منٹو کے آخری ایام


آج منٹو کی برسی ہے۔ سنکر بل کے شاہکار ناول ”دوزخ نامہ“ سے چند صفحات ملاحظہ کیجیے جس میں منٹو مرزا غالب کو اپنے آخری ایام کا احوال بتا رہے ہیں۔

لاہور آ کر میری شراب نوشی حد سے تجاوز کر گئی تھی، مرزا صاحب۔ کہیں کوئی دوست نہیں تھا۔ آنے والے دن بالکل تاریک دکھائی دیتے تھے۔ اگر میں مر گیا تو میرے بیوی بچے سڑک پر آ جائیں گے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد وہی وارفتگی کی کیفیت ہوجاتی، جس میں مجھے لگتا کہ میں ابھی تک بمبئی میں ہوں۔ میں نے توقع کی تھی کہ پاکستان میں مجھے افسانہ نگار کے طور پر عزت ملے گی، میں نے ہندوستان سے یہ سوچ کر ہجرت کی تھی کہ پاکستان میرا وطن ہے۔

لیکن مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ مجھے ایک آوارہ کتے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ جی چاہتا ہر وقت شراب کے خمار میں ہی رہوں، دھند سے گھرے ہوئے کسی پہاڑی ٹیلے پر، اکیلا۔ ان گھنٹوں کے علاوہ کہ جب مجھے لکھنے کے لیے جاگنا پڑتا تھا، اور کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو نشے میں ڈوبے رہنے جیسا سکون دے سکتی۔ نشے کی اس حالت میں سینکڑوں لوگ ظاہر ہو جاتے۔ سب کے سب مبہم پرچھائیوں جیسے تھے۔ میں گویا کسی آسیب زدہ گھر کی طرح زندہ تھا۔

میں ان سائے نما لوگوں سے لگاتار باتیں کرتا۔ صفیہ جھنجھوڑ کر مجھے جگاتی اور میری محویت کو توڑ ڈالتی۔ نشہ اترتے ہی میرا جسم پھر سے شراب طلب کرنے لگتا۔ میرا پاگل پن اور بڑھ جاتا۔ صفیہ نے مجھے شراب کی اس لت سے نجات دلانے کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ جتنی کوشش کرتی، میں اتنا ہی اپنی نشیلی دنیا میں لوٹ جانے کے لیے نئی چالیں ترتیب دینے لگتا۔ کچھ یار دوست بھی اکٹھے کر لیے تھے، میں جانتا تھا کہ انھیں افسانہ نگار منٹو کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔

ہم بس پینے پلانے کے یار تھے۔ جب میرے پاس پیسے نہ ہوتے تھے تو وہی میری مدد کو آتے تھے، پھر بھلا میں انھیں کیسے چھوڑ دیتا؟ کثرت شراب نوشی نے میرے جسم اور دماغ دونوں کو کھوکھلا کر دیا تھا، اگر کوئی نیک مشورہ بھی دیتا تو میں طیش میں آ جاتا۔ احمد ندیم قاسمی نے کئی بار مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں شراب نوشی ترک کر دوں۔ کچھ دن تک تو میں چپ چاپ سنتا رہا پھر ایک دن مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اسے کہہ دیا، ’قاسمی، تم میرے دوست ہو، مسجد کے ملا نہیں ہو جو میرے اخلاقی کردار کی ذمے داری تم پر ہو۔

‘ اس کے بعد قاسمی نے دوبارہ میری اصلاح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لاہور میں میرے کچھ پرانے دوست بھی تھے، لیکن وہ بھی مجھ سے دور رہنے لگے تھے۔ میرے خاندان والے مجھ سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے تھے، مجھے دیکھتے ہی دور چلے جاتے۔ لاحول ولا قوۃ، منٹو بھی یہاں ہے۔ چلو چلیں۔ ذلیل کہیں کا پھر ادھار مانگنے لگے گا۔ ہاں، میں اتنا ہی نیچے گر چکا تھا۔ میں اپنی تحریروں سے بھلا کتنا کما لیتا ہوں گا؟ ہر روز پینے کے لیے بھی تو آخر پیسہ چاہیے۔

جو بھی ملتا میں اس سے ادھار مانگنے کی کوشش کرتا، کبھی جھوٹ بولتا کہ صفیہ بیمار ہے، کبھی کہتا کہ بیٹیاں بیمار ہیں۔ میں خوب جانتا تھا کہ یہ لت مجھے کسی گہری کھائی میں لیے جا رہی ہے، لیکن یہ اندھی محتاجی اب میرے قابو سے باہر ہو چکی تھی۔ جب تک شراب اندر نہ جاتی مجھے سکون نہیں ملتا تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے اور مزاج مزید چڑچڑا ہو جاتا۔

سب سے گھناونی حرکت میں نے تب کی جب میری بڑی بیٹی نگہت کو ٹائیفائیڈ ہوا۔ اس کی دوا کے لیے میں نے ایک رشتے دار سے پیسے ادھار لیے، لیکن میں اپنی بیٹی کی دوا کے بجائے وہسکی کی بوتل لیے گھر لوٹا۔ عموماً ایسے موقعوں پر صفیہ روتی اور چلاتی تھی، لیکن اس بار اس نے ایک لفظ نہیں کہا۔ وہ دیر تک خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی، پھر پانی کا گلاس رکھ کر کمرے سے چلی گئی۔ دوسرے کمرے سے نگہت کے بخار میں کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے پانی ملائے بغیر جوں ہی وہسکی کا ایک گھونٹ بھرا، مجھے قے ہو گئی۔ دوسرے کمرے میں صفیہ نگہت کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی۔ میں نے جاکر اس کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا، ’مجھے معاف کردو۔‘

اسے بہت تیز بخار ہے آپ اپنے کمرے میں چلے جائیے، منٹو صاحب۔
نہیں۔ پہلے تم مجھے معاف کردو۔ میں نگہت کی قسم کھا کر کہتا ہوں اب کبھی شراب نہیں پیوں گا۔
اور کتنی قسمیں کھائیں گے، منٹو صاحب؟

میرا یقین کرو۔ اس بار، واقعی۔ میں دوبارہ سے شروع کروں گا، صفیہ۔ صفیہ نے نرمی سے کہا، ’میری ہمت جواب دے چکی ہے، منٹو صاحب۔‘

آخری بار میرا یقین کرلو، صفیہ۔ تم تو جانتی ہو میں کتنا ثابت قدم رہ سکتا ہوں۔ میں اگر ٹھان لوں تو سب کچھ کر سکتا ہوں۔

صفیہ مسکرا دی، ۔ ٹھیک ہے۔ اب آپ جاکر سو جائیے۔

میں نگہت کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ میں اسے گلے سے لگا لینا چاہتا تھا، چومنا چاہتا تھا۔ میں ندامت سے مرا جا رہا تھا، کیسا باپ تھا میں جو بیٹی کی دواؤں کے پیسوں سے شراب خرید لایا؟ مجھے معاف کر دینا، نگہت بیٹی۔ میں نے اسے گود میں بھر لینا چاہا لیکن مجھ میں اس کی طاقت نہیں رہی تھی۔ دفعتاً صفیہ مجھے وہاں سے دھکیلتے ہوئے چلانے لگی، ’جو کچھ کیا وہ کافی نہیں تھا کیا؟ اب کم سے کم لڑکی کو تو چین سے رہنے دیں، منٹو صاحب۔‘

نہیں، میں آج رات یہیں اس کے پاس رہوں گا۔
اگر آپ اسی طرح کریں گے تو نگہت کی طبیعت اور خراب ہو جائے گی۔
یہ میری بیٹی ہے۔ میں اس کے پاس۔

رحم کیجیے، منٹو صاحب۔ ہم آپ کے کھیلنے کی چیزیں نہیں ہیں۔ آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟ اس سے تو بہتر ہو گا کہ آپ ہم چاروں کو مار ڈالیں۔ تیز تیز بولنے کی آوازیں سن کر لوگ کمرے میں چلے آئے۔ حامد کی بیوی بگڑ کر بولی، ’بہت ہو گیا چاچا جی۔ یہ آپ کا شراب خانہ نہیں ہے۔ اپنے کمرے میں چلے جائیے۔‘

زندگی میں پہلی بار میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کسی نے مجھ سے اس طرح بات کرنے کی جرات کی تھی، مرزا صاحب۔ میں کچھ بھی کہنے سے قاصر تھا۔ کسی گھونگھے کی طرح اپنے خول میں سمٹ کر میں کمرے میں آ گیا۔ جواب دینے کی قوت ارادی مجھ میں بالکل نہیں تھی۔ نہ تذلیل کا احساس تھا اور نہ خود سے نفرت کا، ۔ یوں لگ رہا تھا گویا اب میرا کوئی سہارا نہیں۔ مجھے زخمی کرنے کے لیے یہ ہتھیار میں نے خود ہی ان کے ہاتھوں میں دیے تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب واقعی شراب نہیں پیوں گا۔ مجھے لاہور میں نئے سرے سے زندگی شروع کرنا ہو گی، گھربار ویسے ہی موثر طریقے سے چلاؤں گا جیسے بمبئی میں چلاتا تھا۔

اگلے دن میں صبح ہی سے گھر کے کاموں میں لگ گیا۔ اپنے ہاتھوں سے ہر کمرے کی جھاڑ پونچھ کی، دیواروں پر سے جالے صاف کیے۔ فرنیچر کو جھاڑا۔ ایک کرسی کا پایا ٹوٹ گیا تھا، بیٹھ کر اس کی مرمت کی۔ میں نے ساری ردی اور شراب کی بوتلیں جو جمع ہو گئی تھیں، بیچ ڈالیں۔ برآمدے میں بچوں کے لیے جھولا ڈال دیا۔ بازار سے رنگ برنگے پرندوں سے بھرا ہوا ایک پنجرہ خرید لایا۔ نزہت اور نصرت، دونوں چھوٹی بیٹیاں دوڑتی ہوئی آئیں اور آ کر مجھ سے لپٹ گئیں۔ ان کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ میں رو پڑا، مرزا صاحب۔ یہ بچیاں اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کیسے خوش ہوجاتی ہیں، لیکن میں اپنے نشے کی خماری کی وجہ سے آج تک یہ دیکھ ہی نہیں پایا تھا۔

صفیہ بھی آ گئی اور اس نے نہایت سنجیدگی سے پوچھا، ’یہ کیا نیا پاگل پن ہے، منٹو صاحب؟‘
پرندوں کے بغیر بھی کوئی گھر بنتا ہے، صفیہ؟
کس کے گھر کی بات کر رہے ہیں، منٹو صاحب؟
ہمارے گھر کی، اور کس کے گھر کی؟ میں کسی اور کا گھر بنانے کی بات کیوں کروں گا؟
آپ گھر بنانا چاہتے ہیں تاکہ اسے پھر سے تباہ کر سکیں؟

میں نے صفیہ کا ہاتھ پکڑ لیا، اور کہا، ’میرا بھروسا کرو، آخری بار صفیہ۔ اور میری مدد کرو۔ میں ایک بار پھر اپنے گھرکو بنا لوں گا۔‘

آپ پر بھروسا کر کے ہی تو میں اب تک زندہ ہوں، منٹو صاحب۔ ورنہ کب کی مر چکی ہوتی۔
چھی چھی! صفیہ یہ بات مت بھولو کہ تمھاری تین تین بیٹیاں ہیں۔
کیا وہ آپ کی بیٹیاں نہیں ہیں؟
میرا اعتبار کرو، صفیہ۔ وہ ڈراؤنے خواب جیسے دن اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔

کچھ دنوں تک میں نے بالکل مختلف زندگی گزاری۔ شراب نہ پینے کی وجہ سے مجھے بہت کمزوری ہو گئی تھی۔ میں کچھ وٹامن کی گولیاں اور ٹانک لے آیا۔ صرف میرے خاندان کے لوگ ہی نہیں بلکہ اردگرد کے سب لوگ بھی مل کر گویا جشن منانے لگے۔ منٹو نے شراب چھوڑ دی۔ ان سب کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ ویسے پوری طرح کسی کو بھی اب اس بات کا یقین نہیں تھا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا۔ اور ہر بار کی طرح اس بار بھی منٹو نے سب کا بھروسا توڑ دیا۔

چند دنوں کے بعد ہی وہ اپنے شرابی دوستوں سے جا ملا۔ گھر میں پھر سے بوتل آ گئی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ شراب پر میرا انحصار اب انتہائی حد پر پہنچ چکا ہے۔ جس دن شراب نہ پیتا، میں ایک لفظ بھی نہ لکھ پاتا۔ اور اگر لکھ نہ پاتا تو کیسے گھر چلاتا؟ مروں یا بچوں۔ اب شراب ہی میرا آخری سہارا تھی، مرزا صاحب۔

میں بہت امیدیں لے کر پاکستان آیا تھا۔ ان امیدوں کے ساتھ بہت سے سوال جڑے تھے۔ کیا نئی مملکت پاکستان کا اپنا مختلف ادب ہوگا؟ اگر ہو گا تو اس کی شکل کیا ہوگی؟ غیر منقسم ہندوستان میں لکھے جانے والے ادب کا، دونوں قوموں میں سے قانونی مالک کون ہوگا؟ کیا اس ادب کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا جائے گا؟ کیا سرحد کے اس پار اردو کو بالکل ختم کر دیا جائے گا؟ اس کے لیے زبان پاکستان میں کیسے شکل اختیار کرے گی؟ کیا ہمارا ملک اسلامی مملکت ہوگا؟

مملکت سے وفادار رہتے ہوئے کیا ہم حکومت پر تنقید کرسکیں گے؟ کیا ہم انگریزوں کے راج سے بہتر زندگی گزار سکیں گے؟ مجھے ان سوالوں کا جواب نہ مل سکا، مرزا صاحب۔ جو شخص پھیری والے کی طرح کہانیاں بیچ کر اپنا گھر چلاتا ہو اس کے پاس ایسے بھاری بھرکم معاملات پر سوچنے کی فرصت کہاں۔ اوپر سے، پاکستانی حکومت ہر وقت میرے پیچھے ٖپڑی رہتی تھی۔ ’میرے افسانوں‘ ٹھنڈا گوشت ’اور‘ اوپر نیچے اور درمیان ’پر فحش نگاری کے مقدمے دائر کیے گئے تھے اور مجھے جرمانہ ہو چکا تھا۔

پاکستان کے کئی ادیب اور دانشور چاہتے تھے کہ مجھے جیل میں ڈال کر اچھی طرح سبق سکھایا جائے۔ عدالتوں میں لگاتار پیشی، مسلسل جرح۔ میں اتنا دماغی دباؤ اور نہیں سہہ سکتا تھا، مرزا صاحب۔ شراب پینے سے بھی تکلیف ہوتی تھی اور نہ پینے سے بھی۔ ڈاکٹر بتا چکا تھا کہ میرا جگر کام چھوڑنے والا ہے۔ میرا دماغ بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا تھا۔ میرے پاس سوائے خودکشی کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ پھر بھی میں نے کئی بار شراب ترک کی اور ہر بار پہلے سے زیادہ بیمار ہو اٹھا۔ ایک مرتبہ صفیہ نے پوچھا،‘ کیا آپ واقعی شراب چھوڑنا چاہتے ہیں، منٹو صاحب؟ ’

زندگی میں اس سے بڑی اور کوئی نجات نہ ہوگی، صفیہ۔
توپھرسنیے جومیں کہتی ہوں۔
کہو۔
آپ کو کچھ عرصہ علاج کی ضرورت ہے۔
کہاں؟

آپ کو پنجاب مینٹل ہسپتال کے ایک الکوحلک وارڈ میں داخل ہونا پڑے گا۔ وہ ضرور آپ کا علاج کردیں گے۔ آپ کو دوبارہ شراب پینے کی طلب نہیں ہوگی۔

تمھیں یقین ہے۔
وہاں بہت سے لوگ ٹھیک ہوئے ہیں، منٹو صاحب۔
ٹھیک ہے۔ میں وہاں داخل ہوجاتا ہوں۔ حامد کو بلاؤ۔
حامد آیا تو میں نے کہا، ’جتنی جلدی ہو سکے ہسپتال میں میرے داخلے کا انتظام کرو۔‘

حامد نے اگلے ہی روز سارے انتظامات کر لیے۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ لوگ مجھے ہسپتال لے کر جاتے مجھے بھاگنا پڑ گیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کی فیس بتیس روپے ہے۔ پیسے تو اکٹھے کرنے ہی تھے۔ میں نے کچھ ادبی رسائل سے ایڈوانس پکڑا، اس شرط پر کہ ہسپتال سے واپس آ کر انھیں افسانے بھیج دوں گا۔ اور بھی دو ایک لوگوں سے کچھ پیسے ادھار لیے اور گھر واپس آ گیا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ میں ہسپتال میں داخل ہونے کے خوف سے بھاگ گیا ہوں۔

لیکن میں سچ مچ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ ابتدائی چند دن اذیت ناک تھے۔ جسم کے اندر کوئی عفریت ہلچل مچائے رکھتا اور اپنی غذا مانگتا رہتا تھا۔ لیکن چھ ہفتوں بعد، وہ کوئی اور ہی منٹو تھا جو ہسپتال سے نکل کر آیا۔ یہ سچ ہے کہ میرا جسم غارت ہو چکا تھا، لیکن پھر بھی وہی پرانی والی چمک دکھائی دینے لگی تھی۔ یقین کیجیے، برادران، اس کے بعد پورے آٹھ مہینے تک میں نے شراب نہیں پی۔ اور افسانوں کے ایک سلسلے کے علاوہ میں نے اور بھی کئی طرح کی چیزیں لکھیں۔

ایک دن میں نے صفیہ سے کہا، ’میں اب ٹھیک ہو چکا ہوں، چلو اب پاکستان سے چلتے ہیں۔‘
کہاں جائیں گے۔ منٹو صاحب؟
بمبئی۔
آپ بمبئی کو بھول نہیں سکتے۔ ہے نا؟
بمبئی میری دوسری جائے پیدائش ہے، صفیہ۔
بمبئی میں آپ کو کام کون دے گا؟
میں عصمت کو خط لکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور بمبئی میں کچھ انتظام کردے گی۔
عصمت آپا نے تو پلٹ کر آپ کی خبر نہیں لی، منٹو صاحب۔
وہ اپنی دھن میں رہتی ہے۔ میرے بمبئی آنے کا سن کر وہ ضرور رابطہ کرے گی۔ تم تو چلنے کو تیار ہونا؟
جہاں آپ جائیں گے، میں بھی چلوں گی۔

میں نے فوراً عصمت کو خط لکھا۔ میں بمبئی لوٹنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے وہاں کچھ انتظام کرو، عصمت، تاکہ ہم سب واپس آ سکیں۔ میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔ اگر تم میر ے لیے کسی اسٹوڈیو میں کام تلاش کر لو تو ہم دوبارہ سے مل کر زندگی گزار سکتے ہیں، ہم سب۔

میں نے عصمت کو دوسری بار، پھر تیسری بار خط لکھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ تو کیا عصمت آخری وقت تک یہ سمجھتی رہی کہ میں ایک موقع پرست انسان تھا جو اپنے فائدے کے پیچھے پاکستان چلا گیا؟ یا وہ جان گئی تھی کہ شراب نے مجھے پوری طرح کھوکھلا کر دیا ہے اور یہ کہ میرے پاس اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن میں اس کے جوابی خط کا ہرروز انتظار کرتا رہا۔ میری شراب نوشی بھی اسی تناسب سے بڑھتی چلی گئی۔ نشے کی خماری میں میں اپنے افسانوں کے کرداروں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دن گزارا کرتا۔

ہاں، مرزا صاحب۔ میں مرتا جا رہا تھا۔ پورے ہوش و حواس میں تھوڑا تھوڑا روز مرتا جا رہا تھا۔ گلے میں رسی ڈال کر یا زہر کھا کر یا پھر کلائی کی نسیں کاٹ کر جان دینے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔ میں اپنے آپ سے، صفیہ سے اور اپنی تینوں بیٹیوں سے دیوانہ وار محبت کرتا تھا۔ اس لیے میں نے دھیرے دھیرے آنے والی موت کا انتخاب کر لیا۔ ایسے ملک میں رہنے کی میری کوئی خواہش نہیں تھی جس نے مجھے سوائے تہمتوں اور مذمتوں کے کچھ نہیں دیا تھا۔ اور میں جان چکا تھا کہ میں دن بہ دن اپنے خاندان کے لیے بوجھ بنتا جا رہا ہوں۔ اب نہ وہ مجھ سے نفرت کرتے تھے اور نہ مجھ پر ترس کھاتے تھے۔ اب تو وہ مجھے شاید انسان ہی نہیں سمجھتے تھے۔

ایک رات میں نے نیند کے عالم میں سنا کوئی مجھ سے سرگوشی میں کہہ رہا ہے، ’منٹو بھائی، منٹو بھائی۔‘

میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا عصمت میرے پاس بیٹھی برف کی قلفی دانتوں سے چبا رہی ہے اور مسکرا رہی ہے۔

عصمت بہن، تم کب آئیں؟
مدت ہوئی۔ کب سے آپ کو جگا رہی تھی۔
شاہد کہاں ہے؟ وہ نہیں آیا؟
آئے ہیں۔ جلدی سے تیار ہو جائیے۔
کس لیے؟
آپ بمبئی تشریف لے جا رہے ہیں۔
بمبئی! میں بستر سے اچھل پڑا۔ میری نوکری کا بندوبست کر دیا نا؟
بالکل۔

صفیہ۔ صفیہ۔ میں چلایا۔ جلدی آؤ، صفیہ۔ میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ عصمت میرے خطوں کو نظر انداز نہیں کرے گی۔

صفیہ آئی اور آ کر اس نے مجھے لپٹا لیا۔ کیا ہوا، منٹو صاحب؟ کیا کوئی برا خواب دیکھ لیا؟
عصمت کو کچھ ناشتا وغیرہ دو۔ شاہد کہاں ہے۔ بلاؤ اسے۔
کہاں ہیں عصمت آپا، منٹو صاحب؟
وہ رہی۔ یہیں تو تھی۔ کہاں گئی وہ؟ ضرور تمھارے کمرے میں چھپ گئی ہوگی، صفیہ۔

صفیہ نے کسی بچے کی طرح مجھے چھاتی سے لگا لیا۔ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس نے دوبارہ مجھے بستر پر لٹا دیا۔ سو جائیے، منٹو صاحب، سو جائیے۔ اس کی انگلیاں کسی پرکی مانند مجھے چھوتی رہیں۔

اگلی صبح میں جلدی جاگ گیا۔ مدت پہلے سنے ہوئے کسی پنجابی گیت کے بول کہیں سے تیرتے ہوئے آرہے تھے۔ میں نے دیکھا صفیہ میرے پیروں کے پاس سو رہی تھی۔ اس کا چہرہ یوں دمک رہا تھا جیسے آج صبح ہی اس کا جنم ہوا ہو۔ تقسیم نے اس پر اپنا سایہ نہیں ڈالا تھا، اس پر فسادات کے خونی چھینٹے بھی نہیں پڑے تھے۔ وہ کسی پہاڑی پینٹنگ کی کوئی غنودہ دوشیزہ معلوم ہو رہی تھی جس کے اردگرد ایک نئی دنیا جنم لے رہی تھی۔ آسمان، پانی، ہوا، بادل، اڑتے ہوئے سارسوں کا جھنڈ، ہرن اور ہرنیاں۔ میرے کمرے میں گویا جشن بپا تھا۔

اچانک میرے پیٹ میں مروڑ اٹھا اور مجھے بڑی سی الٹی آ گئی۔ غسل خانے کے بیسن میں نیلا اور زرد پانی پھیل گیا جس میں خون کی آمیزش تھی۔ اور اس کے بعد خون ہی خون آنے لگا۔ جب میں نے منھ دھو کر خود کو آئینے میں دیکھا تو میں چونک اٹھا، مرزا صاحب۔ یہ کون تھا؟ کیا یہ سعادت حسن منٹو تھا یا خود موت کھڑی تھی؟ میں نے اس کی پیٹھ تھپکی۔ ’اس بار تم جیت گئے، منٹو۔ بس کچھ دن اور یونہی دانت بھینچے انتظار کرتے رہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).