انکل وہاں اندھیرا ہے


بخدا یہ حسن اتفاق ہے کہ 16 اکتوبر 1951 کو سید اکبر راولپنڈی کے کمپنی باغ میں سٹیج کے سامنے عین ان کرسیوں پر جا بیٹھا جو پولیس کی سپیشل برانچ کے اہلکاروں کے لیے مختص تھیں۔

جب اس نے لیاقت علی خان کو دو گولیاں مار دیں تو ایک جذباتی سب انسپکٹر محمد شاہ نے سید اکبر کو گولیاں مار دیں۔ جو ہوا سامنے سامنے ہوا۔ اب اس کے پیچھے کوئی سازش ڈھونڈنا اور ڈانڈے ملانا دراصل بات کا بتنگڑ بنانا ہے۔

یہ بھی محض حسن اتفاق ہے کہ اسی باغ کے باہر 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے چند ہی گھنٹے بعد جائے واردات سٹی پولیس چیف سعود عزیز کے پریشر پر فائر بریگیڈ کے پریشر پائپوں سے دھو دی گئی۔ اس دھلائی کے سبب سازش سازش کا شور مچ گیا، لیکن سعود عزیز نے یہ حرکت چونکہ خود کی تھی لہٰذا ان کی پشیمانی قبول کرتے ہوئے انھیں ترقی دے دی گئی۔

رہی سہی افواہیں چار برس بعد اس وقت دم توڑ گئیں جب بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ بیت اللہ محسود نامی اصل قاتل ڈرون حملے میں مارا گیا اور باقی پانچ اڈیالہ جیل میں ہیں۔

اب آپ کہیں گے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کہاں گئی؟ آج تک مقدمہ کیوں چل رہا ہے اور پرویز مشرف کو عدالت کیوں روبرو دیکھنے پر بضد ہے؟ ایسے سوالات کبھی ملک و قوم کے لیے مفید نہیں ہو سکتے۔

بابائے ایٹم بم ڈاکٹر قدیر نے اپنے منھ سے کہا کہ انھوں نے جوہری سمگلنگ تن تنہا کی اور اس بارے میں اعترافی بیان چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے کہنے پر دیا۔ نیز شمالی کوریا اور ایران کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی بے نظیر بھٹو کے کہنے پر فراہم کی۔

مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر بے نظیر اتنی ہی طاقتور تھیں تو وہ کہوٹہ میں جھانکنے کی حسرت لیے کیوں رخصت ہو گئیں؟ پھر بھی تھینک یو ڈاکٹر صاحب۔ آپ نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔

16 مارچ 2011 کو ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو مقامیوں کو قتل کیا۔ اوپر سے نیچے تک انصاف کی دہائی پڑ گئی۔ بڑی مشکل سے مقتولین کے ورثا 20 کروڑ روپے خوں بہا پر مانے۔ جیل میں سماعت کے دوران 18 ورثا نے پیش ہو کر معافی کی ذاتی تصدیق کی۔ یوں ریمنڈ ڈیوس آزاد ہو گیا۔

اتفاقاً اسی وقت کسی ادارے کے کوئی اعلیٰ صاحب بھی عدالت میں انصاف ہوتا دیکھ رہے تھے۔ شکر ہے ان کی موجودگی میں معاملہ بخیر و خوبی سلٹ گیا اور ملک کی عزت رہ گئی۔ کوئی اور سوال؟

دو مئی 2011 کو اسامہ بن لادن کی لاش امریکی ساتھ لے گئے۔ اس کے بعد سب سے اہم بات یہ تھی کہ کن وطن دشمنوں نے ان کا ساتھ دیا۔ جلد ہی شناخت ہو گئی۔ ایک تو شکیل آفریدی تھا جس نے جعلی ویکسینیشن مہم چلائی۔ دوسرا ارشد خان تھا جس نے خاموشی سے اتنا بڑا گھر بنایا اور اس میں اسامہ اور ان کے خاندان کو کئی برس رکھا بھی۔

تیسرا شکیل رفیق تھا جس نے اس گھر کے تعمیراتی کام میں بطور جونئیر ٹھیکیدار حصہ لیا۔ چوتھا سادہ پولیس اہلکار یاسر خان تھا جسے حساس اداروں نے چند گھنٹے بعد ہی تحویل میں ایسا لیا کہ پھر نظر نہ آیا۔ پانچواں 84 سالہ زین بابا اور اس کا بیٹا شمریز خان ہے جو رات کو اس بھوت بنگلے کا چوکیدارہ کرتے تھے۔

چنانچہ نو ماہ بعد یہ بھوت بنگلہ بھی مٹا دیا گیا۔ آج پانچ برس بعد بھی زین بابا، شمریز خان اور ٹھیکیدار شکیل رفیق پر حساس اداروں کی کڑی نگاہ ہے اور شکیل آفریدی تو خیر ساری زندگی جیل میں ہی رہے گا؟ اور کوئی الجھن؟

22 مئی 2014 کو دارالحکومت اسلام آباد کے حساس ریڈ زون اور بیرونی علاقوں میں اچانک کئی بینر نمودار ہو گئے جن پر سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ کے بارے میں نازیبا الفاظ درج تھے۔ اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر اے آر وائی چینل پر جسٹس خواجہ کے خلاف مزید ہرزہ سرائی ہوئی۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تین رکنی بنچ قائم کیا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ اس کردار کشی کے ڈانڈے کہاں تک جاتے ہیں۔

آئی جی اسلام آباد طاہر عالم نے بنچ کے روبرو گواہی دی کہ ایک فری لانس صحافی محمد رشید یہ بینر لکھوانے اور ہائی سکیورٹی زون میں ٹنگوانے کا ذمہ دار ہے۔ رشید کے موبائل فون سے 28 نمبر برآمد ہوئے جن میں ایک حساس ادارے کے افسر کا بھی تھا۔ تاہم پولیس نے مزید احتیاطی چھان بین کے بعد دو پینٹروں، ایک ٹی وی اینکر اور چینل مالک سمیت 12 شہریوں کو اس کردار کش ڈرامے کا اول و آخر قرار دیا اور عدالت نے یہ رپورٹ قبول کرتے ہوئے معاملہ ڈیڑھ برس بعد خارج کر دیا۔ کوئی اور وسوسہ؟

ولی محمد عرف ملا اختر منصور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ اب یہ عقدہ بھی حل ہو گیا ہے۔

لیویز کے سابق رسالدار میجر عزیز احمد نے 2001 میں ولی محمد کے شناختی کارڈ فارم پر خدا ترسی کے جذبے میں دستخط کر دیے حالانکہ دونوں میں کوئی جان پہچان بھی نہیں تھی۔ ولی محمد کی دوسری بیوی اور بچوں کو پاکستانی شہریت دلانے میں ملوث نادرا کے اہل کار رفعت اقبال کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ولی محمد جیسے دیگران کو شہریت دلانے میں ملوث نادرا کے ایک جونئیر افسر سید افسر رضا کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کچھ اور نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں۔ بس اتنی سی بات تھی۔ مزید کسی پہ کوئی شک؟

ایک بچہ سٹریٹ لائٹ کے نیچے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ کسی بڑے نے پوچھا، ’بیٹا کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘ بچے نے کہا، ’انکل پچھلی گلی میں میری جیب سے نوٹ گر گیا، وہ ڈھونڈ رہا ہوں۔‘

بڑے نے کہا، ’برخوردار آپ کو چاہیے کہ جہاں نوٹ گرا تھا وہیں جا کے ڈھونڈیں۔‘ بچے نے کہا، ’انکل وہاں اندھیرا ہے۔‘
پہلی تاریخ اشاعت: 29 مئی 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).