ماہر نفسیات، بیٹی کا قتل اور خودکشی



ملتان میں باپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا بیٹی تین بچوں کی ماں تھی ماہر نفسیات نے بیٹی کو فائرنگ کر کے قتل کیا اور اس کے بعد خود کو بھی گولی مار لی یہ واقع انتہائی افسوس ناک ہے جس کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ ماہر نفسیات جن کا نام ڈاکٹر اظہر حسین ہے انہوں نے گھریلو تنازع پر بیٹی کو قتل کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے موقع پر پہنچ کر قانونی کارروائی شروع کردی ہے جبکہ باپ بیٹی کی مزید کارروائی کے لئے اسے ملتان کے مشہور نشتر اسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس افسوس ناک واقعے کے بعد سوچنے کی بات یہ ہے کہ ماہرین نفسیات کا کام تو لوگوں کی ان کی ذہنی پریشانیوں اور مشکلات سے نکالنا ہوتا ہے لیکن اگر کوئی ڈاکٹر خود ہی ان مسائل کا شکار ہو تو اس کی کونسلنگ کون کرے گا؟ ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات بہت تیزی کے سا تھ بڑ ہ رہے ہیں جن میں سرفہرست بیٹی سے گول روٹی نہ بننے پر اس کا قتل تو کبھی گھریلو تنازعات کی بنا پر قتل تو کبھی جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے زندگی میں ذہنی صحت کا ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے وقتاً فوقتاً انسان زندگی کی مشکلات اور معاملات کو حل کرتے کرتے مایوسی، اداسی، اور بیزاری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ معاملات جلد از جلد حل ہو جاتے ہیں جس سے انسان کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

کچھ وجوہات ایسی ہوتی ہیں جو کچھ عرصے موجود رہنے کے ساتھ ساتھ انسان کو زیادہ مایوس کر دیتا ہے مایوس کی جس کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں ہمارے ہاں نفسیات بڑھے پیمانے پر پڑھائی تو جاتی ہے لیکن اس کی کاونسلنگ کے لیے بہتر انتظام مہیا نہیں ہے اور اکثر لوگ کاونسلنگ کروانا اہم بھی نہیں سمجھتے اور جب ماہرین نفسیات خو د کو اتنا کمزور کر لیں گے تو پھر ایسے واقعات سرعام ہونے لگ جائیں گے اور پھر ان کی روک تھام مشکل ہو جائے گی دنیا جتنی تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہماری نسل اتنی ہی ڈپریشن سے متاثر ہو رہی ہے مختلف طرح کے تفرقات کی وجہ سے انسان ایک دوسرے سے دوری اختیار کرلیتا ہے جس وجہ سے انسان اپنی انا کی وجہ سے اندر ہی اندر مرتا رہتا ہے۔ زندگی ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا نام ہے اس لیے انسانیت کے ناتے اک دوسرے کے ساتھ دکھ درد باٹنے چاہیے اور ہر پریشانی کا حل زندگی سے بازی ہار جانا نہیں ہوتا ہر طرح کے تنازعات کو مل کر حل کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے افسوسناک واقعات پر افسوس کرنے کی بجائے ان کا حل ڈھونڈا جا سکے۔

لہذا ہمیں ذہنی تندرستی کی اہمیت کو جاننا چاہیے اور ڈپریشن جیسے سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کے روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیے ورنہ یہ ناسور خودکشی تک لے جاتا ہے اور یوں پورا خاندان اس کے نتائج بھگتتا ہے۔ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ عام طور پر بہت معمولی وجوہات کی وجہ سے شروع ہوتے ہیں مگر آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور نتجہ بھیانک ہوتا ہے ہمیں اپنے چاہنے والوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

جب کبھی کوئی اپنا ذرا سا بھی پریشان لگے تو اس سے بات چیت کر کے مسئلے کا پوچھنا چاہیے اور حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہیے۔ گھر میں ماں باپ، بہن بھائیوں اور باہر دوستوں کی خوشیوں کا سامان کرنا چاہیے اور دنیا میں خوشیاں پھیلانے کا سبب بننا چاہیے کیونکہ صرف اسی طریقے سے ہی اس موذی مرض سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ تو آئیے آج عہد کرتے ہیں کہ ہم آئندہ اپنے اردگرد نظر رکھیں گے اور ہر پریشان شخص کی پریشانی کم کرنے اور اسے ڈپریشن کی طرف جانے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).