سرکاری ہسپتالوں، ثریا عظیم ہسپتال سے اتفاق ہسپتال تک


ایک طویل تھکا دینے والی رات گزارنے کے بعد ابھی میں نے بستر سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ ایک کھردری سی آواز ہے مجھے متوجہ کیا۔ اے بی بی! ایسے کیوں بیٹھی ہو، یہ ہسپتال ہے کوئی پارک نہیں۔ میں نے کہا کہ میرا مریض ڈسچارج ہو گیا ہے، میں ڈسچارج سلپ کا انتظار کر رہی۔ اچھا فیر کڈ اک ہزار روپیہ۔ میں نے اس کی طرف اپنی پوری نفرت سے دیکھا، بیگ سے ایک سو روپے نکال کر اور امی کا صدقہ سمجھ کر اسے دے دیا۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی، نہ جاتی تو میں اس کی بے عزتی کرنے اور 15 پر کال کرنے کے لیے مائنڈ بنا چکی تھی۔ یہ اس کا کوئی استحقاق نہیں تھا بلکہ یہ کھلی بد معاشی تھی جس کا سامنا ہمیں سرکاری ہسپتالوں میں قدم قدم پر کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ سال اٹھارہ اکتوبر کو امی کو ہارٹ اٹیک ہوا، جسے ہم سینے کی درد سمجھے اور انہیں ثریا عظیم ہسپتال لے گئے، ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر نے انہیں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جانے کا کہا۔ جہاں صرف ایک ای سی جی کی بنیاد پر یہ فتویٰ دے دیا گیا کہ ان کے تین وال بند ہیں۔ ایک لیک کر رہا ہے، ان کے لنگز آکسیجن نہیں دے رہے، اور بھی بہت کچھ اور ان کا بچنا بہت مشکل ہے۔

طبی دنیا میں ایسے فیصلے ایک معمولی سی ای سی جی کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے۔ بلکہ کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کئی ٹیسٹ ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ایک ای سی جی پر اتنا بڑا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں اگلے دن یعنی چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے یہ کہہ کر ڈسچارج کر دیا گیا کہ انہیں گھر لے جائیں، یہ ٹھیک ہیں اور سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اٹیک معمولی سا ہے کچھ نہیں۔ دوسرے کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ان کی عمر زیادہ ہے۔

گویا ساٹھ سال کے بعد آپ سرکاری شفا خانے میں علاج کا استحقاق نہیں رکھتے تو یہ جو حکومت بزرگ شہریوں کے لیے مراعات کا اعلان کرتی ہے ان کی حقیقت کیا ہے؟ صرف خانہ پری یا بزرگوں کے نام پر اپنے بینک اکاؤنٹ بھرنا؟ اگر ان مراعات کی کوئی حقیقت ہوتی تو سڑکوں پر بزرگ مرد و عورت رل نہ رہے ہوتے۔

خیر ہم امی کو لے کر گھر آ گئے مگر طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی۔ پانچ دن بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ ان کی طبیعت پھر خراب ہو گئی۔ ہم امی کو لے کر ثریا عظیم ہسپتال ہی گئے جہاں امی کے ڈاکٹر تھے مگر انہوں نے صبح آنا تھا۔ ہم نے امی کو وہیں پہلے ایمرجنسی اور پھر روم میں رکھنے کا فیصلہ لیا کیونکہ ہم امی کو آرام پہنچانے کے خواہش مند تھے۔

بنیادی طور پر یہ ہمارا غلط فیصلہ تھا جس کی نفی ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر کو کرنی چاہیے تھی کہ صبح ہونے تک انہیں ایمرجنسی میں رکھتے ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب کے آنے پر فیصلہ کیجیے گا۔ مگر ڈاکٹر نے ہسپتال کا بل بنوانا زیادہ مناسب سمجھا کیونکہ ہم انہیں وہ بکرے لگے جو چھری تلے آ چکے تھے۔

صبح تک امی کے کافی سارے ٹیسٹ کرا لیے گئے۔ اسی دوران ثریا عظیم ہسپتال سے چیسٹ کے ایک نارمل ایکسرے کے سات سو روپے وصول کیے گئے جبکہ یہ پورٹیبل ایکسرے بھی نہیں تھا، ہمیں مریض کو خود وہاں لے کر جانا تھا۔ جبکہ اتفاق ہسپتال میں وہی چیسٹ ٹیسٹ ساڑھے چار سو روپے کا ہوا۔ ثریا عظیم ہسپتال نے اس رات بلڈ پریشر چیک کرنے کے بھی چارجز وصول کیے اور شوگر کے بھی جو کہ میرے لیے نئی بات تھی۔

امی نے وہ رات بہت اذیت میں گزاری، ان کی چیسٹ پین شدت اختیار کر رہی تھی جس کا علاج جاری تھا۔ جسم میں آکسیجن کم تھی۔ ہارٹ بیٹ۔ بی پی، شوگر کچھ بھی نارمل نہیں تھا۔ صبح چھ بجے کے لگ بھگ امی کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی اور وہ سو گئیں۔ مجھے بھائی نے کہا کہ کچھ دیر کے لیے سو جاؤ مگر نیند کہاں سے لاتی۔ دس بجے کے قریب ڈاکٹر شاکر آئے۔ انہوں نے ایک ہی مشورہ دیا کہ انہیں ہر حال میں کارڈیک ایمرجنسی میں لے کر جائیں۔

ہارٹ اٹیک میجر ہو یا مائینر تین سے سات دن انڈر آبزرویشن رکھتے ہیں، پی آئی سی نے اتنی جلدی ڈسچارج کیوں کیا؟ انہیں میجر اٹیک ہوا تھا جبکہ ہمیں پی آئی سی کے سینئر ڈاکٹر نے کہا تھا کہ نارمل ہے۔ جناح ہسپتال میں ریفر کر رہا ہوں وہ آپ کے گھر کے پاس ہے۔ انہیں اس وقت صرف کارڈیک ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک نوٹ لکھ کر دے دیا۔

میں نے امی کی رپورٹس لینی تھیں اور ساتھ ہی میں نے ایمبولینس سروس کے لیے 1122 پر کال کی جہاں سے کورا جواب دے دیا گیا کہ ہم پرائیویٹ ہسپتال سے مریض نہیں اٹھاتے۔ میں نے شدید ترین ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تم لوگ صرف لاشیں اٹھاتے ہو یا شاپنگ کے لیے جانے والی اپنے بڑوں کی آل اولادوں اور بیویوں کو؟

مجبوری ’الخدمت‘ تک لے کر گئی تب اس رات پی آئی سی والی ڈکیتی کا اندازہ ہوا۔ کیونکہ اس ڈرائیور نے چوبرجی سے جیل روڈ تک ایک ہزار کرایہ لیا تھے اور یہ چوبرجی سے جناح ہسپتال تک پانچ سو روپے کہہ رہا تھا۔ کون کیا تھا اس کا فیصلہ بعد میں کرنا تھا۔ رات کو ریسپشن والے کے پاس چینج نہیں تھا، وہ بھی ایک ہزار میں سے ساڑھے آٹھ سو روپے پی چکا تھا۔

اس دوران بھائی کی کال آئی کہ امی کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ صحیح غلط کی بحث ایک طرف رکھ کر امی کو نیچے لائے اور جناح ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ ساتھ ہی میں نے فیس بک پر ریفرنس کی درخواست کر دی۔ لاہور کے اتنے بڑے میڈیا میں اتنے صحافی دوستوں، جاننے والوں کی موجودگی میں جناح ہسپتال کے ایم ایس جس کو میں اشرف المخلوقات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کے لیے ایک ایسا ریفرنس ملا جس نے مایوس ہی کیا۔ یہ لوگ ڈاکٹر کیوں اور کیسے بن جاتے ہیں؟

جناح ہسپتال لاہور پنجاب پاکستان میں، میں نے انسانیت کو روتے ہوئے، شرمندہ ہوتے ہوئے اور ڈاکٹروں کی بے حسی اور بے غیرتی کو دیکھا۔ میں اور بھائی ایمبولینس کے سٹریچر پر نیم مردہ پڑی اپنی ماں کو لیے ایک وارڈ سے دوسرے وارڈ میں لے جاتے رہے۔ کسی ڈاکٹر نے انہیں دیکھنے، چیک کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ہمارا مریض نہیں ہمارا مریض نہیں۔

اکتوبر کی 23 تاریخ، جمعہ کا دن اور ایم ایس اور ہسپتال کی انتظامیہ بارہ بجے جمعہ کی چھٹی کر چکی تھی۔ میں نے ابھی بات بھی شروع نہیں کی تو ایم ایس دھاڑا کہ باہر جاؤ۔ تمہیں نہیں پتہ کہ جمعہ کا وقت ہو گیا ہے۔ تین بجے کے بعد آنا، یہ کیسی عبادت تھی؟ یہ کیسی تعلیم تھی؟

میں امی کی طرف آئی، ان کی حالت خراب ہو رہی تھی اور وہ طبی امداد سے محروم تھیں۔ خدارا یہ کیسے لوگ ہیں یہ خود کو مسیحا کہتے ہیں۔ ہم تینوں بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایمبولینس والے سے کہا کہ ہمیں اتفاق ہسپتال لے جائے۔ مجھے پتہ تھا کہ اپنی اوقات سے بڑا قدم اٹھا رہے ہیں مگر مالک سے بڑا کوئی نہیں۔ اتفاق ہسپتال پہنچے، ایمبولینس سروس والے کو تین سو روپے اوپر سے دیے۔

اتفاق ہسپتال میں پہلے قدم پر ہی مجھے حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ایمبولینس گیٹ سے اندر گئی تو وہاں موجود اٹینڈنٹ نے ہمیں مریض سے دور کر دیا اور پوچھا کیا ہوا ہم نے کہا ہارٹ اٹیک۔ وہ امی کو سیدھا کارڈیک ایمرجنسی میں لے گئے۔ وہاں امی کی ای سی جی ہوئی، اس کے بعد ڈاکٹر نے ایک ٹیسٹ کرایا اور ہم پر واضح کیا کہ انہیں دو ہارٹ اٹیک ہوئے ہیں، ایک میجر اور ایک مائینر۔ ملٹی پل ایشوز متوقع ہیں۔ ہمیں انہیں داخل کرنا پڑے گا۔ آپ پریشان نہ ہوں ان شا اللہ، اللہ بہتر کرے گا۔

میں نے ہسپتال میں داخلے کے سارے لوازمات پورے کیے۔ انہوں نے مجھ پر واضح کر دیا کہ یہ جو آپ پیسے دے رہی ہیں اسی میں سب کچھ ہے اور اگر آپ کا مریض جلدی ڈسچارج ہو گیا تو باقی رقم جو استعمال نہیں ہو گی آپ کو ادا کر دی جائے گی۔ امی ابھی کارڈیک ایمرجنسی میں تھیں۔ میں امی کے پاس تھی، دوپہر گزر رہی تھی کہ ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر عاصم ریاض جنہوں نے امی کو چیک کیا تھا سے میری بات ہوئی۔ ثریا عظیم ہسپتال میں جتنے بھی ٹیسٹ ہوئے تھے کسی کی رپورٹ ٹھیک نہیں آئی تھی۔ ڈاکٹر عاصم نے ایک ہی بات کی کہ اللہ پر بھروسا رکھیں اور ہمیں ٹائم دیں۔

امی کو ایمرجنسی وارڈ سے آئی سی یو کارڈیک وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوتا ہوا میں نے دیکھا اس نے شانت کر دیا۔ ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر کزن آ گئی اور میں ان کے گلے لگ کر روتی رہی۔ جناح ہسپتال کی کسی وحشی لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ مائی نے نہیں بچنا۔ میرا دل کر رہا کہ میں ان ڈاکٹروں کو گریبانوں سے پکڑ کر خوب بد دعائیں دوں۔ مجھے ڈیوٹی پر موجود نرس نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں ہمیں اگر آپ کی ضرورت پڑی تو ہم خود کال کر لیں گے۔

امی شاید کچھ بہتر تھیں مگر ہوش میں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر مجھ سے ساری معلومات لے چکے تھے، ایک ایک بات پوچھی گئی۔ کون سی کون سی میڈیسن استعمال کرتی ہیں، خوراک وغیرہ۔ رات آٹھ بجے کے قریب پتہ چلا کہ مریض کے ساتھ کسی کو رہنے کی اجازت نہیں، بھائی نے کہا کہ تم گھر چلی جاؤ۔ میں ویٹنگ روم میں رہوں گا۔ میں نے اوبر منگوائی اور گھر آ گئی۔

ہسپتال میں سارے مراحل سے گزرنے کے بعد میں نے سوشل میڈیا پر براہ راست مدد کی پوسٹ لگا دی کیونکہ اندازہ ہو گیا تھا کہ خرچہ زیادہ ہو جائے گا اور ایک مڈل کلاس گھرانے کی کتنی سیونگز ہو سکتی ہے، جو تھا لگا دیا۔ اسی پوسٹ کے تناظر میں سینئر صحافی امجد عثمانی صاحب نے اپنے تعلقات استعمال کرنے کا فیصلہ لیا۔

رشتے داروں کے کالز آنے لگیں اور کچھ جاننے والوں کی اتنے مہنگے ہسپتال میں لے گئے ہو۔ بک جاؤ گے اور دوست کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا ہم ہیں ناں ساتھ۔ تب ایک بات سمجھ آئی کہ دوست سنبھال لیتے ہیں رشتہ دار اچھال دیتے ہیں اور یہی ہوا۔ امی کے لیے بے تاب میرا ننھیال اور ددھیال صرف فون کالز تک ہی محدود رہا، سوائے ایک خالہ کے جو اپنے قول و فعل میں ہمیشہ سب پر بھاری رہی ہیں۔

اللہ کا شکر کہ اگلے دن میں صبح آئی تو امی ہوش میں تھیں۔ بھائی انہیں ناشتہ کرا چکا تھا کہ شوگر لو ہو رہی تھی، اللہ نے ہمارے آنسوؤں اور بے بسی کو قبول کر لیا تھا۔ امی جنہیں 24 گھنٹے پہلے جواب دے دیا گیا تھا وہ اب سنبھل رہی تھیں تاہم ان کی صحت کو کئی طرح کے خطرات و خدشات لاحق تھے۔

مجھے پہلی بار اتفاق ہسپتال میں Camplant Treatment اور Diagnosis Treatment کا فرق پتہ چلا۔ مجھے پہلی بار یہ پتہ چلا کہ شوگر کی کمی پیشی سے صرف بی پی ہائی نہیں ہوتا، یا سماعت کمزور نہیں ہوتی بلکہ دل و دماغ بھی متاثر ہوتے ہیں جس کی طرف عموماً توجہ نہیں دی جاتی، کیوں نہیں دی جاتی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

آگے بڑھنے سے پہلے گزشتہ سال اکتوبر سے پیچھے جنوری تک جاتے ہیں کیونکہ گزشتہ سال مجھے مختلف حوالوں سے لاہور کے آٹھ سے نو ہسپتالوں میں علاج معالجے کے سلسلے میں آنا جانا پڑا۔ کبھی میری اپنی ذات، کبھی امی، کبھی کوئی مستحق مریض۔ ان میں مغل آئی ہسپتال، المصطفی ٹرسٹ ہسپتال غازی روڈ، ثریا عظیم ہسپتال، پی آئی سی، جناح ہسپتال، سروسز ہسپتال، اتفاق ہسپتال، انڈس ہسپتال رائے ونڈ روڈ اور آغا خان لیبارٹریز۔

ہسپتال کا عملہ ہو نرسنگ سٹاف ہو یا ڈاکٹروں کا رویہ، سب میں اتفاق ہسپتال آگے رہا۔ انتہائی رش میں بھی ان لوگوں کا رویہ مریضوں کے ساتھ، ان کے لواحقین کے ساتھ اخلاقی اقدار سے بھرپور رہا۔ رش کی بات اس لیے کر رہی ہوں کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں کو یہی کہہ کر درگزر کیا جاتا ہے کہ وہاں رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہر طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں اور یہی موقف اس دن میرا تھا۔ اتفاق ہسپتال میں اس دن ہر طرح اور مزاج کے لوگ تھے ہاں فرق صرف یہ ہے کہ ان کے پاس پیسہ تھا وہ اپنے مریض بچانے آئے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ میں گنگا رام ہسپتال میں تھی ایک بابا جی ویل چیئر پر تھے اور جو فیملی ساتھ تھی ان میں سے کوئی بھی ایسا مرد یا عورت نہیں تھی جس کے ہاتھ میں اپیل کا آئی فون نہ ہو اور لباس بھی چغلی کھا رہے تھے کہ کھاتی پیتی فیملی ہے مگر اپنے باپ کو سرکاری ہسپتال میں لا کر ڈاکٹروں پر غرا رہے تھے کہ پہلے ہمارے مریض کو دیکھو جبکہ اتفاق میں اس کے برعکس دیکھا۔ سادہ سے لباس میں دیہاتی علاقوں سے آئے ہوئے، اپنوں کے لیے تڑپتے ہوئے چہرے۔ روئی ہوئی آنکھیں اور امید کی لاٹھی کہ اللہ بہتر کرے۔

خیر ہم بات کر رہے تھے ڈاکٹروں اور عملے کے رویوں کی تو اتفاق ہسپتال میں عملے نے امی کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔ یہاں تک کے جوتے تک خود پہنا دیتے۔ روز بستر کی چادر بدلتے۔ امی کو محض ایک ہی ڈاکٹر نے نہیں دیکھا، ڈاکٹر عاصم کو جہاں جہاں ایشو لگا وہ متعلقہ ڈاکٹروں کو کال پر لاتے رہے۔ ڈاکٹر سلمان اپل، ڈاکٹر آصف قادری، ڈاکٹر عامر سہیل، اب امی کی Camplant نہیں Diagnosied Treatment شروع ہو رہی تھی۔ میں مطمئن ہو چکی تھی۔ مجھے لگا اگر وہ اچھی فیس لے رہے تھے تو اسی کے مطابق علاج کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ ثریا عظیم ہسپتال میں بھی ایمرجنسی میں ڈاکٹر وزٹ کی فیس ہوتی ہے، ایک سے دو ہزار تک۔ ہر حوالے سے میں اتفاق ہسپتال کو بہترین قرار دوں گی۔ ان کا عملہ انسانیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کی وجہ انتظامیہ ہے۔ وہ انتظامیہ جو مریض کو ایک انسانی جان کو فوقیت دے رہی ہے۔ میں نے وہاں مریضوں کے ساتھ حسن سلوک دیکھا، ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک آدھ بندہ شر پسند بھی ہو مگر میرے موجودگی میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو مجھے متنازع لگتی۔

ڈاکٹر بخشی ہوں یا سی او (ر) برگیڈئیر سلیم اور ہسپتال کی دیگر انتظامیہ، انہوں نے چیک اینڈ بیلنس کا ایسا انتظام قائم کیا ہے جس کی جھلک آپ کو قدم قدم پر ملتی ہے۔ مریض کو واش روم لے جانے کے لیے بھی اٹینڈنٹ موجود ہے۔ ورنہ ایک ہی جگہ سے پڑھنے والا نرسنگ سٹاف ایک جگہ فرشتہ تو دوسری جگہ سخت گیر نہیں ہو سکتا۔ اصل کردار انتظامیہ کا ہے جو اس بات کو سمجھتی ہے اور اس پر عمل درآمد کرتی اور کراتی ہے۔ اتفاق ہسپتال میں یہ خوبی میں نے دیکھی اور بارہا دیکھی کیونکہ امی کا علاج وہیں ہو رہا ہے۔

مغل آئی ہسپتال، المصطفی ٹرسٹ ہسپتال اور انڈس ہسپتال رائے ونڈ روڈ کے ڈاکٹروں کے بارے میں بھی یہی کہوں گی کہ بہت ہی اچھے ڈاکٹر ہیں۔ اتفاق ہسپتال کے عملے کے بعد مغل آئی ہسپتال کا عملہ بھی اچھا ہے۔ گنگا رام ہسپتال اور سروسز ہسپتال کے وزٹ بھی اچھے تھے۔ پی آئی سی، جناح اور انڈس ہسپتال کا عملہ، ان کو انسانوں کے ساتھ بات کرنے کی، مریض کو بطور مریض اچھے سے ڈیل کرنے کی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان سب کے پیچھے مجھے انتظامی کمزوری نظر آتی ہے۔

جب ایم ایس صاحب یا اوپر والا عملہ دو سے تین گھنٹوں کے لیے ہسپتال آئے گا اور لواحقین کو ان سے ملنے تک نہیں دیا جائے گا تو وہاں مسائل پیدا ہوں گے اور انسانیت کے خلاف جرائم بھی۔ میں اسی قسم کے رویوں کی توقع ہر جگہ سے رکھتی ہوں کیونکہ مریض جس کیفیت کا شکار ہوتا ہے اور اس کے لواحقین پر جو گزرتی ہے اس کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا۔ کئی مقامات پر آپ پیسے خرچ کر کے بھی خوار ہو جاتے ہیں اور کوئی سنتا بھی نہیں۔

پاکستان کے طبی اسٹرکچر میں ملک گیر تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے مگر کون لائے جہاں عوام صرف ووٹ ہے شہری نہیں۔ مگر ہم بات کر سکتے ہیں، کوشش کر سکتے ہیں کہ یہاں بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے بعد اتفاق ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ہی ممنون ہوں جنہوں نے مرض کی جڑ تک جانے کی کوشش کی، جہاں مریضوں کو تجربات کی بھینٹ اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ملنے والے لالچ کی نذر نہیں کیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).