ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی کتاب: کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ


جرات مندانہ اظہار کی مالکہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے کالم ہم سب پر باقاعدگی سے پڑھتی ہوں، اکثر ان کے کالم سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر شیئر ہوتے ہیں اور مباحث کے نئے در وا ہو جاتے ہیں۔ اظہار و ابلاغ کی یہی خوبی ڈاکٹر طاہرہ کو ان کی ہم عصر خواتین کالم نگاروں میں ممتاز کرتی ہے۔

برسوں سے عورت کے حقوق پر بات ہو رہی تھی اب ان نکات پر ڈاکٹر طاہرہ نے اتنے زور و شور، جرأت اور دلائل کے ساتھ آواز اٹھائی ہے کہ رجعت پسند بیانیے کے ذریعے عورت کے حقوق دبانے والوں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں، قلم کی وہ سیاہ روشنائی خشک ہو گئی ہے جس کی سیاہی صرف عورت کی تضحیک و تذلیل میں استعمال ہوتی تھی۔

صدیوں سے مذہبی بیانیے کی من مانی تشریح کے ذریعے عورت کو ودیعت کردہ الہامی حقوق غصب کیے جاتے رہے ہیں لیکن ڈاکٹر طاہرہ نے ایک مسیحا ہونے کے ناتے خواتین کی صحت، تولیدی مسائل اور تولیدی حقوق پر مضامین قلم بند کر کے نیا باب رقم کیا ہے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر، طبیبہ ، گائنا کالوجسٹ کس طرح سماجی خدمت انجام دے سکتی ہے، ڈاکٹر طاہرہ نے دوسری خواتین مسیحاوں کے لئے راہ ہموار کی ہے۔

احساس کی دولت سے مالا مال ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے ماہ دسمبر میں منعقد ہونے والی تیرہوں عالمی اردو کانفرنس ( کراچی ) میں ملاقات ہوئی، مل کر ذرا بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا اور یہ بھی ڈاکٹر طاہرہ ہی کی خوبی رہی کہ وہ گھل مل گئیں، اتنی اپنائیت سے گفتگو کی اور دبنگ انداز سے سیشن کیا۔ جس کا عنوان تھا ”ہمارے ادب اور سماج میں خواتین کا کردار“

ڈاکٹر طاہرہ کی کتاب ”کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ“ کی تعارفی تقریب بھی تیرہویں عالمی اردو کانفرنس میں ہوئی۔ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً ہم سب پر شائع ہوتے رہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کی رول ماڈل سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا ہیں اور میری بھی تاریخی آئیڈیل ہستی سیدہ حضرت زینب ہی ہیں، ڈاکٹر صاحبہ سے دوران گفتگو سیدہ کی بہادرانہ و جرات مندانہ زندگی پر بھی بات ہوئی۔ ڈاکٹر طاہرہ کا کالم ”سیدہ زینب سے سیکھنے کی ضرورت“ پڑھنے کے قابل ہے۔

عورت کا اپنا آسمان، سڑک زنانہ یا مردانہ نہیں ہوتی، بچہ جننے پر اختیار کا مالک کون ؟

بے حیا عورتوں سے ملاقات،  عورت ریپ کیوں ہوتی ہے، مجھے اپنی بیٹی کو قتل کرنا ہے جیسے مؤثر کالم زبان وبیان کے ساتھ احساس کے ان موتیوں کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جن کو پڑھ کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

بھیگے پروں والی چڑیا، فرشتہ ہو یا زینب، امرتا پریتم اور بیوی کا دل کیسے جیتا جائے، سچے حقائق اور واقعات پر مبنی کالم ہیں۔

کتاب کے سرورق پر بنے ہوئے پاؤں چین کی عورت کے ہیں، چین میں عورتوں کے پاؤں کو کنول کے پھول کی شکل دینے کے لئے کس طرح بچپن میں بچیوں کے پاؤں کی ہڈیوں کو توڑا موڑا جاتا تھا، اور تنگ جوتے پہنائے جاتے تھے، اس عمل کی تفاصیل درد ناک اور الم ناک ہیں۔

چین میں انقلاب کے بعد یہ رواج ختم کر دیا گیا گو کہ آج بھی چین میں موجود چند عقل کے اندھے عورت کے چھوٹے پاؤں کو خوبصورتی کی علامت سمجھتے ہیں لیکن کوئی عورت زبردستی چھوٹے پاؤں کروانا پسند نہیں کرتی ہے، چین کی عورتوں نے اس رواج کو جوتی کی ٹھوکر سے اڑا دیا ہے۔

ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کی مانند اپنے خیالات کو جرأت مندانہ پیرائے میں بیان کرنا ڈاکٹر طاہرہ کی بہادری ہے۔

فروغ فرخ زاد اپنی ایک نظم میں لکھتی ہیں:

لبوں پر مت لگا قفل خموشی
کہ دل میں قصہ ناگفتہ ہے میرا
مرے پیروں سے یہ بند گراں کھول
کہ اب غم سے دل آشفتہ ہے میرا
لبوں پر مت لگا قفل خموشی
مجھے کہنا ہے سر بستہ ہے جو راز
کہ پہنچے گوشے گوشے تک جہاں کے
مری یہ آتشیں پر درد آواز

ڈاکٹر طاہرہ کی آواز بھی گھن گرج کے ساتھ گونج رہی ہے اور سب تک پہنچ رہی ہے۔

یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ تمام مضامین ایک کتاب میں جمع کر دیے گئے ہیں اس طرح مداحوں اور ہم جیسے طالب علموں کو ایک ساتھ مضامین پڑھنے اور سیکھنے کا موقع مل گیا۔

کتاب کے ابتدائی صفحات پر مہناز رحمن، نیلم احمد بشیر، انور سن رائے، ستیہ پال آنند، ڈاکٹر عارفہ سیدہ، وجاہت مسعود اور افتخار عارف نے اپنی رائے دی ہے۔

کتاب سانجھ پبلیکیشنز نے شائع کی ہے۔

رابطہ نمبر:  37355323 0342


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).