کوئلہ کان کن پہاڑوں سے خوف کھانے لگے


کوہ چلتن پر سیاہ بادلوں کی چادر تنی تھی  جس سے سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کوئٹہ میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے یعنی منفی سات تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس سخت سردی کی باوجود کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر ہزارہ برادری کئی دنوں سے دھرنا دیے بیٹھی تھی۔ دھرنے میں زندہ انسانوں کے ہجوم میں سات مزدوروں کے سربریدہ جسد بھی سفید کفنوں میں لپٹے رکھے ہوئے تھے۔ جو بے حس انسانوں اور حکمرانوں سے انصاف کی توقع کر رہے تھے۔ دھرنے میں بیٹھی معصوم ریحانہ جس کی آنکھوں میں بے بسی کے باعث اشک خشک ہو چکے تھے۔

وہ اپنے والد کی تصویر ہاتھ میں لیے بار بار اس کو دیکھ رہی تھی اور پھر اس کو اپنی دوپٹے کے پلو سے صاف کر کے چوم رہی تھی۔ ان کی خشک گول مٹول اور اندر دھنسی ہوئی آنکھوں میں ایک ماتم بپا تھا۔ اس کے خواب ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔ اس سے اس کی محبت اور سایہ چھن گیا ہے ۔ اس کے ابو کریم بخش کا خواب تھا کہ وہ ریحانہ کو ڈاکٹر بنتا دیکھے۔ وہ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے مچھ میں کئی ہزار فٹ گہری کان سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کوئلہ نکالتا تھا۔ ریحانہ کی طرح لاکھوں مزدوروں کی بیٹیوں کے والد اور بھائی بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں موت کی سائے میں کام کر رہے ہیں۔

مچھ واقعے کے تقریباً پچیس دن کے بعد اپنے صحافی دوستوں کے ساتھ کوئٹہ سے مچھ پہنچا تاکہ کان کنوں کی حالت زار جان سکوں۔ ہم دوپہر کو کوئٹہ سے ستر کلومیٹر فاصلہ طے کر کے مچھ پہنچ گئے تھے۔ اس وقت کان کن اپنے کام میں مصروف تھے۔ اور کچھ کانیں ہمیں بند ملیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس جگہ ہم کھڑے اس سے دس منٹ کے مسافت پر گیشتری کے مقام پر پیش آنے والے واقعے کے بعد بلوچستان کے سات اضلاع کی کوئلہ کانوں میں سے بیشتر مزدوروں کے چلے جانے کے باعث بند ہو گئیں ہیں۔

رحمت اللہ خان کا تعلق شانگلہ خیبر پختونخوا سے ہے ، وہ کئی مہینوں سے مچھ میں کوئلہ کان میں مزدوری کر رہا ہے۔ وہ گھر کا واحد کفیل ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک آلہ تھا اور ماتھے پر لائٹ لگی ہوئی تھی۔ اس کے گورے چٹے چہرے پر کوئلے کا سیاہ رنگ لگا ہوا تھا۔ اس کے چہرے سے خوف اور تکلیف عیاں تھی۔

میرے پوچھنے پر اس نے اپنی تکالیف کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ”پہلے صبح جب ہم کان میں اترتے تھے تو اس سے پہلے میں آیت الکرسی پڑھ لیتا تھا۔ کیونکہ کانوں کی حالات یہاں بہت خراب ہیں لیکن مچھ واقعے کے بعد میں کان سے نکلتے ہوئے بھی آیت الکرسی پڑھتا ہوں۔ مجھے ڈر لگا رہتا ہے کہ جن پہاڑوں کے آغوش کو چھیر کر ہم کوئلہ نکالتے ہیں۔ ان پہاڑوں کی چوٹیوں سے کوئی اور اتر کر کہیں میرا گلہ ہی نہ کاٹ دے۔“

رحمت اللہ خان درد کے سمندر میں کود پڑا۔ درد کی لہریں اس کی آنکھوں کے نیلے سمندر کے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس کی زندگی کے دکھ درد پر ایک الگ کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنا درد ایک تسلسل کے ساتھ بیان کر رہا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا ”صاحب! میں کیا کروں ، اپنوں کو بھوکے مرتے دیکھوں یا خود روز مر کر ان کی زندگی کی ضروریات پوری کروں۔ ماں روز فون کر کے کہتی ہے بیٹا! بس تو آ جا ،ہمیں پیسے نہیں اپنا بیٹا چاہیے۔ ہم بھوکے رہ لیں گے لیکن تمہارے بنا ہم رہ نہ پائیں گے۔ تمہارے ابو کے ناتواں کاندھے تمہارے جنازے کا وزن اٹھا نہیں پائیں گے۔

صاحب! ماں تو ماں ہے ناں۔  اس کو ہر قسم کی تسلی دی لیکن پھر بھی اسے تسلی نہیں ملتی ، روز فون کرتی ہے۔ لیکن مجھے تو اپنے گھر کے معاشی حالات کا پتا ہے۔ انہی مزدوری کے پیسوں سے تو ہمارا گھر چلتا ہے۔ یہاں خطرے کے باوجود گھر نہیں جا سکتا ، بس صاحب اس کو ہماری قسمت سمجھٰیں ”

رحمت اللہ خان کے برعکس مچھ واقعے کے بعد بہت سے کان کنوں نے کام چھوڑ دیا جس کی وجہ سے بلوچستان میں بہت سی کانیں بند ہو گئیں۔ اس واقعے کے بعد پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مطابق پانچ سو کے قریب کانیں بند ہوئی ہیں۔ اور دس ہزار کے قریب مزدوروں نے کام چھوڑا ہے۔ مارواڑ میں واقعے کوئلے کی کانیں مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مطابق تمام بڑی کمپنیوں نے اپنا کام بند کیا ہوا ہے اور مزدورں میں بھی خوف کی فضا قائم ہے۔

یاد رہے بلوچستان کے سات اضلاع میں پاکستان ورکرز فیڈریشن کے اندازے کے مطابق ساڑھے تین ہزار سے زائد کوئلہ کانیں موجود ہیں۔ ان کے مطابق دو لاکھ کے قریب مزدور ان کوئلہ کانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان مزدوروں کا تعلق شانگلہ، سوات، دیر، قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ اور افغانستان سے ہے۔

بلوچستان کے سورینج،  مارواڑ، شاہرگ، ہرنائی، کھوسٹ، سنجدی، مچھ، چمالنگ، ڈیگاری، پیراسماعیل اور دیگر علاقوں سے کوئلہ نکلتا ہے۔

یاد رہے دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ سالانہ بلوچستان میں سالانہ دو سو کے قریب مزدور کوئلہ کانوں میں ناقص انتظامات کی وجہ سے حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کم از کم تین سو کے لگ بھگ مزدور زخمی ہو جاتے ہیں۔ اکثر چھوٹے واقعات کو کانوں کے مالکان چھپاتے ہیں تاکہ انہیں مزدور کے اہلخانہ کو فوتگی کی رقم ادا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے سالانہ ریکارڈ واقعات میں فوتگی کی تعداد کم ہوتی ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

بلوچستان میں کوئلہ کانوں کے لیے جو مائنز ایکٹ 1923 نافذ ہے ، اس کی عمر سو سال تک پہنچ چکی ہے۔ بلوچستان کی کانوں میں مسلسل ہلاکتوں کے باوجود کوی نئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).