تحریک عدم اعتماد: ایک جوا


آج کل تحریک عدم اعتماد کا بہت شور ہے۔ جب سے بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم کے الیکشن کمیشن کے باہر مظاہرے کے بعد یہ بات کی تو قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ تحریک عدم اعتماد کا ذکر جو بلاول بھٹو زرداری نے کیا ہے، اس کے پیچھے شاید پاکستان کی اسٹبلیشمنٹ ہے کیونکہ آصف علی زرداری کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ مفاہمت کے بادشاہ ہیں اور ان کے پس پردہ روابط ہیں اور شاید اسٹبلیشمنٹ نے اپنا وزن پی ڈی ایم کی جھولی میں ڈال دیا ہے مگر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا پاکستان میں تحریک عدم اعتماد سے کبھی حکومت گرائی گئی ہے؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔

اب ہم پہلی ناکام تحریک عدم اعتماد کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ 1989 کی بات ہے۔ 1988 میں عام انتخابات میں بھرپور کوشش کے باوجود آئی جے آئی قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں لے سکی اور بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور کافی مذاکرات کے بعد اور سمجھوتا کر کے بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن پائیں تھیں مگر پھر بھی اس وقت کی مقتدرہ کو بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں حکومت ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی تھی۔

اس حکومت کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کے آپشن کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت میاں نواز شریف مقتدرحلقوں کی آنکھ کا تارا ہوتے تھے اور وہ بھی بالکل وہی طرز عمل اختیار کیے ہوئے تھے جو آج کل عمران خان کا ہے۔ تب ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل تھے۔ اس وقت کی اپوزیشن وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دیتی ہے۔ اس وقت آئی ایس آئی بھی اس تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔

یہ ہارس ٹریڈینگ اور چھانگا مانگا والی سیاست وہیں سے تو شروع ہوئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد پر جب ووٹنگ کا مرحلہ آیا تو آئی ایس آئی اور اسٹبلیشمنٹ کی بھرپور کوشش اور حمایت کے باوجود تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت چلتی رہتی ہے مگر کیونکہ اس حکومت کو ہٹانا اس وقت بقا کا مسئلہ تھا تو پھر آئین کی کتاب کو ٹٹولا گیا تو اس میں سے اس وقت کی مقتدرہ کی نظر سے آئین کا آرٹیکل 58۔ 2 بی گزرا۔ کیونکہ صدر غلام اسحاق خان ان ہی کے بندے تھے، تو اسٹبلیشمنٹ کی منشا اور حکم پر 6 اگست 1990 کو بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ جی اپوزیشن کے نمبر کم تھے مگر وہ بھی ایک اتحادی حکومت تھی۔ پوری قوت لگا کر بھی، رابطے جوڑ توڑ کر کے بھی عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ہٹائی نہیں جا سکی تھی۔

اب ہم دوسری ناکام تحریک عدم اعتماد کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ مشہور زمانہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن نے یکم اگست 2019 کو پیش کی تھی۔ 26 جون 2019 کو اپوزیشن جماعتوں نے اے پی سی کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ ہم سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئیں گے اور اپنا امیدوار چیئرمین بنوائیں گے کیونکہ ہم اکثریت میں ہیں۔

تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے وقت ٹی وی کیمرہ پر 64 اراکین ہاتھ کھڑے کر کے تحریک کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں مگر جب خفیہ رائے شماری ہوتی ہے تو ووٹ نکلے 50۔ چلیں 5 ووٹ مسترد بھی کر دیں پھر بھی 9 ارکان نے فلور کراسنگ کر کے سنجرانی کو چیئرمین رہنے دیا۔ اس طرح یہ دوسری تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہو جاتی ہے۔

یہ پی ڈی ایم اگر تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ بہت بڑا جوا ہے جو پی ڈی ایم کھیلے گی۔  1989 والی مثال کو ذہن میں رکھ کر میری رائے ہے کہ تحریک عدم اعتماد شاید کامیاب نہ ہو مگر یہ پاکستان ہے، یہاں ہر چیز ممکن ہو جاتی ہے۔ اگر 2018 میں 52 سینیٹرز کی حمایت ہونے کے باوجود راجہ ظفر الحق چیئرمین نہیں بنتے اور صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ بن سکتے ہیں تو یہاں کیا نہیں ہو سکتا۔

یہ بہت بڑا سوال ہے پی ڈی ایم کے لیے اور خاص طور پر آصف علی زرداری کے لیے کیونکہ 2018 میں ان سے کیا وعدے کیے گئے اور کیا کیا یقین دہانیاں نہیں کروائی گئیں۔ انہوں نے بلوچستان حکومت گرانے میں ساتھ دیا۔ مشن سنجرانی کامیاب بنوایا مگر پھر 2018 کے عام انتخابات میں کیا ہوا تھا؟ ہاتھ ہوا نا؟ اس کے بعد بھی شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ نہیں دیا۔ صدارتی الیکشن میں اعتزاز احسن کو امیدوار کھڑا کر کے عارف علوی کو صدر بنوانے کا ایک راستہ دیا مگر پھر بھی نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ تھا کہ انہیں اور ان کی ہمشیرہ کو جیل جانا پڑا۔ زرداری صاحب نمبر تو لا دیتے ہیں اور پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس جو  4 فروری کو ہونا ہے، اس میں اگر سارے اس آپشن کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر بھی اس بار بھی تو خفیہ رائے شماری ہی ہو گی۔ اگر اس دفعہ بھی وہی ہوتا ہے جو سنجرانی کی دفعہ تحریک عدم اعتماد کے دوران ہوا تھا، یوں سوائے خفت کے اور کچھ پی ڈی ایم کے ہاتھ نہیں آئے گا۔

اور جہاں تک میرا ذہن کہتا ہے تحریک عدم اعتماد پر اسٹبلیشمنٹ کا پی ڈی ایم کو حمایت کا یقین دلانے کا پیغام صرف ایک لارا ہے۔ اصل مقصد سینییٹ الیکشن کروا کر سینیٹ میں اکثریت حاصل کر کے آئین کو چھیڑنے کا ہے اور اس مقصد کے لئے اپوزیشن کو مینیج کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب ہر کام ان کی مرضی سے ہو رہا ہے تو وہ بھلا یہ سیٹ اپ کیوں تبدیل کرنا چاہیں گے؟ جب بندہ اتنی تابعداری اور فرمانبرداری سے ہر حکم بجا لاتا ہے، جب ہر محکمے میں الحمدللہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر لگ رہے ہیں تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک بے ضرر مسند نشین کو ہٹائیں؟

اس لئے پی ڈی ایم والوں کو سوچنا ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی حرکات سے اب لوگ پی ڈی ایم سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ کیونکہ اب عوام اور خاص کر وسطی پنجاب کے عوام کو آپ اینٹی اسٹبلیشمنٹ کر دیں اور آپ فرانس کی طرز پر ایک انقلاب لا کر حقیقی جمہوریت کے اصولوں پر نظام تشکیل کرنے کی باتیں کریں جو مداخلت سے پاک ہو اور پھر آپ پس پردہ ان سے بات بھی کریں تو لوگ بھی اب سمجھ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم جمہوری اقدار کے لئے نہیں اس نظام میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہے، مقصد عمران خان کو ہٹا کر اس کی جگہ بیٹھنا ہے اور وہی کرنا ہے جو وہ کر رہا ہے۔ اب عوام شاید یہ بات قبول نہ کریں۔

اب 4 فروری کا انتظار ہے کہ کیا پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کی اس تجویز کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔ تحریک عدم اعتماد بہت بڑا جوا ہے جو پی ڈی ایم کھیلنے لگی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پی ڈی ایم اسٹلیشمنٹ پر اعتماد کر کے تحریک عدم اعتماد کامیاب بناتی ہے یا اسٹبلیشمنٹ عدم اعتماد ناکام کر کے دوبارہ پی ڈی ایم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).