اس نے تیزاب کیوں پھینکا؟



ارے موئی جب دیکھو آئینے کے سامنے کھڑی رہتی ہے ، یہاں آ کتھا نکال لا ہنڈیا سے۔ اماں جان سروتے سے چھالیہ کترتے ہوئے عائشہ کو دوچار صلواتوں کے ساتھ پکارتیں۔ یہ روز کا ہی معمول تھا،  عائشہ ناشتے کے برتن دھونے کے بعد کمروں کی جھاڑو اور پھر برآمدے اور آنگن کی دھلائی کرتی۔

آنگن میں لگے آم کے پیڑ کے عین نیچے اماں جان کی چارپائی بچھی رہتی ، سرہانے پاندان رکھا رہتا۔ عائشہ گھر کے کام نمٹاتی اور برآمدے میں اپنا ٹیپ ریکارڑر اونچی آواز میں چلا لیتی۔ اماں جان کو ناگوار تو بہت گزرتا لیکن محبت کے مارے چپ رہتیں۔

گھر میں کل تین افراد رہتے تھے عائشہ ، اماں جان یعنی عائشہ کی دادی اور عائشہ کے والد جو صبح کام پر جاتے تو شام ہی کی خبر لیتے۔

اماں جان اتنی ضعیف نہ تھیں ، وہ گھر کے کئی کام بھی آرام سے کر لیتی تھیں لیکن انہیں اپنی ضعیفی سے پہلے عائشہ کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر سوار تھی۔ عائشہ کی عمر یہی کوئی سترہ اٹھارہ برس ہوئی ہو گی لیکن اماں جان کو وہ بہت بڑی لگتی تھی، انہوں نے اس کے رشتے کے لئے کئی میرج بیورو کی خواتین کو بھی معاوضہ دے رکھا تھا۔

ان سب باتوں سے بے فکر میڑک کرنے کو کوئی بڑا معرکہ سر کرنا سمجھنے والی عائشہ اپنی اٹھکھیلیوں سے گھر میں ہروقت رونق لگا کے رکھتی۔ معصوم موم کی گڑیا جیسی لگتی تھی ، کالے سیاہ بالوں کی بل کھاتی چٹیا کمر پر لہراتی گھر بھر کے کاموں سے فارغ ہو کر آنگن میں رکھی ٹنکی سے اپنا منہ ہاتھ مانجھنے کے بعد برآمدے میں لگے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنا ہار سنگھار کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں کاجل کی موٹی موٹی لکیریں کھیچنے کے بعد اپنے بالوں کو سنوارنے میں اتنا وقت لگاتی کہ آنگن میں بیٹھی اماں جان کی جان جلتی رہتی۔ نہ جانے پہلے زمانے کی عورتیں لڑکیوں کو زیادہ دیر آئینے کے سامنے کھڑے کیوں ہونے نہیں دیتی تھی۔ شاید وہ یہ چاہتی تھیں کہ لڑکیاں اپنے حسن کی قدروقیمت نہ جان سکیں ، جس دن جان گئیں ، اس دن سے ان کا پرائے گھر میں گزارا مشکل ہو گا۔ آہ! کیا منطق تھی ، ایک حد تک درست بھی تھی اور یہ ثابت کیا عائشہ نے۔

اماں جان کی کوششوں سے عائشہ اپنے گھر کی ہو گئی ، شوہر کم تعلیم یافتہ تھا ، اتنی خاص نوکری بھی نہ تھی ، ہاں شام کو اپنے ابا کی کریانہ کی دکان پر بیٹھتا تھا ، مکان بھی ابا کا تھا ، اکلوتا لڑکا ہونے کی وجہ سے اپنی امی اور بہنوں کا چہیتا۔ اماں جان خوش تھیں کہ عائشہ اپنے سسرال سے بنا کر رکھتی ہے ، سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔

شروع کے دو برسوں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی عائشہ کی گود میں کھیل رہے تھے۔ عائشہ اپنی نندوں کو بہنیں سمجھتے ہوئے بہت محبت سے رہتی تھی ، ساس بھی ساس نہیں ماں لگتی تھی اسے۔

کریانہ اسٹور میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، انہی میں ایک خاتون بھی تھیں۔ اسٹور کے سامنے گاڑی روکتیں۔ اونچی ہیل پہنے ہلکی خوشبو لگائے، نکلتی عمر کی وہ خاتون چست سا لباس زیب تن کیے ہوئے دوچار چیزیں خریدتیں اور واپس ہو لیتیں۔ روز کا یہی معمول تھا۔ اب کچھ بات چیت بھی ہونے لگی ، محترمہ نئی نئی محلے میں شفٹ ہوئی تھیں ، آفس سے واپسی پر گھر کا سودا لینے رکتی تھیں ، گھر پر بوڑھی ماں ساتھ رہتی تھی ، شادی ابھی نہیں ہوئی تھی۔ مرد بھی عجیب شے ہے ، گھر کی مرغی دال برابر لگنے لگتی ہے۔ یہی عائشہ کے ساتھ ہوا۔

شوہر کی دلچسپی اس پری وش میں بڑھنے لگی تو عائشہ بہت بری لگنے لگی ، وہ جو کبھی کسی کام کو منع نہیں کرتی تھی ، اسی کے کاموں میں کیڑے نکالے جانے لگے ، شوہر کی ماں اور بہنیں بھی حیران تھیں کہ ایسا کیا ہو گیا کہ عائشہ کو اس رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کوئی یہ سمجھ نہیں سکا کہ ایک عورت ہی ہے جو اس کے گھر میں آگ لگا رہی ہے۔

شادی کا لارا دے دے کر وہ پری وش اپنے گھر کا پورا سودا اسی دکان سے مفت میں لینے لگی۔ اپنی اداؤں سے اور لبھاتی باتیں کر کے اس کا دل بہلاتی تھی۔ شادی کرنے کی ایسی شرط بھی ایسی رکھی جسے پورا کرنا آسان نہ تھا، وہ سمجھی یہ دو بچوں کا باپ ہے کہاں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑے گا اور وہ حسب خواہش اس کے ساتھ کھیلتی رہے گی۔

یہ اس کی سوچ تھی لیکن عائشہ کے شوہر نے طلاق کا فیصلہ عائشہ کے سامنے رکھ دیا اور دونوں بچوں سمیت گھر سے نکل جانے کا حکم صادر کر دیا۔ ماں بہنیں اس کا منہ تکتی رہ گئیں یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ کسی سوال کا کوئی جواب دیے بغیر وہ گھر سے نکل گیا۔

عائشہ پتھرائی آنکھوں سے ایک ایک کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اندر سے اس کے وجود کو جیسے کوئی تیز دھار آرے سے کاٹ رہا ہو۔ لیکن آواز گلے میں گھٹ گئی تھی ، وہ چیخ چیخ کے رونا چاہتی تھی پر سکتہ طاری تھا۔ اس کا گھر یک دم ایسے ٹوٹا  جیسے کوئی کانچ کا کلاس ہاتھ سے چھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیا ہو۔

شوہر  دو چار دن لوٹ کے نہیں آیا اور طلاق کے کاغذات بھجوا دیے۔ آخری آس بھی ٹوٹ گئی۔ سسرال بھر کی چہیتی شوہر کے دل سے اتر چکی تھی تو پھر وہ وہاں کیسے رہ پاتی۔ ساس نے اماں جان کو بلا لیا جو عائشہ اس کے بچے اور ضرورت کاسامان سمیٹ کے گھر لے آئیں۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا ، سال بھر بعد وہ آہستہ آہستہ زندگی کی طرف لوٹنے لگی۔ گھر کے کام کرتے آتے جاتے برآمدے میں لگا آئینہ اسے اپنی طرف متوجہ کرتا رہتا۔ وہ شروع میں اس آئینے سے کتراتی رہی ، دو بچوں کی ماں اب اپنے خدوخال سے منکر ہوئی بیٹھی تھی۔ نگاہ بھر کے اپنا آپ دیکھتی اور جو بھی خیال آتا جھٹک دیتی۔

اماں جان سے اس کی بے بسی دیکھی نہ جاتی ، اب کتھا پکا کے دیتی تو خاموش رہتی ، پہلے تو کبھی زیادہ پکانے پتلا رہ جانے پہ اس کی خوب گت بنتی تھی۔ اس کا ہر وقت کا اداس چہرہ دیکھ کر جانے کیا سوجھی کہ اپنے پڑوس کے اسکول میں اس کی نوکری لگانے کی ٹھان لی۔

اسکول کے مالک کی والدہ اماں جان کی اچھی دوست تھیں۔ ان سے بات کی ، وہ بھلا اپنی سہیلی کی بات کیونکر ٹالتی۔ اپنے بیٹے سے کہہ دیا۔ اب چونکہ عائشہ کی تعلیم اتنی نہ تھی کہ استانی لگتی تو اسے ریسیپشن پر بٹھا دیا گیا۔

روزانہ کے معمولات میں تبدیلی آئی تو آہستہ آہستہ اس کا دھیان اپنی اجڑی گرہستی سے باہر آنے لگا۔ ایک اچھے ماحول میں کام کرتے سال گزر گیا۔

پریشانیوں سے دھیان ہٹا تو چہرہ اپنی چمک لوٹانے لگا ، حسین عورت تھی، گھر کے ماحول سے باہر آئی تو جینے کا سلیقہ بھی آنے لگا۔

کوئی دیکھ کر مان نہیں سکتا تھا کہ عائشہ دو بچوں کی ماں ہے۔ لمبے بال ، اونچا قد ، بڑی بڑی ہرنی جیسی آنکھیں ، قسمت اچھی نہی پائی تھی لیکن حسن دل کھول کر دیا تھا رب نے۔

اسکول کے منیجر اس سے بہت مرعوب تھے ، ایک دن اپنے کمرے میں بلا کر شادی کا عندیہ دے ڈالا۔ عائشہ نے حسب روایت اپنی اماں جان سے بات کرنے کو کہا۔ پلک جھپکتے میں سارے معاملات طے پاتے گئے۔ دونوں طرف شادی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں۔

عائشہ بہت خوش تھی ، اب تو اسکول کی جاب بھی چھوڑ دی تھی ، روز بازار کے چکر لگتے تھے۔ برآمدے میں لگا آئینہ اسے یہ جتاتا تھا کہ وہ بہت خوب صورت ہے ، اسے اپنی خوب صورتی کو نکھارنا چاہیے۔

یونہی ایک دن صحن برآمدہ دھو کر آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں کی چٹیا گوندھ رہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ گلے میں دوپٹہ ڈالتے ہوئے وہ دروازے کی اور بڑھی۔

ایک کواڑ کھول کر ابھی پوچھنے کے لیے منہ باہر نکالا ہی تھا کہ تیزاب سے بھرا کنستراس کے اوپر پھینک دیا گیا۔ وہ تیزاب سے جلتی چلی گئی ، کرب ناک چیخیں سن کر اماں جان بھاگتی اس کی طرف دوڑیں، وہ ان کی گود میں گر کر تڑپتی رہی ، بے ہوش ہونے سے پہلے صرف اتنا بول پائی ”اس نے چھوڑ دیا تھا پھر تیزاب کیوں پھینکا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).