براڈ شیٹ اسکینڈل کا معما


براڈ شیٹ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، الیکٹرانک میڈیا اس معمہ کو شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ’براڈ شیٹ اسکینڈل‘ کا ڈھول پیٹتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اصل میں ہے کس بیماری کا نام؟ اس نے کب کس کی گود میں جنم لیا، کس نے اسے پال پوس کر 2021ء تک پہنچایا، کس کس کو اس نے فیض پہنچایا، کس کس کا قلع قمہ کرنے کے لیے اس کو استعمال کیا گیا، ملک کا کتنا سرمایہ اس سفید ہاتھی کی نذر کر دیا گیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ اور اس قسم کے اور سوالات ہر ذی شعور پاکستانی کو سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ گتھی ہے کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی اور شاید حل بھی نہ ہو۔ پی ڈی ایم (حزب اختلاف) حکومت پر اور حکومت پیپلز پارٹی، نون لیگ اور مولانا پر اس سے فیض حاصل کرنے کی دن رات کوششیں کر رہے ہیں۔ عمران خان نے اس کا ایک ایسا حل نکالا کہ جس سے اس سفید ہاتھی کو وقتی طور پر پنچرے میں بند کر دیا جائے۔ اس کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی پوری تیاری کر لی گئی ہے، کمیشن کے سربراہ پر پی ڈی ایم خاص طور پر نون لیگ کے سخت اعتراضات ہیں، یعنی انہیں جسٹس عظمت سعید اس کام کے لیے پسند نہیں، حقیقت میں دیکھا جائے تو کمیشن کی تشکیل حکومت کا قانونی حق ہے، وہ حزب اختلاف سے مشورہ کرلیتی ہے، درست ورنہ، حکومت بااختیار ہے۔

ایک رکنی کمیشن تشکیل پانے جا رہا ہے بلکہ پاچکا ہے۔ جو اس معمہ کی گتھی کو سلجھانے کی، حقیقت سامنے لانے کی، کس کس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، پاکستانی قوم کی کثیر رقم کس طرح پاکستان دشمنوں کو کس نے دی اس کا تعین بھی یہ کمیشن کرے گا۔ حکومتی بیان کے مطابق یہ کمیشن نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز اور آصف علی زرداری کے سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس کے معاملے کی تحقیقات بھی کرے گا۔ حالانکہ ماضی میں سپریم کورٹ ان مقدمات کے فیصلے دے چکی ہے۔ سیاست بڑی ظالم شے ہے۔ اس میں کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل دوست ہوسکتے ہیں اور یہ بھی کہ اس میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ یوٹرن ہر سیاست داں پیدا ہونے کے ساتھ ہی اپنی گھٹی میں پی کر آتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کمیشن کے حوالے سے کوئی اچھی نہیں رہی، کمیشن کا مطلب مخالفین کو کٹہرے میں لانا، بات کو آگے بڑھا دینا، وقتی طور پر طوفان کو ٹال دینے کی تاریخ رہی ہے۔ کئی کمیشن تو ایسے بھی بنے جن کی رپورٹ ہی منظر عام پر نہیں آئیں، بعض کمیشن ایسے تھے کہ جس کی رپورٹ اعلیٰ عدالتوں کے کہنے پر سامنے لائی گئیں۔ بعض کمیشنوں کی رپورٹیں بیک ڈور سے عوام کے سامنے آئیں۔

براڈ شیٹ فراڈ کے ذریعہ پیسے کمانے والی ایک کمپنی کا نام ہے۔ اس کا موجودہ مالک یا دعویدار ایک ایرانی انٹیلی جنس افسر جو اپنا نام کاوے موسوی بتا تا ہے، ان دنوں ہر ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتا اور اپنا حق کلیم کرتا دکھائی بھی دے رہا ہے۔ دراصل یہ اس کا اصل مالک نہیں بلکہ اس کمپنی میں سے کسی عہدہ پر کام کیا کرتا تھا۔ جیسے جیسے حالات، واقعات آگے بڑھتے رہے اس کمپنی کا اصل مالک سین سے غائب ہوا، کہا جا رہا ہے اس کمپنی کا اصل مالک خود کشی کرچکا ہے اور یہ کہ اس نے کئی منزلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔ جو لوگ حرام، ناجائزکھاتے ہیں وہ اسی قسم کے حادثات سے دوچار ہوتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف 1999 ء میں اقتدار میں آتے ہیں، نواز شریف جیل سے سعودی عرب کی راہ لیتے ہیں۔ پرویز مشرف کو اپنے اقتدار سے بے نظیر اور نواز شریف دونوں سے خطرہ تھا۔ بد قسمتی سے 72 سالوں میں ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کو چھوڑ کر جتنے بھی حکمراں ملے، اقتدار میں آنے سے پہلے ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں یعنی ملک و قو م کی بھلائی اور خیر خواہی، اقتدار مل جانے کے بعد ان کی ترجیحات صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا اور اسے طول دینا ٹھہرجاتا ہے۔

ہر حکمراں کا احتساب کر لیں، یہی صورت حال ملتی ہے۔ پرویز مشرف صاحب نے بہت اچھے کام کیے لیکن انہیں بھی اس بات کا خوف کھائے جا رہا تھا کہ ان کے اقتدارکے کون کون دشمن ہوسکتے ہیں۔ ان کے نام اوپر لکھے گئے ہیں۔ اب انہوں نے یہ سوچایا یا کسی ان کے مشیر، خیر خواہ نے سجا یا کہ ملک میں ان لوگوں کا احتساب کیا جائے جو ملک سے باہر پاکستان کا پیسہ لے کر گئے، اس حوالے سے 200 افراد کی ایک فہرست مرتب کی گئی، ظاہر ہے اس میں بے نظیر اور نواز شریف کا نام تو ہونا ہی تھا، اب یہ احتساب کیسے ہو؟

احتساب بیورو کا چیرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کو بنایا گیا۔ امریکہ کے جیری جیمز اورڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر نے جو پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے مل کر ایک آف شور کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی کے نام سے بنائی، جنرل مشرف کے دور میں اس کمپنی سے معاہدہ ہوا، طے پایا کہ یہ کمپنی ان لوگوں کی نشان دہی کرے گی جو پاکستانی قوم کی دولت لے کر باہر گئے اور وہاں جائیدادیں بنائیں۔ اس کا کام صرف نشان دہی کرنا ہوگا، کہ دیکھو وہ رہا پاکستان کا پیسہ یا جائیداد جو پاکستان کے پیسے سے بنائی گی۔

اس پیسے کا یا اس جائیداد کی کل مالیت کو بیس فیصد رقم حکومت پاکستان کو براڈ شیٹ کو ادا کرنا ہوگی، وہ رقم یا جائیداد کو فروخت کر کے اس کی رقم پاکستان واپس آئے یا نہیں اس بات سے براڈ شیٹ کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ پاکستان کتنے بھولے بادشاہ تھے کہ انہوں ان شرائط پر معاہدہ کیا۔ لوٹی کوئی رقم واپس پاکستان میں آ جائے اس پر تو اس کمپنی کو بیس فیصد دینے میں کچھ منطق دکھائی دیتی ہے لیکن صرف انگلی سے اشارہ کر دینا کہ دیکھو وہ رہا سرے محل، وہ رہا ایون فیلڈ پارٹمنٹ، اب تم جانو، ان کی مالیت اتنے کروڑ بنتی ہے ہمیں ہمارا حصہ دیدو، تم جانو تمہارا کام۔ یہی کچھ اس معاملے میں ہوا۔ معاہدہ ٹوٹا بھی، عدالت بھی گیا، فیصلہ پاکستان کے خلاف آیا۔ کروڑوں تو اس عدالتی کارروائی میں لگ گئے، حاصل کیا ہوا۔ کچھ نہیں، قوم کا کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہائے رے حکمرانو، دنیا میں تو شاید تم بچ جاو لیکن اللہ تم سے ضرور حساب کتاب لے گا۔

ایف بی آر نے قومی خزانے کو 69 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یہ رقم بغیر ٹیکس کاٹے براڈ شیٹ کو ادا کی گئی۔ اتنا بڑا نقصان قوم کو اٹھانا پڑا، آخر اس کا ذمہ دار بھی کوئی تو ہوگا۔ اس کی نشان دہی ضروری ہے۔ عمران خان سے قبل بھی براڈ شیٹ کو رقم ادا کی گئی وہ کتنی تھی، کس کو دی، کیوں دی۔ کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دنوں موجودہ حکومت نے بھی اس کمپنی کے کسی نمائندے کو طے شدہ معاہدے کے مطابق رقم ادا کی، یہ بھی سن گن ہے کہ وہ شخص اصل کمپنی کا مالک یا اس کا حصہ دار ہی نہیں بلکہ وہ جعلی شخص ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اگر یہ رقم ادا نہ کی جاتی تو عدالتی فیصلے کے مطابق روز کی بنیاد پر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا، اس لیے حکومت نے مزید نقصان سے پچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ سچ کیا ہے، چھوٹ کیا ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ تحقیق ایسی شفاف ہو کہ ہر فریق اسے تسلیم کرے، لیکن ہماری یہ روایت بھی نہیں۔ اب کمیشن کا اعلان کیا جا چکا ہے، اس کے TORs بھی سامنے آچکے ہیں، جسٹس صاحب تجربہ کار وکیل اور ایماندار جسٹس کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی کی گئی تحقیق سے براڈ شیٹ کا معاملہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی سامنے آ جائے گا۔ اس وقت تک کے لیے حکومت اور پی ڈی ایم کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دونوں فریق، تمام ادارے کمیشن سے تعاون کریں تاکہ کمیشن اپنے اہداف احسن طریقے سے حاصل کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).