وزیراعظم! آپ چوروں اور ڈاکوؤں کے بارے میں ’’سلیکٹڈ‘‘ ہیں


محترم وزیر اعظم خدارا یہ نہ کہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف جیسا طاقتور حکمران بھی ان ڈاکوؤں کا مقابلہ نہ کر سکا۔حضور طاقت کا نشہ انسان کو کرپٹ کر دیتا ہے اور وہ جتنا طاقتور ہوتا جاتا ہے اتنا کرپٹ ہو جاتا ہے۔ یہ صرف مالی کرپشن کا مسئلہ نہیں ہے، اخلاقی کرپشن کا بھی مسئلہ ہے جس کے مشیر شریف الدین پیرزادہ مرحوم جیسے مشیر رہے ہوں وہاں نہ آئین کا عمل دخل ہوتا ہے نہ میرٹ کا بس،’’نظریہ ضرورت، ہی چلتا ہے۔

آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ براڈ شیٹ کیسے کھلی اور کیسے بند ہوئی کیونکہ آپ نے 2002 میں مشرف کا ساتھ اس وقت چھوڑا جب انہوں نے آپ کے بجائے، چوہدریوں، پر ہاتھ رکھ دیا۔ آپ اس ملاقات سے مایوس لوٹے اور اس وقت کے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل معراج محمد خان مرحوم کے بقول آپ نے کہا کہ یہ بھی ان جیسا ہی ہے۔

میں اس بات کا پورا کریڈٹ عمران خان کو دیتا ہوں کہ اس نے سیاست میں کئی، یوٹرن لئے ہوں گے اور لئے ہیں، جس سے اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر 1995سے جب سے اس نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا تب سے اب تک اس نے کرپشن کیخلاف بھرپور مہم چلائی اور اس کو سیاست کا محور بنایا۔

ان 23 برسوں میں پی پی پی اور مسلم لیگ خاص طور پر زرداری اور شریف خاندان اس کا خاص ہدف رہے اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب پرویز مشرف نے 12اکتوبر، 1999میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور احتساب کا نعرہ لگایا تو عمران کو یہ لگا کہ اب ان دو جماعتوں کا صحیح معنوں میں ’’احتساب‘‘ ہو جائے گا۔

لہٰذا اس نے مشرف کی حمایت کا فیصلہ کیا حالانکہ اس حوالے سے پارٹی میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ ہم حمایت میں زیادہ آگے نہ جائیں کیونکہ بہرحال کسی آمر کی صرف اس بنا پر سپورٹ نہیں کی جا سکتی کہ وہ سیاست کو شفاف بنانے آیا ہے۔ قبضہ تو بہرحال قبضہ ہی ہوتا ہے۔

مشرف کے آنے پر خوش تو بےنظیر شہید بھی تھیں مگر ان کے خیر مقدمی بیان میں فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ عمران کچھ زیادہ آگے چلے گئے حالانکہ انہیں اس وقت اندازہ کر لینا چاہئے تھا کہ جب قومی احتساب بیورو ( نیب) کی تشکیل کے ایک سال بعد ہی اس کے پہلے چیئرمین جنرل امجد نے استعفیٰ دیا۔ اگر صرف یہیں پتا کر لیتے خان صاحب کہ امجد صاحب نے عہدہ کیوں چھوڑا تو شاید وہ بھی مشرف کا ساتھ چھوڑ دیتے۔

مگر موصوف نے تو 2001 کے ریفرنڈم میں بھی حمایت کر دی۔ اس وقت بھی آپ کو اندازہ نہیں ہوا کہ جنرل صاحب کے ارادے کیا ہیں۔ اس ملک میں احتساب بھی ہمیشہ نظریہ ضرورت، کے تحت ہوتا ہے۔

ورنہ بلا امتیاز احتساب ہوتا تو سیاست بھی شفاف ہوتی اور ریاست بھی۔ پاکستان میں سول سروس، کو سیاست زدہ کرنے کا آغاز اسکندر مرزا کے دور سے شروع ہو گیا تھا ورنہ 1949میں تو جو 24 افسران منتخب ہوئے۔

پاکستان سول سروس میں ان میں سے 12مغربی اور 12 مشرقی پاکستان سے تھے۔ 1958کے مارشل لا کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے سول سروس میں مداخلت کرنی شروع کردی۔

اگر ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے سول سروس، کو سیاست زدہ کر دیا تو جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں سیاست کو کرپٹ کر دیا اس زمانے میں افغان جنگ کے بعد اربوں ڈالر آئے اور اس روانی سے آئے کہ اس وقت کے صاحب اقتدار روپے کی شکل ہی بھول گئے تھے۔

محترم وزیر اعظم جب کرپشن کا صحیح تجزیہ کریں تو اس حقیقت سے آنکھیں نہ چرائیں کہ سیاست کو، سیاست دانوں کو اور مقدس اداروں تک میں کرپشن لانے والے، بھی یہی لوگ ہیں۔

NRO  لیا نہیں دیا گیا، 2000 میں بھی اور 2007 میں بھی صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے۔ آپ کو یاد ہے نا گجرات کے چوہدریوں کے بارے میں 2002 میں آپ کی کیا رائے تھی۔ تو حضور اس وقت بھی انہوں نے NRO لے لیا۔

زرداری صاحب سے بھی دوستی کر کے NRO لے لیا اور اب نیب نے ان کے سارے مقدمات بند کر کے NRO دے دیا ہے۔

اس ملک میں اگر شفاف احتساب ہو تو زرداری بچ پائیں گئے نہ شریف اور نہ ہی تحریک انصاف کے کئی لوگ اور اگر یہ بلا امتیاز ہو تو مقدس گائیں بھی خاصی بےنقاب ہو جائیں۔ مگر یہ سب اس لئے نہیں ہو پائے گا کہ یہ، مشترکہ مفادات کی بات ہے۔ اب دیکھیں حال ہی میں آپ نے سول سروس ریفارم کرنے کی بہت اچھی کوشش کی ہے۔

اس پر ڈاکٹر عشرت حسین سے گفتگو ہوئی۔ اس کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں مثلاً ایک گریڈ سے دوسرے میں جانے یا ترقی کا معیار صرف سنیارٹی پر نہیں ہوگا بلکہ کارکردگی پر۔ دوسرے جن افسران نے نیب سے پلی بارگین کی ہے اور اب بھی نوکری پر ہیں انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔

پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ نیب کے معاملے میں سول سروس ریفارم کمیٹی کیوں خاموش ہے۔ یہ واحد ادارہ ہے جہاں چیئرمین براہ راست گریڈ 21 میں بھرتی کر سکتا ہے۔

اُنہوں نے اتفاق کیا ’’تمہاری بات درست ہے مگر ہم نیب میں کچھ نہیں کر سکتے البتہ پارلیمنٹ ترمیم کر سکتی ہے‘‘۔ میں نے کہا آپ تحقیق کر لیں کیونکہ اس دور میں بھی ایسے لوگوں کو ترقی دی گئی ہے جن کے خلاف خود ان کے ادارے نے انسانی اسمگلنگ کی رپورٹ بنائی تھی، دلچسپ امر یہ کہ جس نے بنائی تھی اس کے ساتھ زیادتی ہو گئی۔

یہ ملک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ جب وزیراعظم یہ بات کرتے ہیں تو میرا ان سے مکمل اتفاق ہے۔ اختلاف ہے تو اس بات پر کہ آپ، چوروں اور ڈاکوؤں کے بارے میں ’’سلیکٹڈ‘‘ ہیں۔ ملک کو لوٹنے والے صرف دو خاندان ہی نہیں ان کو بنانے والے بھی ہیں۔ جب چاہیں کسی کو ڈاکو کہہ دیا اور جب چاہا نظریہ ضرورت کے تحت کلین کر دیا۔ سب کے لئے کوئی ایک ادارہ قائم کیوں نہیں ہو سکتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).