میں تمثال ہوں: ایک بری عورت کی کتھا؟


چند ہفتوں سے اس کتاب ”میں تمثال ہوں“ کے بارے میں سن اور پڑھ رہی تھی کہ کوئی ایسی نئی قسم کی تحریر سامنے آئی ہے جس نے دنیائے ادب میں ہلچل مچا کے رکھ دی ہے۔ باوقار اور قابل ماہر تعلیم عارفہ شہزاد کی اس کتاب کو پڑھنے کے بعد لوگ چونک چونک کر پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں پدر سری سماج کی پروردہ ایک عورت نے اتنی جرات اور بے باکی سے احوال دوستاں اور محبتاں لکھ ڈالا اور اس کے قدم ذرا بھی نہ ڈگمگائے۔

عارفہ شہزاد نے ایک بے کل عورت کے اندرونی خلفشار، اس کی طلب، خواہش، خواب، جستجو اور پے در پے رومانی تجربوں کو اپنی کتاب میں بلا خوف و خطر بیان کر کے اسے ناول کا نام دیا ہے جبکہ میرے خیال میں یہ ناول کی بجائے ایک ڈائری کہلائی جائے تو زیادہ موزوں ہو گا۔

سچ کہوں تو کتاب پڑھ کر مجھے کوئی خاص دھچکا نہیں لگا۔ کیونکہ اس قسم کے نسوانی کرداروں سے مغربی ادب بھرا پڑا ہے۔ البتہ میں تمثال کے بارے میں برتی گئی ایمانداری اور سچائی سے مرعوب ضرور ہوئی ہوں۔

ہمارے موجودہ ادبی منظر نامے میں خواتین کے کردار عموماً اس کے الٹ ہوتے ہیں۔ ہماری پاپولر ادبی ہیروئن سو فی صد نیک پروین ہوتی ہے۔ وہ بعد از نماز تہجد اپنے کسی بھی قسم کی نفسانی خواہش سے پاک محبوب کے پاکیزہ ان باکس میسج دیکھ کر اس کو دعائیں بھیجتی ہے اور پھر اپنے اہل خانہ کے جاگنے تک مصلے پر بیٹھ کر وظائف پڑھتی رہتی ہے۔

ویسے تمثال بی بی بھی سر پر دوپٹہ اوڑھتی اور نماز پڑھتی ہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑتی تو پھر اس کے اندر نہ جانے کہاں سے نفسانی خواہشات کے بارود سے بنی بائبل کی کہانیوں والی ”للیت (lilith)“ آن بسیرا کر لیتی ہے۔ شاید ہم سارے انسان ہی خواہشوں کے آگے کھڑے سر جھکائے غلاموں کی مانند ہوتے ہیں۔ خواہشیں پوری ہوں نہ ہوں یہ ضروری تو نہیں۔

تمثال نے جو بھی رومانی تجربہ کیا، اسے زندگی کی ضرورت اور نارمل تقاضا سمجھ کر کیا اور اس سے لطف اٹھانا بھی نہ بھولی۔ یہی اس کتاب کے پڑھنے والوں کے لیے اچنبھے کی بات ہے۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں نیا سے نیا رشتہ بنانا، توڑنا، اسے پھر سے جوڑنا اور ناکامی کے بعد ایک نئی کھوج میں نکل جانا اب کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ انٹرنیٹ نے جھوٹی سچی محبتوں و خفیہ تعلقات کے ایسے ایسے چور دروازے دکھا دیے ہیں کہ اب کسی کی کسی تک رسائی ناممکن نہیں رہی۔ عورتیں اور مرد اپنی جبلتوں کی رسیوں پر بے قابو بندروں کی طرح الانگتے پھلانگتے دور نکل جاتے ہیں اور کچھ ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔ کون سی محبت سچی اور قابل اعتماد ہے؟ اس کی تلاش پھر بھی جاری رہتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان پھر بھی آسودہ کیوں نہیں ہے؟ اسے چین کیوں نہیں پڑتا؟ محبت کی تلاش میں مرد عورت کیوں ہمہ وقت ایک جوار بھاٹا میں پھنسے رہتے ہیں؟ ان کے ہاتھ آیا ہر سیپ کیوں ریت کا ذرہ بن کر پھسل جاتا ہے؟ آخر اس سعی مسلسل کا انت کیا ہے؟

تمثال ایسی عورت ہے جو سیراب ہی نہیں ہوتی، نیا سے نیا ذائقہ چکھنے پر خود کو آمادہ کر لیتی ہے۔ محبت کے فریب میں خوشی سے بار بار اپنے بدن کا پردہ چاک کر کے باہر نکل آتی ہے اور اسے یہ سب کچھ نارمل لگتا ہے۔ ویسے تمثال جیسی عورت کو پتھر مارنے کا یہ موقع ہے بہت اچھا۔ اچھے بھلے شوہر، گھر، بچے، نوکری، پیسہ، شہرت، عزت، حسن، جوانی اور ٹیلنٹ کے ہوتے ہوئے بھی وہ ایک پھرکی کی مانند گھومتی رہتی ہے۔ رقص خواہش میں گھومتی تھکتی نہیں۔رومانی جنسی تجربے اسے شانت کر کے ہی نہیں دیتے۔ یہ کون سی ایسی پیاس ہے جو بجھائے نہیں بجھتی؟

مورکھ عورت شاید اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ بیڈ روم میں پہنچنے پر اکثر مرد ایک جیسے ہی نکلتے ہیں، انہیں بڑی جلدی ہوتی ہے۔ وہ ندیا سے گھونٹ گھونٹ پانی پینے کو وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔ سو کسی بھی مرد میں انوکھا اور نویکلا پن ڈھونڈنا بے سود ثابت ہو سکتا ہے۔ اکثر کو عورت کے تن من روح کو سلگتے ہوئے اضطراب سے نکالنے کا ہنر نہیں آتا۔ تو پھر تمثال جیسی طالب عورتیں بھی تجربے کرتی تھکتی نہیں۔

ویسے یہ سچی محبت آخر ہے کیا بلا؟ کس چڑیا کا نام ہے؟ ایک واہمہ؟ ایک غیر حقیقی تصور یا بس بدن کی بدن تک دوڑ اور تگ و دو؟ یا کچھ اور؟ بے معنی ملن کے بعد ہونے والی اکتاہٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تمثال نے جن حضرات کو چاہا ان میں سے اکثریت شادی شدہ تھے۔ چرائے ہوئے چند لمحے گزار لینے کے فوراً بعد وہ دیکھتی کہ وہ اس سے بے نیاز ہونے لگتے۔ انہیں اپنی پاک باز بیوی، پیارے بچے، عزت دار سیٹ گھرانا ایسے یاد آتا کہ وہ دولتی مار کے بستر سے اٹھ کھڑے ہوتے اور کسی لق و دق صحرا میں اکیلی رہ جاتی۔

مرد میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر محبت اور شادی کے تعلق کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں بانٹ کر کام چلا لیتا ہے جبکہ تمثال جیسی پریم دیوانیاں سر میں راکھ ڈال کھڑاویں پہن نگر نگر گھومنے نکل پڑتی ہیں۔ اس کے بعد پھر وہی ان باکس کے محفوظ اور مخفی گوشے۔ وڈیو چیٹ کے ذریعے نقلی لذتوں کا حصول، لک چھپ کا دلچسپ کھیل۔ اگلے پڑاؤ کے امکانات کا لالچ۔ اور پھر آج کی لو سٹوریاں بس یوں ہی چلتی ہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ مرد عورت کے نظریہ محبت میں فرق بہت ہوتا ہے۔ موقع ملے تو مرد کے جذبات سائیکل کی گھنٹی سنتے ہی پیڈل مارنے کو تیار ہو جاتے ہیں جبکہ عورت جذبات کے جنگل میں ستار لے کر بیٹھ جاتی ہے کہ کوئی آئے اور اس کے سچے سر چھیڑے۔ یا اس سے محبت کا اصلی راگ سننے کی آس میں اس کے پہلو میں بیٹھ جائے۔ مگر آج کل ان سب باتوں کے لیے وقت کس کے پاس ہے؟ وقت بدل گیا ہے، عورت سائیکل سے اتر کر خود جہاز اڑانے لگ گی ہے۔ اس کے جذبات کے گھوڑے بھی بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ شاعر خالد خواجہ کا ایک شعر ہے :

میں نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا وفاداری کا
تو بدل سکتا ہے تو پھر میں بھی بدل سکتا ہوں

تمثال ایک ایسی گناہ گار عورت ہے جو ایک شور مچاتی، منہ زور آبشار کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر بندھی ٹائٹ رسی پر آنکھوں پر پٹی باندھے چل رہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک آہنی ڈنڈا بھی ہے مگر وہ یہ جاننا نہیں چاہتی کہ اس کی منزل کہاں ہے؟ وہ خود کہاں ہے؟ کیا کر رہی ہے؟ کیوں کر رہی ہے؟ اسے انکار اور تردید کی دنیا میں رہنا پسند ہے۔ وہ ہر رومانی جنسی تجربے کو محبت کی معراج سمجھ لیتی ہے مگر اسے ہر بار دکھ اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اے محبت تیرے انجام پہ رونا کیوں آتا ہے؟

”میں تمثال ہوں“ پڑھتے ہوئے مجھے حضرت جوش ملیح آبادی اور ان کی کتاب ”یادوں کی بارات“ بھی یاد آئی جس میں انہوں نے اپنے کم از کم سولہ معاشقوں کے ذکر سے اپنی کتاب کا بڑے ذوق و شوق سے سولہ سنگھار کیا تھا۔ ان کے والد محترم بھی ہر رات ایک نئی عورت کو بغل اور بستر میں داب لیتے تھے۔ یاد رہے کہ اس مردانگی پر دنیائے ادب نے ان پر ہمیشہ تعریف کے ڈونگرے برسائے اور بڑی فراخدلی سے یہ کہہ کر تھپکی دی کہ آخر مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ دیکھ لو بھائی مرد لوگو! اب خواتین بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتیں۔ ملا قوی جیسا ٹکسال بند ٹھرکی ڈٹ کے کہہ رہا ہے کہ عورتیں اس کا قرب پسند کرتی ہیں تو بھئی ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟

تمثال میں کہیں کہیں مجھے سارہ شگفتہ کی بھی جھلک نظر آئی جو محبت کے نام پر ہی بار بار جنسی رشتے بناتی اور پھر ان سے آگے گزر جایا کرتی تھی۔ وہ بھی ایک متلاشی، سرگرداں اور بھٹکی ہوئی روح تھی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا مرد عورت کے درمیان کشش، تناؤ، حصول اور سود و زیاں کا یہ کھیل قدرت کا سب سے بڑا ڈرامہ نہیں ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مرد عورت کی طلب آسودگی، ضروریات، احساسات اور تکمیل ذات کے درجات میں بہت فرق ہوتا ہے۔

مرد ایک مائیکرو ویو اوون کی طرح جلد تپ کے جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس کی نسبت عورت مٹی کی کچی کوری ہانڈی کی مانند دھیمی دھیمی آنچ پر پک کر تیار ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے مرد عورت کا یدھ ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ انسان مورکھ کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ عشق کی سرحد کہاں ختم اور جنس کی کہاں سے شروع ہو جاتی ہے؟ نہ جانے عشق اور ہوس میں کوئی فرق ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ یہ دونوں آپس میں اتنے گندھے ہوئے ہیں کہ انسان یقین اور مغالطے کے بیچ میں ہی ہچکولے کھاتا رہتا ہے اور عشق محبت جنس کے حیرت کدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے اس کا جیون بیت جاتا ہے۔

عارفہ شہزاد کی بیان کردہ ایک بری عورت کی کتھا نے بہت سے ذہنوں کو کچھ نیا سو چنے پر مجبور کر دیا ہے اور یہی اس کتاب کی کامیابی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).