ایک بے یقین آدمی سے مکالمہ


انسانی سوچ میں اتار چڑھاؤ ایک معمول کی بات ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ میں پختگی آنا شروع ہو جاتی ہے اور طبعیت میں ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر تک انسانی سوچ پختگی کے نقطہ عروج پہ پہنچ جاتی ہے اور زندگی کی مبہم تصویر بالکل واضح ہو جاتی ہے، اسی واضح تصویر کی بنیاد پر آپ کی اگلی زندگی کا مائنڈ سیٹ تشکیل پا جاتا ہے۔ چالیس کے پیٹے میں بہت کم لوگوں کے خیالات تبدیل ہوتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چالیس کی عمر کے بعد ہی انسان کوئی فائنل نقطہ نظر بنانے کے قابل ہوتا ہے، اس سے پہلے تو انسانی دماغ مختلف تجربات کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ انسانی سوچ میں تغیر و تبدل وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے اور اسی وجہ سے انسانی سوچ کے مختلف دھارے جنم لیتے ہیں، جنہیں مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جانا گیا۔ ان میں کچھ روایتی لوگ ہوتے ہیں جو روایتی ان باکس سے مطمئن ہوتے ہیں اور اپنی زندگی اسی محدود دائرے میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ کچھ غیر روایتی لوگ ہوتے ہیں جو آؤٹ آف دی باکس جا کر نت نئے راستے کھوجتے ہیں اور خود کو روایتی کوٹھری میں قید نہیں کرتے اور کچھ روایتی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی روایتی جڑوں پر قائم رہتے ہوئے اپنی روایتی تعلیمات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔

انگریزی میں اس رویے کو  skeptic یعن تشکیکی رویہ کہا جاتا ہے۔ یہ رویہ ایسے لوگوں میں پیدا ہوتا ہے جو خود کو ایک بلبلے میں قید کرنا نہیں چاہتے اور رونما ہونے والی تبدیلیوں کے لیے اپنا دامن وسیع رکھتے ہیں۔ یہ شک کے بیج ہی تن آور درخت بنتے ہیں اور انسانی سوچ میں نکھراؤ پیدا کرتے ہیں اور اسے کھوجنے پر اکسائے رکھتے ہیں کیونکہ سیکھنے کے سفر میں اطمینان نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جیسا کرشنا مورتی نے کہا تھا کہ Truth is pathless یعنی سچ کے راستے میں کوئی پڑاؤ نہیں ہوتا۔

میں آج آپ کی ملاقات ایک ایسے دوست سے کروانا چاہوں گا جس کو جاننے کا نشہ لگ گیا، جو روایتی ہوتے ہوئے بھی ایک غیر روایتی انسان ہے۔ یقین اور بے یقین کے درمیان اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے سچ کی تلاش میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہے۔ میں اس کے ساتھ مکالمے کی کچھ اہم باتیں شیئر کرنا چاہوں گا اور میرا اس کی باتوں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ میرے اس دوست کا نام شیخ احمد (فرضی نام ) ہے۔

سوال: شیخ احمد اپنی گھریلو زندگی کے بارے میں بتائیں؟

جواب: میری ابتدائی زندگی بہت غربت میں گزری اور ہم بہن بھائیوں کو والدہ نے پالا کیونکہ والد صاحب بیمار رہتے تھے اور اکثر گھر سے باہر رہتے تھے جب کبھی گھر آتے تو میری والدہ کو بہت پیٹتے تھے۔ بنیادی وجہ مجھے تو غربت لگتی تھی لیکن جب شعوری آنکھ کھلی تو اور تھوڑا بہت پڑھا اور جانا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ ”شیزو فرینیا“ کے مریض تھے اور اسی بیماری میں چل بسے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم آج بھی ایام جہالت میں ہیں اور ذہنی بیماریوں کے علاج کے لیے بجائے سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے کے عامل اور پیر بابا کے پاس جاتے ہیں اور تعویز گنڈوں سے اس بیماری کا علاج کرواتے ہیں نہ جانے کتنے لوگ سڑک پر خوار ہو کر مر جاتے ہیں۔

سوال : سنا ہے کہ آپ کو مطالعہ کا بہت شوق ہے، اپنے سچ کو پانے کے لیے آپ نے کن راستوں کو چنا؟

جواب: میں چونکہ مسلم بیک گراؤنڈ سے ہوں اور اسی وجہ سے میں نے مذہبی لٹریچر خوب پڑھا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف مذہبی شخصیات سے متاثر ہوا جن میں مولانا مودودی، غلام احمد پرویز، جاوید احمد غامدی اور مولانا عبدالوہاب (تبلیغی جماعت والے) شامل ہیں لیکن میرے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ جوں جوں میں ان مذہبی شخصیات کو پڑھتا اور سنتا گیا مزید تضادات خیال بڑھتے گئے۔ مجھے یہ جان کر بڑی حیرانی ہوئی تھی کہ ایک ہی خدا اور رسول کو ماننے والے اپنے خیالات میں بالکل بھی متفق نہ تھے، اپنی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے میں نے تبلیغی جماعت میں چلہ بھی لگایا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔

سوال: تبلیغی جماعت میں وقت لگایا تو کیا سیکھا؟

جواب: ایک اچھی اور بے ضرر سی جماعت ہے جس کی اپنی حدود و قیود ہیں اور وہ اس سے باہر نہیں جاتے۔ میرا وقت بھی وہاں بہت اچھا گزرا لیکن میرے تجربے کے مطابق جماعت میں کچھ اصولوں کی تکرار چلتی رہتی ہے اور آپ کی سوچ اسی محدود دائرے میں گھومتی رہتی ہے کوئی نئی چیز سیکھنے کو نہیں ملتی۔ بعض دفعہ تو بوریت سی محسوس ہونے لگتی ہے ، مجھے تو چلہ کے دوران کچھ بھی نیا سیکھنے کو نہیں ملا ، اس کی بجائے ہم مختلف کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور اپنے تصور حیات میں معنویت پیدا کر سکتے ہیں۔

سوال: آج آپ اپنی شناخت کو کس سے جوڑتے ہیں؟ مسلمان یا دہریہ؟

جواب: میں الحمدللہ مسلمان ہوں مگر آپ مجھے skeptic theist کہہ سکتے ہیں یعنی مذہبی تعلیمات کو آنکھ بند کر کے تسلیم نہیں کرتا بلکہ تنقیدی مراحل سے گزار کر تسلیم کرتا ہوں ۔ اگر کوئی بات میرے من کو نہ بھائے تو میں تسلیم نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قدرت نے مجھے دماغ سوچنے کے لیے دیا ہے اور سوچ بچار انسان کو بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ میں نے اسلام کو جتنا سمجھا ہے وہ اپنے مطالعہ اور غور و فکر سے سمجھا ہے ، اس میں مولوی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے میں آزادی فکر کا قائل ہوں اور اپنی آزاد سوچ کو ہی فوقیت دیتا ہوں۔

سوال: آپ آج بھی خود کو مذہبی انسان سمجھتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔ میں مذہبی آدمی ہوں لیکن کٹھ ملائیت پریقین نہیں رکھتا، جو بات میرا ذہن تسلیم نہیں کرتا ، اسے منطقی سوچ پر ترک کر دیتا ہوں کیونکہ میں اپنے ضمیر کے سامنے سرخرو رہنا چاہتا ہوں۔ میرا کسی فرقہ سے کوئی تعلق نہیں اور فرقوں کو میں صرف پیٹ کا چکر سمجھتا ہوں۔

سوال: مجھے لگتا ہے کہ آپ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہیں؟ نہ ادھر اور ادھر؟

جواب: نہیں ایسی بات نہیں۔ صوفی، سادھو، اور سنت بھی تو ہیں جنہوں نے روایتی بنیادوں پر کھڑے ہو کر بھی روایات کو چیلنج کیا اور مذہب کے اندر رہتے ہوئے مختلف روایات کو چیلنج کرتے رہے۔ بلھے شاہ، سلطان باہو، اور غلام فرید جیسے صوفی روایات کو چیلنج کرنے والے لوگ تھے اور ان کے حلقہ اثر میں ہر فرقہ اور قوم کے لوگ شامل تھے، ان بزرگوں نے بغیر تفریق کے ہر مذہب کے ماننے والے لوگوں کو سینے سے لگایا اور انسانیت کو مذہب سے اوپر جانا۔ المیہ یہ ہے کہ ہم خود میں اتنا بٹ چکے ہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ حقیقی مسلمان کون ہے۔

سوال: آپ ہیومن ازم فلسفے کو کیا سمجھتے ہیں اور جو لوگ خدا کو نہیں مانتے (دہریت) ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: میں ایک غیر روایتی مسلمان ہونے کے ناتے سے ہیومن ازم اور ہیومنسٹ فلسفے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کیونکہ یہ انسانی فکر ہے اور انسانوں نے ہی اسے تشکیل دیا ہے اور میں انسانیت کو مذہب سے مقدم جانتا ہوں۔ دہریے تو ہمارے بہت بڑے محسن ہیں اور الحاد کی وجہ سے ہی ہمارے اندر تھوڑی بہت بیداری آئی ہے اور ہم  نے اپنے مذہب کو بغور طریقے سے پڑھنا شروع کر دیا ہے اور ان لوگوں نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر نگاہ ڈالیں ورنہ تو شاید ہم کبھی بیدار ہی نہ ہوتے۔ اب امتحان ہمارے علماء کرام کا ہے کہ وہ کیسے دفاع کرتے ہیں۔

سوال: آپ کا خدا کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جواب: اس معاملے میں مجھے کافی کنفیوژن ہے اور freewheeling skeptic ہونے کے ناتے سے سوچ بچار کرتا رہتا ہوں۔ اب تک میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا اور اس بارے میں خود کو اگناسٹک سمجھتا ہوں اور میں بے بس ہوں اس تصور کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ میرا سفر ابھی جاری ہے۔

سوال: آج کی جدید سائنس اور نفسیات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جواب: جی۔ بہت زیادہ ترقی ہو چکی ہے اور نفسیات کا دامن بھی کافی وسیع ہو چکا ہے اور ایک تشکیکی رویہ رکھتے ہوئے میرے ذہن میں بہت سے سوالات ہیں جن کا مجھے ابھی تک جواب نہیں ملا۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

1۔ مادی وسائل سے مالا مال شخص بے سکون کیوں ہوتا ہے؟
2۔ کیا ہم اپنے دماغ کو کنٹرول کر سکتے ہیں؟
3۔ اکثر ترقی پسند یا بے دین شخص عمر کے آخری حصے میں مذہبی کیوں ہو جاتا ہے؟
4۔ خوشی اور کامیابی کیا ہے؟ اس کا تعین انسان خود کرتا ہے یا اس کے معاشی حالات؟

5۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ خواب جھوٹے ہوتے ہیں لیکن میرے اکثر خواب بالکل اسی طرح پورے ہوتے ہیں جیسے دیکھتا ہوں؟

سوال: یہ سوال آپ کس شخصیت سے پوچھنا چاہیں گے؟

جواب: میں چاہوں گا کہ ڈاکٹر خالد سہیل اگر مناسب سمجھیں تو اپنے تجربات کی روشنی میں کچھ اظہار کر دیں تاکہ قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔

سوال: ڈاکٹر خالد سہیل کو آپ کیسے جانتے ہیں؟

جواب: ”ہم سب“ کے پلیٹ فارم کی وجہ سے، میں ان سے متعارف ہوا اور ”ہم سب“ کا ممنون ہوں کہ ان کی وجہ سے میں بہت سارے لکھنے والوں متعارف ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).