ہے یا پھر شہر کے کسی نہ کسی ٹی سٹال پر شاعروں سے خوش گپیوں میں مصروف ہوتا ہے۔

اس بات پر مجھے کہا کرتے کہ ”اگرچہ مجھے صحافت کا شعبہ بالکل بھی پسند نہیں اور شاعری کو میں ویسے ہی غیر انسانی فعل سمجھتا ہوں (جیسا کہ ہمارے معاشرے میں شاعری گناہ کبیرہ سمجھی جاتی ہے ) مگر پھر بھی میرا خیال ہے تمہیں فی الحال اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے“ ۔ میں واقعی ان کی بات کو ہمیشہ نظر انداز کرتا رہا، اس میں یقیناً میرا قصور نہیں کیونکہ ایک تو اس عمر کا تقاضا اور دوسرا شاعری کا نشہ جس کو لگ جائے ، وہ کم کم ہی ختم ہوتا ہے سو میرا معاملہ بھی ایسا ہی رہا۔

جب والد صاحب کا انتقال ہوا، میری عمر اکیس سال تھی اور ان اکیس سالوں میں مجھے ابو سے صرف دو دفعہ مار پڑی اور دونوں دفعہ تعلیم میں غیر سنجیدگی کی وجہ سے ایسا ہوا۔ ابو کو اخبار پڑھنے کا بہت شوق تھا ، جب تک زندہ رہے کوئی نہ کوئی قومی اخبار ہمارے گھر ریگولر آتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا ادب کی جانب رجحان بھی اسی اخبار کی وجہ سے ہوا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ آخری چند سال ہمارے گھر روزنامہ ”اسلام“ اور ہفت روزہ ”ضرب مومن“ آتا تھا،  اتوار کے دن سنڈے میگزین اور بدھ کو خواتین کا میگزین آتا تھا اور یہی دو میگزین ہم سب بہن بھائی ریگولر پڑھتے تھے۔ میں نے ابو سے خصوصی فرمائش پر ماہنامہ پیغام اور ماہنامہ بزم قرآن بھی لگوا رکھا تھا اور یوں میری ادبی تربیت میں اخبار اور مذکورہ جرائد نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

تین جنوری 2014ء کو ابو کو معمولی بخار ہوا ، گاؤں کے ہسپتال چیک اپ کے لیے گئے تو ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا جس کے بارے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ انجیکشن غلط تھا یا پھر وہ ایکسپائر تھا جس نے ان کے جسم کو ہلا کر رکھ دیا۔ اگرچہ اب وہ ڈاکٹر خود بھی وفات پا چکا۔،  وہ ایم بی بی ایس تھا مگر اس کے بارے بعد میں درجنوں انکشافات ہوئے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ اس نے ڈگری بغیر پڑھے حاصل کی تھی مگر ساری زندگی وہ ایم بی بی ایس رہا اور لوگوں کو بیوقوف بناتا رہا۔

خیر جو ہوا سو ہوا ، ان دنوں بڑے بھائی محمد آصف نوید کامرہ (اٹک) میں پاکستان ائیر فورس میں تعینات تھے،  یوں ابو کا علاج کامرہ ہسپتال سے شروع ہو گیا مگر اس علاج کے باوجود صحت روز بروز بگڑتی گئی۔ وفات سے دو روز قبل میں ہسپتال میں ان کے پاس بیڈ پر بیٹھا تھا ، ڈاکٹر راؤنڈ پر آیا تو اسے بلا کر میرا تعارف کروانے لگا کہ ”یہ میرا بیٹا صحافی ہے اور شاعر بھی‘ مجھے اس سے بہت امیدیں ہیں سو اللہ اسے کامیاب کرے“ ۔

میں ان کی اس بات پر بہت حیران ہوا کیونکہ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ میرے ابو نے میرے ان شعبوں کی کھل کر تعریف کی ہو بلکہ ہمیشہ پڑھائی پر دھیان دینے کی نصیحت کرتے تھے۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد مجھے کہنے لگے کہ ”بیٹا میں نے کبھی تم پر یہ شعبہ چھوڑنے کے لیے زبردستی نہیں کی اور اب کرنا بھی نہیں چاہتا ، بس اس قلم کی حرمت کی حفاظت کرنا کیونکہ یہ قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے“ ۔ یہ وہ الفاظ تھے جو میرے ابو نے میرے لیے پہلی اور آخری دفعہ ادا کیے تھے ، میں آج تک ان کی اس نصیحت کو پلے باندھ رکھا ہے۔

آج ابوجان کی وفات کو پورے سات برس گزر گئے ، ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسا کل کا واقعہ ہو۔ ان کے شفیق ہاتھوں کا لمس آج بھی اپنے سر پہ محسوس کر سکتا ہوں۔ ان کی محبت بھری ڈانٹ آج تک کانوں میں گونجتی ہے۔ ایک ایسا شخص جس کو ساری زندگی غصہ کرتے نہیں دیکھا، آج تک میری ماں کے ساتھ ان کی تلخ کلامی نہیں ہوئی ، میں آج تک حیران ہوں کہ یہ محبت کیسی تھی، جس میں کبھی ان کا آپس میں اختلاف نہیں ہوا تھا۔ کبھی کسی معاملے میں ماں غصہ بھی کر جاتی تو ابو سرنڈر کر جاتے اور خاموشی سے مسکرا دیتے۔

یقین جانیں ان جیسا شفیق انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آخری کچھ سالوں میں ان کا کاروبار خراب ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں رہے تھے مگر اس کے باوجود میں نے اپنے گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں دیکھی۔ ان کا پبلک ریلیشن کس قدر تھا ، یہ ان کے جانے کے بعد کھلا۔ وفات کے بعد ایک سال تک لوگ ہمارے گھر آتے رہے اور ان سے تعلقات اور محبت کی کہانیاں سناتے تھے۔ انہوں نے جتنی زندگی گزاری ، سر اٹھا کر جیے۔ خاندان اور علاقے میں عزت و وقارکے ساتھ رہے ، گاؤں کی پنچایتوں میں منصف کا کردار ادا کرتے تھے۔

دوسرے علاقوں کے جھگڑے ہمارے گھر کی بیٹھک میں حل ہوتے تھے،  لوگ اعتماد بھی کرتے تھے اور محبت بھی۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ میری اپنے شہر اور گاؤں میں عزت آج بھی میرے ابو کی وجہ سے ہے ، وہ اپنے پیچھے محبتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چھوڑ گئے۔ ان کے دوست آج بھی اچھے برے میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں،  ہمارے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہیں اور یہی وہ محبت کا درخت ہے جس کا بیج میرے ابو نے بویا تھا اور آج تک ہم اس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں ذرا پس و پیش نہیں کہ میرا قلم ، میرے الفاظ اور میری کامیابیاں میرے ابو اور امی کے نام ، میں انہی کی دعاؤں اور محنتوں کا ثمر کھا رہا ہوں، میں کچھ بھی نہیں ، جو کچھ ہوں ان کی دعاؤں کے طفیل ہوں۔ میں ہمیشہ ان کی محبتوں کا مقروض رہوں گا۔ اللہ ابو جان کو غریق رحمت کرے اور میری ماں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ (آمین)

(یہاں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ کالم ”نوکری برائے فروخت“ میں تجمل حسین، خالد حسین مغیری، اویس شریف اور محمد سجاد علی جن پر ایف پی ایس سی کے پیپر لیک کرنے کا الزام ہے، ان کے ناموں کے ساتھ غلطی سے مجرم لکھا گیا تھا۔ کالم کی اشاعت کے بعد معلوم ہوا کہ ان کا کیس ابھی کورٹ میں چل رہا ہے لہٰذا وہ ابھی تک ملزم ہی ہیں  ،قارئین اصلاح فرما لیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).