چائے پانی کی دعوت یا کچھ اور؟


برسوں قبل پاکستان کی سیاست کے رموز سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اشاروں کنایوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ شہر اقتدار یعنی اسلام آباد کے ایک عالی شان ہوٹل کی لابی اقتدار سے ہمیشہ جڑے رہنے والے سیاستدانوں کا گڑھ ہوتی تھی۔

ایک میز پر سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء کے صاحبزادے اعجاز الحق تو دوسری میز پر سگار سلگائے شیخ رشید اور ان کے ارد گرد بیٹھے صحافی۔ آس پاس کالی واسکٹوں میں مخصوص کردار، عقل پر زور دینے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کا کس قبیلے سے تعلق ہو سکتا ہے۔

بینظیر حکومت کب گرنے والی ہے، نواز شریف سے فوج کیوں ناراض ہے، اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ فوج کے لیے کندھوں پر ہاتھ رکھنا، گویا تشبیہ جیسے فرشتوں کے لیے کہ وہ جنہیں سب کے اعمال کا علم ہے، اور اگر انگلیوں کا رخ آنکھوں کی طرف تو سمجھ جائیں کہ (خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی) کی طرف اشارہ ہے۔

نوے کی دہائی اور جنرل مشرف کے دور کے بعد اب سازشی تھیوریوں کے لیے گڑھ مرگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقعہ کوہسار مارکیٹ ہے۔ سڑک کے کنارے فیشن ایبل کیفے میں سیاستدان، ارد گرد اینکرز اور آس پاس گھومتے پھرتے غیر ملکی جوڑے، لیکن اب سیاسی بھاشا اشاروں سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔

اقتدار کی راہداریوں میں پھلنے پھولنے اور سازشی تھیوریوں کی آکسیجن سے سانس لینے والے سیاستدان اور ”مخصوص صحافی“ براہ راست جرنیلوں سے اپنے مبینہ رابطوں کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں، نواز شریف کی چالوں کے پیچھے کون ہے؟ کیا کسی اسلامی ملک کی حمایت ہے؟ مولانا فضل الرحمان، جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی تھالی میں ہم نوالہ رہے ہیں، اب کس کے بل بوتے پر آنکھیں دکھا رہے ہیں؟ ان سازشی تھیوریوں پر گفتگو میں نہ کندھے پر ہاتھ کا اشارہ، نہ آنکھوں کی طرف انگلیوں کا رخ۔

ملک میں جاری احتجاج اور اپوزیشن اتحاد کا عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کی تحریک میں اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست فریق بنانے کے بعد سیاسی احتجاجی بیانیے میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

سیاست ہو یا صحافت، سیاسی جلسے ہوں یا سیاستدانوں کی تقریریں یا پرائم ٹائم ٹی وی شوز، اسٹیبلشمنٹ کے لیے بالواسطہ اور مبہم گفتگو کے بجائے براہ راست نام لیے جا رہے ہیں۔ سیاستدان نون لیگ کے ہوں، پیپلز پارٹی کے، مولانا کی جے یو آئی کے یا حکمراں جماعت تحریک انصاف کے، یہ سبھی اپنے اپنے بیانیے کے مطابق ٹی وی اسکرینز پر اسٹیبلشمنٹ اور مختلف کرداروں کا نام لیتے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ برس جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی اپوزیشن نے توثیق کی تو وفاقی وزیر فیصل واڈا نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران نون لیگ پر ”فوج کا جوتا چاٹنے“ یعنی طنز کرنے کے لیے بوٹ میز پر رکھ دیا، جس پر بعد ازاں کافی تنقید بھی ہوئی۔

اپوزیشن اتحاد عمران خان کو ”سلیکٹڈ“ اور اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کے لیے ”سلیکٹرز“ کے القابات استعمال کرتا ہے اور تحریک انصاف جواباً ً اپوزیشن پر اداروں یعنی فوج کو ”بدنام“ کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ چاہے کوئی مخالفت میں بولے یا حمایت میں سیاسی اور عوامی ”ڈسکورس“ میں اسٹیبلشمنٹ کا ذکر ایک لازمی جزو بنتا جا رہا ہے۔

اپوزیشن اتحاد سے قبل سابقہ قبائلی علاقوں میں نوجوان پشتون قوم پرستوں کی تحریک پی ٹی ایم نے اپنے احتجاجی جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنایا تھا۔ ایک طرف پی ٹی ایم اور دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم، اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔

اس رجحان کو بعض مبصرین ایک ’خطرناک روش‘ اور ’اسٹیبلشمنٹ کے امیج‘ کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں اور بعض اسے جمہوری روایتوں میں پیش رفت اور جمہور کی تقویت گردان رہے ہیں۔

اس میں تو شک نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آمرانہ ادوار کے داغ لگے ہوئے ہیں۔ سیاست میں براہ راست اور بالواسطہ مداخلت بھی رہی ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز یا ان کی مدد کے سہارے اقتدار میں آنے کی بھی ایک تاریخ ہے۔

چاہے نواز شریف ہوں یا زرداری یا مولانا ماضی میں یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے اور معاہدے کرتے آئے ہیں۔

بینظیر اور نواز شریف جنرل مشرف کے دور میں ڈیل کے ذریعے جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آئے اور مولانا نے جنرل مشرف کے دور کو جائز قرار دینے کے لیے ”لیگل فریم ورک آرڈر“ کو تسلیم کیا تھا۔

آمرانہ ادوار میں تو سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ رہا ہے لیکن منتخب حکومت کے دور میں میں اتنی تلخی شاید پہلے دیکھنے میں نہیں آئی۔ چند ماہ پہلے جب نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف الزامات لگائے تو نون لیگ کے رہنما محمد زبیر کی فوج کے سربراہ سے دو ملاقاتوں کا راز بھی افشا ہوا۔ سیاسی جماعتوں کے دوہرے معیار پر خوب چرچا ہوا اور ہمیں وہ شعر یاد آ گیا۔

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں عمران خان کی جیت کے بعد سے تنازعہ کھڑا ہے، اپوزیشن جماعتوں کا الزام کہ اس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کرایا ہے۔ کرپشن مقدمات کے گرداب میں پھنسے شریف خاندان، زرداری اور مولانا نے حکومت مخالف تحریک چلائی ہوئی ہے، جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان ”غیر معمولی پارٹنر شپ“ میں دراڑ ڈالنا چاہتی ہے۔

اسی وجہ سے ناراضگیاں تلخیوں میں بدلی ہوئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں الزامات کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف رکھ کر اور اسے فریق بنا کر دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں۔ نواز شریف عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد سے بپھرے ہوئے ہیں۔ مولانا دو ہزار تیرہ سے نالاں ہیں، عمران خان کی خیبر پختونخوا میں مقبولیت، سیاسی کامیابیوں کا مطلب مولانا کی سیاست کا سکڑنا تھا۔ وہ اپنی سیاسی تنہائیوں کا ذمہ دار عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو سمجھتے ہیں۔

اسی کی دہائی کے بعد سے پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ مولانا کی غیر حاضری ہے۔ مولانا کی عمران خان کے ساتھ ذاتی سیاسی چپقلش کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے بیوفائی کے گلے شکوے ان کی ضد میں تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔

زرداری اپنی سیاسی تدبیروں کے ساتھ مفاہمت اور مزاحمت کی کشمکش میں توازن تلاش کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن بلاول شریف خاندان کی سیاسی جانشین مریم کے ساتھ جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر آج کی سیاست میں تہذیب کی گراوٹ بھی جھلک رہی ہے۔ مریم اپنی تقاریر میں عمران خان کو ”تابعدار“ یعنی طنزاً ً اسٹیبلشمنٹ کا وفادار کہہ کر پکارتی ہیں۔ عمران خان نواز شریف اور زرداری کو ”ڈاکو“ اور قومی دولت کے ”لٹیرے“ کہتے ہیں۔

بلاول کو ”چیگیویرا“ اور مریم پر سیاسی چوٹ مارتے ہوئے کہتے ہیں، ”انھیں دیکھو وہ اپنے آپ کو“ جون آف آرک ”سمجھتی پھرتی ہیں۔ جون آف آرک فرانسیسی تاریخ کی ہیرو تھیں جنہوں نے پندرہویں صدی میں جنگ لڑی اور قربانی کی مثال بنیں۔

ان دنوں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال نظر آتی ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم کسی سیاسی طوفان برپا کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات، ماضی کی عداوتیں اور مستقبل کی بے یقینی کی وجہ سے اعتماد کا فقدان ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں سوچ کے زاویوں میں اختلاف اس وقت نظر آیا، جب نواز شریف نے فوج کے اعلی ترین حاضر افسران پر الزامات لگائے۔ نواز شریف اچکزئی اور مولانا کے عزائم میں کہیں تصادم اور ٹکراؤ جھلک رہا تھا۔ لیکن زرداری، بلاول اور دوسری جماعتوں کو اس طرح براہ راست نام لینے پر اعتراض تھا۔

اسمبلیوں سے استعفوں کا معاملہ ہو یا سینیٹ انتخابات سے بائیکاٹ کا قضیہ، اپوزیشن جماعتوں کو اپنی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی کے انکار کی بعد اب نون لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن دونوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بڑے بڑے دعوؤں سے پسپائی کی وجہ سے اپوزیشن کی صفوں پر ضرب تو لگی ہے لیکن پاکستان میں تنازعات اور مسائل کی بہتات ہی رہی ہے۔

اپوزیشن جماعتیں اتحاد کو مزید دھچکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے احتجاج کا محور تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس پر رکھتی نظر آ رہی ہیں۔

الیکشن کمیشن پر دباؤ کہ گزشتہ کئی سال سے جاری مقدمے کا جلد سے جلد فیصلہ کیا جائے۔

مولانا جو اتحادیوں بالخصوص زرداری صاحب سے اکھڑے اکھڑے نظر آتے ہیں لیکن بظاہر اپنی مایوسی کو جارحانہ سیاسی حربوں سے ڈھانپا ہوا ہے۔

انہوں نے دہرے محاذ کا انتخاب کیا ہے۔ اپنے مذہبی رجحان اور مدارس کے طلبا کی فورس کو متحرک رکھنے کے لیے سیاسی احتجاج کے ساتھ ساتھ اسرائیل مخالف ریلیوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دینے کے لیے مولانا نے علامتی طور پر لانگ مارچ کی منزل کے لیے پنڈی شہر کا چناؤ کیا۔ فوج کے ترجمان نے کہا ”چائے پانی“ سے تواضع کریں گے۔ سیاسی حلقوں میں بیان کی مختلف تشریحات کی گئیں۔

مولانا کا تشبیہ اور استعارات سے بھرا جواب ”خود پیزا کھاؤ اور ہمیں چائے پر ٹرخاو۔“

مولانا کا یہ تلخ جواب اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے میں شدت کی عکاسی کرتا ہے۔ تاریخ میں تلخ یادیں اب بھی موجود ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو تخت دار پر لے جانے کا وقت قریب تھا۔

قید میں ڈیوٹی پر فائز فوجی افسر کرنل (ریٹائرڈ) رفیع الدین کی یاد داشتوں کے مطابق بھٹو صاحب نے پھانسی گھاٹ جانے سے پہلے چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیا، وقت گزرتا جا رہا تھا۔ تاخیر کے باعث بھٹو صاحب کو جب پھانسی گھاٹ لے جایا جا رہا تھا تو دوسری طرف سے ان کا مشقتی عبدالرحمان چائے کا کپ لا رہا تھا۔ بھٹو صاحب آخری وقتوں میں چائے نہ پی سکے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid