برطانیہ میں کورونا وائرس سے ایک لاکھ اموات: ’میں جراثیم سے پاک اس سفید کمرے کو کوستا ہوں‘


Ann Fitzgerald
تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں اب تک کووڈ۔19 کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہم میں سے اکثر کے لیے ایک لاکھ اموات کے متعلق سوچنا ہی ایک مشکل کام ہے۔ لیکن یہ سب جیتے جاگتے انسان تھے، جنھوں نے اپنے منفرد طریقوں سے زندگی جی اور پیار کیا۔ یہ ان میں سے ایک کی کہانی ہے۔

صبح 3:01 بجے، ہسپتال کے ایک کمرے میں اکیلی، این فٹزگرالڈ اپنے فون کی طرف بڑھیں۔

یہ ان کا اپنے شوہر سے رابطے کا آخری موقع تھا جن کے ساتھ وہ گذشتہ چار دہائیوں سے رہ رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ دو بچوں کی پرورش کی تھی، این کے لیے وہ ہمیشہ سے ان کے ’ٹونی‘ تھے۔

دونوں نے ایک وعدہ کیا تھا۔ جب تک کہ این کووڈ کے ساتھ ہسپتال میں رہیں گی، ٹونی پیوفال، مرسی سائیڈ میں واقع اپنے بنگلے میں ایک کرسی پر بیٹھ کر ہی راتیں گذاریں گے۔ یہ اس لیے کہ اگر کوئی فوری پیغام آیا تو انھیں جاگنے میں آسانی ہو گی۔

یہ بھی پڑھے

کووڈ: ہمیں کتنا فکر مند ہونا چاہیئے؟

برطانیہ میں کووڈ 19 سے ہلاکتیں ایک لاکھ سے زیادہ

’موڈرنا ویکسین کورونا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف کام کرتی ہے‘

ٹونی نے سوچا کہ یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے اور وہ بھی اس عورت کے لیے جسے وہ 47 سال سے پیار کرتے آئے ہیں اور جو اس وقت اکیلی اور خوفزدہ ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی فون کی گھنٹی بجی ٹونی کو پتہ چل جائے گا کہ وہ زندہ ہیں، اور وہ خاموشی سے ستاروں کا شکریہ ادا کریں گے۔

منگل سات اپریل کی صبح این کا آخری پیغام آیا۔

انھوں نے ہمت کر کے بستر پر لیٹے آکسیجن ماسک پہنے ہوئے اپنی الوداعی سیلفی لی۔ ٹونی کہتے ہیں کہ ’اس نے سوچا ہو گا کہ یہ لو کوئی چیز تاکہ تم مجھے نہ بھولو۔‘

ڈھائی گھنٹے کے بعد این انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر 65 سال تھی۔ وہ ایک ماں، ہمسائی، ساتھی، دوست اور ان 999 لوگوں میں شامل ایک عورت تھیں جن کا اُس روز کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ میں انتقال ہوا تھا۔

Ann and Tony Fitzgerald

ہسپتال سے این کی موت کی خبر سننے کے فوراً بعد وہ اپنی بیوی کے بستر کے ساتھ کھڑے تھے۔

انھوں نے سر سے لے کر پاؤں تک حفاظتی لباس پہن رکھا تھا۔ جب این زندہ تھیں تو کسی ملاقاتی کو وہاں آنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب ان کی موت کے بعد لگتا تھا کہ وپاں کھڑے ہونا ٹھیک ہے۔ اس بات کی وجہ ٹونی کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔

ٹونی نے روتے ہوئے اپنی مری ہوئی بیوی سے معافی مانگی کہ وہ اس طرح انھیں جانے دے رہے ہیں، جب ان کا کوئی بھی پیارا ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ مڑے اور ہسپتال کی جراثیم سے پاک چھت اور دیواروں کو برا بھلا کہا، کیوں کہ این کے آخری وقت میں وہ ان کے ساتھ تھیں جبکہ ٹونی خود نہیں تھے۔

اس وقت شاید بہت کم ہی لوگ ایسا سوچ سکتے ہوں کہ برطانیہ میں اموات کی تعداد ایک لاکھ یا اس کے نزدیک تک پہنچ جائے گی۔

اس وقت تک یہ تعداد 10،000 پر پہنچ چکی تھی۔ تین ہفتے قبل برطانیہ حکومت کے چیف سائنٹیفک ایڈوائزر سر پیٹرک ویلنس نے کہا تھا کہ حتمی اعداد و شمار کو اس سے دوگنے تک محدود کرنا ایک ’اچھا نتیجہ‘ ہوگا۔

اب، دس ماہ بعد، برطانیہ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے 28 دن کے اندر ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد میں دس گنا اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ 2020 میں برطانیہ میں ہونے والی اضافی اموات دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک اعلیٰ ترین سطح پر تھیں۔

دنیا بھر میں ریکارڈ کی جانے والی کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ شرح برطانیہ میں رہی ہے۔

کسی طرح بھی دیکھیں، ایک لاکھ ایک تباہ کن تعداد ہے، جو تقریباً دو پریمیئر لیگ فٹ بال میدانوں کے برابر، یا ہر سال ریڈنگ فیسٹیول میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد کے برابر ہے۔ بہت سے افراد کے لیے اعداد و شمار کے ذریعے نقصان کے حقیقی پیمانے کو سمجھنا ناممکن ہو گا۔

کیمبرج یونیورسٹی کے شماریات کے ماہر سر ڈیوڈ سپیگل ہالٹ کے مطابق ’اگر میں یہ کہوں کہ برطانیہ میں دو ماہ کے عرصے میں ہونے والی ایک لاکھ اموات ایک معمول کی بات ہے تو یہ زیادہ اچھا نہیں لگے گا۔ ‘

کیمبرج یونیورسٹی کے شماریات کے ماہر سر ڈیوڈ سپیگل ہالٹر کہتے ہیں کہ بہت سے صفروں والے نمبروں کو سمجھنا بہت ہی مشکل کام ہے، اور یہ بہت بڑے یا چھوٹے لگ سکتے ہیں۔

’اگر میں کہوں کہ ایک لاکھ اموات دو ماہ کی معمول کی شرح اموات کے برابر ہیں تو یہ شاید اتنا برا نہ لگے۔ لیکن اگر میں کہوں کہ یہ دوسری جنگِ عظیم میں ہونے والی تمام (برطانوی) شہری ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے، یا پھر اس طرح کہ گویا ڈرہم شہر کے برابر کے کسی شہر میں ہر کوئی مارا جائے، تو یہ بہت برا لگے گا۔ انفرادی المیوں کی اتنی بڑی تعداد کو مناسب طریقے سے سمجھانا ایک مشکل کام ہے۔‘

لیکن چاہے بہت سے لوگ موت کے روز مرہ کے اعدادوشمار سن سن کر تھک چکے ہوں پھر بھی ہر نمبر کے پیچھے ایک حقیقی زندگی ہوتی ہے جو ضائع ہو گئی۔ این جیسی ایک حقیقی زندگی۔ برطانوی اکیڈمی کے چیف ایگزیکیٹیو اور رائل سٹیٹسٹیکل سوسائٹی کے سابق ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر ہیتن شاہ کا کہنا ہے کہ ’اسی لیے یہ صوابدیدی عددی سنگ میل اہم ہے۔‘

’یہ موقع ہے کہ اس وبائی بیماری کے متعلق، جس نے بہت سارے برطانوی خاندانوں کو بہت خوفناک نقصان پہنچایا ہے، ایک بار پھر غور و فکر کیا جائے۔‘

سنہ 1973 میں مانچسٹر کے ایک نائٹ کلب میں 18 سالہ ٹونی کے بازو پر کسی نے ہلکا سا ہاتھ مارا۔

وہ این تھیں، ان سے ایک سال سینیئر، جنھیں وہ شہر کے مرکز میں میں واقع ایک پب کی بار میڈ کے طور پر جانتے تھے۔ اپنی زیتون جیسی جلد اور دلکش خد و خال انھیں ہمیشہ دوسروں سے ممتاز کرتا تھا، لیکن ٹونی کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ کسی رومانوی تعلق میں دلچسپی رکھتی ہوں گی۔

این نے ٹونی سے کہا کہ ’میں یہاں ایک شخص کے ساتھ آئی ہوں، لیکن مجھے وہ پسند نہیں ہے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔‘

ٹونی این کی ڈیٹ کی جانب بڑے اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سے چلے جائیں۔

اس کے بعد ٹونی این کے پاس آئے اور انھوں نے اکٹھے شراب پی اور اس کے بعد ایک اور۔۔۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ ایک جوڑا بن گئے تھے اور ٹونی کو لگا کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہیں۔

جلد ہی انھیں این کے متعلق بھی پتہ چلا۔

جب این دو سال کی تھیں تو ان کے لیتھوینیا میں پیدا ہونے والے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ کیونکہ ان کی والدہ انھیں پال نہیں سکتی تھیں اس لیے این نے اپنا بچپن مختلف رشتہ داروں کے ساتھ رہ کر گزارہ تھا۔

16 سال کی عمر میں وہ ایک بیڈسٹ میں رہنے لگیں اور اپنا خرچہ ویٹرس بن کے اور بار میں کام کر کے پورا کرنے لگیں۔

ٹونی کہتے ہیں کہ اپنی تربیت کی وجہ سے وہ بہت زیادہ آزاد تھیں۔ وہ لوگوں کے ساتھ بات کرنے میں بہت اچھی تھیں، اور وہ تیز تھیں۔ سب سے زیادہ تیز اور مزاحیہ جس سے میں آج تک ملا ہوں۔‘

Ann and Tony Fitzgerald

انھوں نے فیلو فیلڈ میں مل کر ایک گھر کرائے پر لے لیا، اس کے بعد این کو مانچسٹر کے بارز میں ریلیف ورک کی پیشکش ہوئی، ٹونی نے بھی سیلز کے نمائندے کے طور پر اپنی نوکری چھوڑ دی اور ان کا ساتھ دینے لگے۔

سنہ 1981 میں انھوں نے اپنا پب کھول لیا جو اس وقت سیلفرڈ کا مشکل علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن این جانتی تھیں کہ مقامی غنڈوں سے کیسے نمٹا جائے۔ ٹونی کہتے ہیں ’وہ آپ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھتی تھی کہ آپ کو پتہ چل جاتا تھا کہ آپ نے اپنا رویہ کیسے رکھنا ہے۔‘

اس جوڑے کو سیلمور میں ایک اور پب کی پیشکش ہوئی دونوں کو لگا کہ ان کی شہرت بڑھ رہی ہے لیکن الٹا ہی ہو گیا۔ ٹونی ازراہِ مذاق کہا کرتے تھے کہ انھیں تمام کرسیاں اور میز ہٹا کر اس کی جگہ ایک باکسنگ رنگ لگا دینا چاہیے۔

لیکن این کسی سے ڈرتی نہیں تھیں۔

ٹونی کا کہنا ہے کہ جب مقامی غنڈے آ کر مفت شراب طلب کرتے تو این ان کے سامنے ڈٹ جاتی تھیں اور کہتی تھیں ’میرے شوہر کا نام دروازے پر کندہ ہے لیکن وہ بھی یہاں شراب کے پیسے ادا کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کو بھی پیسے دینے ہوں گے۔‘ عنڈوں کو متاثر ہو کر ایک جام خریدنا پڑتا۔

ایک رات جب ان کی شیر خوار بیٹی سو رہی تھی اور گھر میں ڈاکو گھس آئے اس وقت این اور ٹونی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کام کو ترک کر دیں گے۔

ٹونی پھر سے سیلزمین بن گئے اور عین مختلف ملازمتیں کرنے لگیں، جن میں قرض فراہم کروانے والے کونسلر اور ایک کاٹن کی کمپنی میں سیلز ٹرینر کی ملازمت شامل تھی۔ ٹونی کے بقول ان کے بچوں گرے اور ریچل نے کبھی انھیں جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔

چھ برس تک دونوں نے ایک بازار میں خواتین کے کپڑوں کی دکان بھی چلائی۔

ٹونی کہتے ہیں کہ لوگ وہاں کپڑے خریدنے نہیں آتے بلکہ این کو دیکھنے آتے تھے اور کبھی کبھار انھیں کچھ ایسا بھی خریدنا پڑتا جو خریدنے نہیں آئے تھے اور ہر بار ایسا ہی ہوتا اور این ٹونی کی طرف دیکھ کر شرارت سے آنکھ دبا دیتیں۔

سنہ 2020 کے آغاز تک این اور ٹونی ایک طویل ریٹائرمنٹ کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان کے دونوں بچے ان سے الگ ہوچکے تھے اور یہ دونوں ایک بڑے بنگلے میں منتقل ہو گئے تھے۔

خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ چین میں ایک جان لیوا وبا پھوٹ پڑی ہے لیکن این گھر سے نہیں نکل رہی تھی کیونکہ وہ ایک بڑے آپریشن کے بعد صحت یاب ہو رہی تھی، لیکن مارچ کی ایک جمعرات وہ بال کٹوانے گئیں، انھوں نے اپنے بالوں کا رنگ گہرا کروایا اور جب ٹونی نے انھیں دیکھا تو انھیں بتایا کہ وہ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

این نے انھیں بتایا کہ ان کی ہیر ڈریسر کھانس رہی تھیں، تین دن بعد این کو بھی کھانسی لگ گئی اور جلد ہی ٹونی کو بھی۔۔۔ لیکن بخار کی وجہ سے این کی طبیعت اگلے چند روز میں بہت زیادہ بگڑ گئی اور وہ وہ کھڑا بھی نہیں ہو سکتی تھیں۔

انھوں نے ٹونی سے کہا کہ وہ 999 پر کال کریں کریں۔

طبی کارکن انھیں ایمبولینس تک لے کر آئے۔ ٹونی کو آج بھی سخت تکلیف ہوتی ہے کہ وہ انھیں الوداع کہتے ہوئے گلے لگا سکے اور نہ چوم سکے۔ ’ہم دونوں میں سے کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ آخری دن ہوگا جب میں اسے زندہ دیکھ رہا ہوں گا۔‘

این کا خیال تھا کہ وہ شاید نہیں کوئی ’اینٹی بائیوٹک‘ دیں گے اور وہ چند گھنٹے بعد انھیں لینے آ سکیں گے۔

لیکن اس دن این کا کا فون آیا اور انھوں نے ٹونی کو بتایا کہ ڈاکٹروں کو شک ہے کہ انھیں کووڈ ہو گیا ہے، اس لیے وہ انھیں وہیں رکھیں گے جیسے کہ پہلے لہر کے دوران کسی کو متاثرہ افراد سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔

Ann Fitzgerald

ٹونی بھی این سے صرف فون پر رابطے میں تھے، جب ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ اگلے 24 گھنٹے نازک ہیں تو انھوں نے یہ بات این کو نہیں بتائی۔ ٹونی جانتے تھے کہ وہ پہلے سے ہی خوفزدہ ہیں لیکن انھوں نے ایک اور بات این کو ضرور بتائی کہ ان کے حوصلہ مند رویے اور بیماری سے لڑنے کے جذبے کی وجہ سے طبی عملہ ان سے بہت متاثر ہے۔

ٹونی نے این کو بتایا کہ ان کے خیال میں شاید وہ بہت جلد گھر آجائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس سے یہ کہنا پڑا تا کہ وہ بیماری سے لڑتی رہے اور وہ دس دن تک ایسا کرتی رہی۔‘

ان کے درمیان آخری بار بات چیت چار اپریل کو ہوئی۔

این نے ٹونی کو بتایا کہ ان کے خیال میں ان کی طبیعت بہتر ہورہی ہے، انھوں نے سینڈوچ کھایا اور تھوڑا دہی بھی۔ اس کے بعد ان سے بات کرنا مشکل ہوگیا ،وہ انتہائی نگہداشت میں تھیں انھیں سانس لینے میں مدد کرنے والا ماسک ان کی گفتگو کی راہ میں حائل ہو رہا تھا۔

اس آخری گفتگو کے تین دن بعد ٹونی ہسپتال کے کمرے میں این کی میت کے ساتھ بیٹھے تھے۔

وہ وہاں ایک گھنٹے تک بیٹھے رہے، انھوں نے نہ صرف ان سے معافی مانگی بلکہ وعدہ کیا کہ وہ یقینی بنائیں گے کہ انھیں یاد رکھا جائے۔ ہسپتال کی راہداری میں چلتے ہوئے ٹونی سوچ رہے تھے ہے کہ وہ گرے اور ریچل کو ان کی ماں کی موت کے بارے میں کیسے بتائیں گے۔

ان کے کمرے میں این کی آٹھ تصاویر ہیں ہر ایک میں وہ خوش دکھائی دے رہی ہیں۔

ٹونی کہتے ہیں ’ہر بار جب میں اردگرد دیکھتا ہوں ہو تو این کی تصویریں نظر آتی ہیں جن میں وہ مسکرا رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کاش میں وقت کو پلٹ سکتا لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا، نہ ہی بہت سے دوسرے خاندان ایسا کر سکتے ہیں۔‘

این کی موت کے دس ماہ بعد ٹونی کو محسوس ہو رہا ہے کہ انھیں اس گھر سے وحشت ہوتی ہے جہاں وہ اکیلے رہ گئے ہیں کیونکہ اگر وہ یہاں نہ آئے ہوتے تو این ہیئر ڈریسر کے پاس نہ جاتی ہیں اور نہ انھیں وائرس لگتا اور شاید وہ زندہ ہوتیں۔

انھیں ایسا لگتا ہے ہے کہ وہ مزید بیس سال تک اکٹھے رہ سکتے تھے جو ان سے چھین لیے گئے ہیں اور یقیناً ایسے ہزاروں گھرانے ایسا ہی سوچتے ہوں گے۔ اس وبا کا عمر رسیدہ افراد پر اثر اب سب کو معلوم ہے، برطانیہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا پندرہ فیصد افراد ایسے تھے جن کی عمریں 65 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔

ٹونی کی شدت سے خواہش ہے کہ ان کی زندگی پہلے کی طرح ہو جائے لیکن وہ جانتے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔

ٹونی کو این کی تدفین بھی عجلت میں کرنا پڑی کیونکہ انھیں بتایا گیا تھا کہ کسی بھی وقت مزید پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں اس لیے انھوں نے پہلی میسر تاریخ میں ان کی آخری رسومات ادا کردیں۔ اس وقت کے ضابطے کے مطابق صرف دس افراد اس تقریب میں شرکت کر سکتے تھے اور تصاویر یا پھول لانے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی ایک دوسرے کو گلے لگا سکتا تھا۔

ٹونی جانتے ہیں کہ یہ سب ضروری تھا لیکن ان کے خیال میں این کی روشن، ملنسار اور محبت بھری زندگی کا جو حق تھا وہ وہ ادا نہیں ہوا اس لیے انھوں نے وبا کے خاتمے پر ان کے لیے ایک اور تقریب رکھنے کا منصوبہ بنایا۔

Ann and Tony Fitzgerald

اگلے چند ماہ میں ٹونی کووڈ سپورٹ کے آن لائن گروپس میں شامل ہوئے جو ایسے لوگوں کی مدد کے لیے تھے جنھوں نے کسی اپنے کو کھو دینے کا درد جھیلا تھا۔

ان میں ایک 19 سالہ لڑکے کا خاندان تھا، ایک عورت تھی جو اپنے ماں اور باپ دونوں کا سوگ منا رہی تھی، ایک دوسری عورت کا شوہر اس وقت اس کی گاڑی میں مر گیا جب وہ اسے ہسپتال لے جا رہی تھی۔

ٹونی جب بھی ٹی وی پر کووڈ سے ہونے والی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھتے ہیں تو انھیں یہ سب کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ ان اعداد و شمار میں مرنے والی افراد کے ہر عدد کے پیچھے کہانیاں چھپی ہیں،جن میں سے ہر ایک منفرد ہے، جیسے کہ این کی کہانی، جس میں شخصیت ہے۔

6 اکتوبر کو این اور ٹونی کی شادی کی اکتالیسویں سالگرہ تھی، جس کے ایک دن بعد این کی موت کو پورے چھ ماہ ہو گئے۔

اس کے چند روز بعد ہی برطانیہ میں کووڈ سے ہونے والی ہلاکتیں پچاس ہزار تک پہنچ گئیں۔ ٹونی کو ایک بار پھر این کی غیر موجودگی اس وقت بری طرح محسوس ہوئی جب این کی سالگرہ تھی۔ ٹونی کہتے ہیں کہ کرسمس میرے لیے ایک برے خواب کی طرح تھی۔

تہوار کے لیے خصوصی ضابطوں کے مطابق گرے اور ریچل اور ان کے ساتھی ٹونی کے پاس آئے۔

کھانا پکانے میں وہ دن بھر مصروف رہے لیکن دن کے خاتمے پر جب وہ تنہا بیٹھے تھے تو انھیں احساس ہوا کہ ایک اور جشن این کے بغیر ختم ہوگیا۔۔۔ ٹونی سسکیاں لینے لگے۔

لاکھوں لوگوں کے لیے کووڈ کی ویکسین ایک امید لائی ہے لیکن جنھوں نے اپنوں کو کھو دیا ان کے لیے یہ محض دکھاوے کی تسلی ہے۔ ماہرعمرانیات پروفیسر ٹام شیکسپیئر کہتے ہیں ’اگر ان ایک لاکھ مر جانے والے افراد کے درجن بھر بھی چاہنے والے ہیں تو دس لاکھ برطانوی افراد بنتے ہیں جو سوگوار ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے لیے ایک قومی یادگار بنانی چاہیے۔‘

ٹونی ایسے افراد میں شامل ہے جن کے لیے اس ویکسین کے اہم سنگ میل کی اہمیت سمجھنا مشکل نہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میرے لیے یہ ایک لاکھ مرجانے والی جانیں ہیں، جو سانس لینے کے لیے لڑتی رہی رہیں اور انھیں ان کے خاندان میں گلے لگانے والا کوئی نہیں تھا، ہر عدد کے پیچھے ایک نام ہے ایک شخصیت ہے اور پھر وہ سب گزر گئے ان کا خاندان ان کرب سے گزرا اور میں بھی اس سے گزرا، سُن کر دینے والی کیفیت، اک صدمہ اور درد جو میں نے جھیلا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp