طاہرہ کاظمی: ہماری مایا اینجلو


طاہرہ کی کتاب ”کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ“ پڑھ کر ہمارا حال قدیم داستانوں کے ان کرداروں کا سا ہوا جو کبھی ہنستے تھے اور کبھی روتے تھے۔ جب وہ کہتی ہے کہ اسے عورت ہونے پر فخر ہے، تو ہمارا دل بھی خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے مگر جب اس نے عورت پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں سنانا شروع کیں تو لاکھ ضبط کرنے پر بھی ہمارے آنسو بہہ نکلے اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا ٹشو کا ڈبہ استعمال کرنے کی نوبت آ گئی۔

طاہرہ کی خوبی صرف قاری کو رلانا نہیں بلکہ عورت کو اعتماد اور حوصلہ دینا اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دینا بھی ہے۔ بیسویں صدی کے ساٹھ اور ستر کے عشروں کی فیمنسٹس اور ایکٹوسٹس کو نوید ہو کہ اکیسویں صدی میں ان کے محاذ کو طاہرہ نے سنبھال لیا ہے۔ تحریک نسواں کی رہنماؤں کو طعنے دیے جاتے تھے کہ انہوں نے اگلی قیادت تیار نہیں کی۔ لو دیکھ لو، طاہرہ جیسی خواتین میدان میں آ گئی ہیں۔

ہم سالوں سے عورتوں کے جن حقوق کی بات کر رہے تھے، طاہرہ نے ان کے بارے میں اتنے زور و شور اور اعتماد سے آواز اٹھائی ہے کہ پدر سری نظام کے علمبرداروں اور مذہب کی من مانی تشریحات کرنے والوں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ میرا بس چلے تو اس کتاب کو یونیورسٹیوں کے سوشل سائنسز کے نصاب میں شامل کرا دوں بلکہ اس کتاب کو میڈکل کالجوں میں گائنا کالوجی کے مضمون کے ساتھ ساتھ پڑھانا ضروری ہے کیونکہ ڈاکٹر کا کام صرف چیر پھاڑ کرنا نہیں بلکہ تولیدی صحت کے حوالے سے عورتوں کے تولیدی حقوق کے لئے آواز اٹھانا بھی ہے۔

جیسا کہ ڈاکٹر طاہرہ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ بار بار سیزرین آپریشن کرانا عورت کے لئے کتنا خطرناک ہے۔ یا یہ کہ بیٹا پیدا نہ ہونے کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ عورت کے پاس ایکس ایکس کروموزوم ہوتے ہیں جب کہ مرد کے پاس وائی کروموزوم ہوتا ہے جو مختلف کمزوریوں کا سبب بنتا ہے۔ عورت کا ایکس کروموزوم اسے مضبوط بناتا ہے۔ طاہرہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ مرد کی جنسی بے راہ روی کیسے اس کی بیوی کو جنسی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے۔

اس کتاب اور تین چار عشروں سے صنف اور ترقی کے موضوع پر کی جانے والی باتوں پر ’سو سنار کی ایک لوہار کی‘ مثال صادق آتی ہے۔ جینڈر پر ہونے والی سینکڑوں ورکشاپس پر طاہرہ کی یہ ایک کتاب بھاری ہے۔ ’مجھے اپنی بیٹی کو قتل کرنا ہے‘ میں طاہرہ ہمیں ایران میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی لڑکی رومینہ کی کہانی سناتی ہیں اور کہتی ہیں ’ایران ہو یا افغانستان، ہندوستان ہو یا پاکستان‘ عورت کو دیکھنے، پرکھنے، جانچنے اور فیصلہ سنانے والی وحشت بھری آنکھ اور ہاتھ میں تھامے گئے آلہ ء قتل میں سرحدوں کی لکیروں سے کوئی فرق نہیں پڑا کرتا۔

’ایک اور کہانی جس نے مجھے رلا دیا وہ افریقہ میں نسوانی ختنے کے رواج کے بارے میں ہے ”کیا اللہ نہیں جانتا تھا کہ عورت کو کون سے اعضا بخشنے ہیں؟“ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے انہوں عورت کے نازک عضو کی چیر پھاڑ کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ مضبوط ترین اعصاب رکھنے والے قاری کو بھی ہلا کے رکھ دے گا۔ اسی طرح چین میں عورت کے پاؤں کو کنول کی شکل دینے کے لئے اس کے پیروں کی ہڈیاں توڑنے موڑنے کی تفصیل حساس لوگوں کی بھوک اور نیند اڑا دینے کے لئے کافی ہے۔ شکر ہے چین میں انقلاب کے بعد یہ رواج ختم ہو گیا تھا۔

طاہرہ نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں رائج رسم سوارہ پر بھی قلم اٹھایا ہے ”سوارہ یا انسانیت کا بٹوارہ“ میں وہ لکھتی ہیں ”ونی یا سوارہ ایک ایسی رسم جو وطن کے سب مردوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ عورت کو دو ٹکے کا گرداننے والوں کی ذہنیت اس پنڈال میں کھلتی ہے، جب مردانگی کے زعم میں مبتلا مردوں کا اجتماع اپنے جیسے مرد کی غلطی معاف کرتا ہے، اپنے جیسے ہی کو کفارہ ادا کرنے کو کہتا ہے، اور اپنے جیسے ایک اور مرد کی عیاشی کا سامان کرتا ہے۔

اس ساری اکھاڑ پچھاڑ میں چھری تلے کون آتی ہے، ایک کمسن بچی! ”

اپنے مضمون ”فرشتہ ہو یا زینب۔ یہ سب تمہاری حاکمیت کا تاوان ہے“ میں طاہرہ ریپ کی ان اقسام سے متعارف کراتی ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتیں یعنی ذہن کا ریپ کہ سوچنے کی آزادی نہیں، فیصلہ کر نہیں سکتی۔ خیالات کا ریپ کہ اظہار کی اجازت نہیں، کیا چاہتی ہے، بتانا نا ممکن! آزادی کا ریپ کہ باہر نکلنا تمہیں پسند نہیں۔ تمناؤں کا ریپ، جذبات کا ریپ اور مالی ریپ کہ عورت کما کے لائے لیکن اے ٹی ایم کارڈ تمہارے پاس ہو ”

اپنے قلم کے ذریعے عورتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف طاہرہ نے جس بے خوفی اور اعتماد کے ساتھ آوازٹھائی ہے، اس کا کریڈٹ وہ اپنے والد کو دیتی ہیں جنہوں نے عورت کو مالی طور پر مضبوط اور پر اعتماد دیکھنے کا خواب دیکھا اور ایمان کی طرح جزو ذات بنا لیا۔ اور یوں ہمیں طاہرہ جیسی تعلیم یافتہ مسیحا اور بے مثل لکھاری مل گئی۔ طاہرہ کی رول ماڈل سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ہیں جنہوں نے یزید کے دربار میں کلمہ ء حق بلند کیا۔

اس کتاب میں طاہرہ نے ایک مشاق عکاس کی طرح عورت پر ہونے والے ظلم کی ہر شکل کی عکاسی کی ہے۔ خواہ وہ قبر سے نکال کر ریپ کی جانے والی مردہ عورت ہو، جسمانی مار پیٹ سے مضروب، چولہے میں جلنے والی، تیزاب سے منہ بگاڑ دینے والی عورت یا ذہنی اذیتوں سے پاگل ہو جانے والی عورت، جنسی اعضا کو بجلی سے داغی جانے والی عورت، گالیاں سن کر زندگی بتانے والی عورت، طلاق کے بعد بچے چھین کر گھر سے نکالے جانے والی عورت، یا گلیوں میں ننگی گھمائے جانے والی عورت، غرض کہ ظلم کی ہر شکل کو اس نے بے نقاب کیا ہے۔

مجھے سب سے زیادہ جو بات پسند آئی وہ یہ کہ اس کتاب کی بدولت آپ ان مظالم اور رویوں کی جڑ یعنی پدر سری نظام کو اچھی طرح سمجھ جائیں گے اور ان لوگوں کے رویوں کو بھی جو HIMPATHY کا شکار ہیں۔ HIMPATHY پدر سری معاشرے کا وہ بد صورت سچ ہے، جہاں مرد کسی بھی گھٹیا صورتحال سے بری الذمہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے تحاشا ہمدردی کا مستحق بھی ٹھہرتا ہے اور اس کے ہر فعل کی توجیہہ گھڑ لی جاتی ہے۔ ویسے تو اس کتاب کا ہر مضمون اور ہر کہانی اپنی جگہ ایک شاہکار ہے مگر خاصے کی چیز خلیل الرحمن قمر اور حوروں کہ کہانیاں سنانے والے مولانا کے بارے میں مضامین ہیں۔ مایا اینجلو کے بارے میں انہوں نے اتنی خوبصورتی سے لکھا ہے کہ میں نے انہیں پاکستان کی مایا اینجلو قرار دے دیا ہے۔

جینڈرکی ورکشاپ ہو یا حقوق نسواں کے حوالے سے کوئی پروگرا م ہم لوگوں کو یہ جملہ ضرور سننے کو ملتا ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے خاص طور پر ساس کی بہو کے ساتھ زیادتیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ طاہرہ نے اس بات کا اتنا بھرپور جواب دیا ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب عورت ساس بنتی ہے تب تک پدر سری نظام اسے نوچ نوچ کر نیم مردہ کر چکا ہوتا ہے۔ وہ نظام جس میں مرد ایک عورت کو دوسری عورت پر ظلم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

عورت اس چکی میں پس کر اپنی ماہئیت ہی تبدیل کر بیٹھتی ہے۔ اپنی بقا کے لئے اس نظام پر ایمان لاتے ہوئے، وہ عورت نہیں رہتی اس نظام کا پرزہ بن جاتی ہے۔ اس کے اندر ایک عورت ہونے کی حساسیت اور دوسری عوت کے دکھ کو پہچاننے کی صلاحیت زندگی کے شروع میں ہی آرزوؤں کی چتا میں جل کے راکھ ہو جاتی ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں ماں نامی عورت کو اختیار ملنا صرف ایک مرد کے ذریعے سے ہی ممکن ہے جو کہ اس کا بیٹا ہے۔ ایک دوسری کہانی میں وہ بتاتی ہیں کہ ایک مرد سمجھداری سے کام لیتے ہوئے بیوی اور اپنے گھر والوں دونوں کو خوش رکھ سکتا ہے۔

آخر میں، میں طاہرہ سے کہنا چاہوں گی کہ یہ کتاب لکھنے کے بعد آپ صرف ڈاکٹر اور مصنفہ نہیں رہیں بلکہ حقوق نسواں کی تحریک کی رہنما بن گئی ہیں۔ اب ساری مظلوم خواتین رہنمائی کے لئے آپ کی طرف دیکھیں گی۔ یہ کتاب لکھ کر آپ نے بہت بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا لی ہے۔ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔ ویمن موومنٹ کی ساری ایکٹیوسٹس آپ کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).