ذہنی صحت اور ڈاکٹر خالد سہیل کا گرین زون فلسفہ


یہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں بہت عام سی بات ہے۔ بعض جگہ مرد حضرات تنہائی، محفل یا بچوں کا لحاظ کرے بغیر بیگم کو ہے نقط سناتے ہیں اور غصہ اترنے اور احساس ہو جانے پہ شرمندگی محسوس کر کے معذرت کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے موقعوں پہ تلافی کے طور پہ تحفے تحائف کا سہارا بھی لیتے ہیں اور عموماً ہمارے معاشرے کی بیشتر خواتین اسی احساس سے مسرور ہو کر کہ ”یہ دل کے برے نہیں ہیں“ اس منفی رویے کو نظر انداز کر جاتی ہیں جبکہ کچھ دن بعد یہ رویے دوبارہ اسی انداز میں دہرائے جاتے ہیں اور اتنی ہی تکلیف دیتے ہیں پھر بھی ہمارے کلچر میں وربل ابیوز کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ کہیں کہیں شوہر کا حق تصور کیا جاتا ہے حالانکہ بالآخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قیمتی تحفے تحائف بھی بے معنی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ رشتوں کی حقیقی خوشی دراصل عزت اور محبت سے وابستہ ہے۔

اس سے ایک مزیدار سی بات یاد آئی۔ میری ایک دوست ایک دن کہنے لگیں کہ یہاں پہ کبھی صبح مال میں جاؤ تو بوڑھے ریٹائرڈ جوڑے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم رہے ہوتے ہیں، ستر اسی سالہ مائیاں ریڈ لپ اسٹک لگا کے خوش باش نظر آتی ہیں۔ دونوں کافی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں خوش گپیاں تو دور کی بات ہے یہ عمر آتے آتے ہر کوئی بیزار نظر آتا ہے اور بستر تو کیا کمرے بھی الگ الگ ہو چکے ہوتے ہیں۔

مسئلہ پھر وہی ہے وقت سخت ہو، ، خوشگوار ہو یا ناگوار گزر تو بہرحال جاتا ہے لیکن آخر میں کڑواہٹ گھلی رہ جاتی ہے اور پھر جب عورت جسمانی یا زبانی تکلیف سہہ کر اولاد کے کے بل پہ مضبوط ہوتی ہے تو صاحب اپنا مقام کھو چکے ہوتے ہیں۔

میں اگر مشرق اور مغرب کا موازنہ کروں تو ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں بچپن سے ہی اپنے آپ کو اور اپنے احساسات کو سمجھنے اور ان کا صحیح طور پہ اظہار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔

ہمارا چار سالہ بچہ جب اسکول گیا تو اس نے پہلا سبق اپنے جذبات کے بارے میں سیکھا اور پورا ہفتہ ہمیں بھی ازبر کرواتا رہا کہ ہیپی، سیڈ، اینگری اور ایکسائٹڈ کیسے ہوتے ہیں اور

It ’s ok to be Angry
It ’s ok to be sad
یعنی اداس یا غصہ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کا بہتر اظہار ضروری ہے۔

پہلے عموماً جب ہم اس کی کسی بات پہ سرزش کرتے تھے تو وہ غصے کا اظہار کرتے ہوئے روتا ہوا اس جگہ سے بھاگ جاتا تھا، اسکول کے دنوں کے بعد ایک بار ایسا ہوا تو وہ سر جھکا کے چپ ہو کر بیٹھ گیا اور ہماری حیرانی پہ اس نے کہا کہ میں سیڈ ہو رہا ہوں اور ٹیچر نے بتایا ہے کہ سیڈ ایسے ہوتے ہیں۔ ہمیں ہنسی بھی آئی اور دل ہی دل میں ٹیچر کے ممنون بھی ہوئے۔

اب آئیے ان غصہ ور صاحب کی طرف ، ان سے بات چیت کے بعد اندازہ ہوا کہ انہیں بیٹے سے بہت محبت ہے، سوال کیا گیا کہ وہ اس کو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں انہیں کہا بالکل شہزادوں کی طرح، ان سے کہا گیا پھر پہلے اس کی ماں کو تو ملکہ بنائیں کیونکہ شہزادوں کی پرورش بھی ملکائیں کرتی ہیں، کنیز کا بیٹا تو شہزادہ نہیں ہو سکتا۔

پھر باری آئی ان کے رویے کی ، ان کے پس منظر سے پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے والد کو والدہ پہ جسمانی تشدد کرتا دیکھا ہے جسے وہ بالکل غلط سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی کیونکہ وہ جسمانی طور پہ تکلیف نہیں پہنچاتے تو زبانی طور پہ تکلیف پہنچانے کو کچھ خاص برا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ یہ اس کے مقابلے میں کچھ خاص بات نہیں۔ یہاں مسئلے کو پہچاننے کا مرحلہ ہے کیونکہ اس کو حل اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب اس کا ادراک ہو۔ جب تک غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کیا جائے گا ، اسے درست بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ والدین کے مابین رویے کس طرح اولاد کی زندگیوں میں غلط رویے اپنانے اور کڑواہٹ گھولنے کا باعث ہوتے ہیں یعنی یقیناً ان کا بچپن گزرے عرصہ بیت چکا ہوگا لیکن اپنے ماحول کے زیر اثر اپنائی گئی غلط عادتوں نے ان کی پوری فیملی کو متاثر کیا اور یقیناً ان کے بچے نے بھی ضرور ان سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہو گا ، یوں ایک آدمی کے منفی رویے کے اثرات تیسری نسل تک پہنچے۔

ان سے سوال ہوا کہ جب گاڑی چلاتے ہوئے سگنل ییلو ہو جائے تو وہ بریک لگاتے ہیں یا ایکسلیٹر پہ پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایکسلیٹر پر پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقل مند آدمی ایسی صورتحال میں بریک لگاتا ہے تاکہ احتیاط کر کے ممکنہ حادثے سے بچا جا سکے۔

اب آئیے جھگڑے اور غصے کی صورت حال کی طرف۔ جب آپ کو لگے کہ اب آپ ییلو زون سے نکل کر ریڈ زون میں داخل ہو رہے ہیں وہیں آپ کو اپنی کیفیت سمجھنے، رک جانے اور خود کو پہلے گرین زون میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ آپ اپنی ذات کا کنٹرول نہ کھو بیٹھیں۔

ایسے میں آپ کو اس جگہ سے کچھ دیر کے لیے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں سے دور ہو جائیں اور اپنے ہیپی اوینو والا کام کریں یعنی جو کام آپ کو خوشی دیتا ہو اور یہ بھی نہ ہو سکے تو کچھ دیر کے لیے واک پہ نکل جائیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد آپ اپنی ذہنی کیفیت میں بہتری محسوس کریں گے اور کیونکہ آپ اب اپنے گرین زون میں ہوں گے تو اپنی بات نرمی اور بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔

اس چھوٹی سے پریکٹس سے ان کی زندگی اور اطراف کے رشتوں میں بہت بڑا بدلاؤ آیا جس کا اعتراف ان کی خاتون خانہ نے بھی کیا اور شکر گزار ہوئیں۔

اپنی ذات کا ادراک، خود کو سمجھنا اور اپنی کیفیات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا سمجھداری ہے۔ اگر کسی اور کی وجہ سے ہم اپنی ذات کا کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں تو یہ دراصل ہماری اپنی کمزوری ہے جس پر چند بنیادی باتیں اپنا کے نا صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ اپنے اطراف کا ماحول بھی پرسکون بنایا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ذہنی صحت کے متعلق مدد لینے والے کو ہوا یا تماشا بنانے یا اس کے بارے میں منفی سوچنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے ایک عام علاج کی طرح سمجھا جائے تاکہ لوگ اسے اپنانے میں جھجک محسوس نہ کریں اور ذہنی طور پہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل آسان کی جا سکے۔

دعا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گرین زون کو پہچانیں اور ہمیشہ خوش اور مطمئن رہیں۔

اگلے کچھ سیمینار گرین زون ریلیشن شپس، گرین زون خاندان، گرین زون اسکولز کے بارے میں ہوں ہے جن میں اگر آپ شریک ہونا چاہیں تو اس ایڈریس پہ ای میل بھیج سکتے ہیں

welcome@drsohail.com
میری کوشش ہوگی کہ میں جب بھی اس میں شامل ہوں ، تحریر کے ذریعے آپ تک اس کی آگاہی ضرور پہنچائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2