اگر انڈیا کشمیر سے دستبردار ہو گیا تو؟


لطیفے دنیا کی تمام زبانوں اور دنیا کے ہر خطے میں سنے اور سنائے جاتے ہیں۔ لطیفہ محض کچھ دیر کے لیے ہنس کر اچھا وقت بتانے کے لیے نہیں بلکہ ان کے پیچھے بہت بڑا فلسفہ اور دانش کارفرما ہوتی ہے۔ آج میں نے ایک لطیفہ پڑھا تو سوچ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ لطیفہ کچھ یوں ہے۔

”ہندوستان میں جب خالصہ تحریک زوروں پہ تھی تو سکھ کرتا دھرتا سرداروں کی ایک بیٹھک ہوئی اور بھارت سے آزادی کے بعد کے ممکنہ مسائل پہ گفتگو کی گئی۔

بڑے سردار نے دیگر سرداروں پوچھا: اگر ہم الگ ملک حاصل کر لیں تو ہمارا ذریعہ معاش کیا ہو گا؟
ایک سردار نے کھڑے ہو کر کہا : ہم ایک زرعی ملک ہیں اور زرعی اجناس سے اپنا ملک چلائیں گے۔
سکھ گرو نے کہا: پر صرف زراعت پہ انحصار کر کے دنیا میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
ایک اور سکھ کھڑا ہوا اور کہا: کہ ہم اپنے ملک کو زراعت سے انڈسٹری پہ منتقل کر دیں گے۔

سکھ گرو نے کہا: کہ ایسے ملک کی انڈسٹری کا کیا حال ہو گا جس کے چاروں اطراف میں دشمن ممالک ہوں جب ہم دنیا سے رابطہ ہی نہیں کر پائیں گے تو اپنی پروڈکٹس کس کو بیچیں گے؟

ایک نوجوان سکھ نے کمال کی تجویز دی۔ اس نے کہا ہم امریکہ کے ساتھ جنگ شروع کر دیں گے کیونکہ امریکہ جس ملک پہ حملہ کرتا ہے تو جیت جانے کے بعد اس کو معاشی طور پہ مضبوط کرنے کے لیے بہت زیادہ انویسٹ کرتا ہے۔ اس طرح تھوڑے عرصے میں ہم اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو جائیں گے۔

سکھ گرو نے کہا اے نوجوان! اگر جنگ ہم جیت گئے تو؟
اب ذرا اس لطیفے کو مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے موقف کے تناظر میں دوبارہ پڑھیں کہ اگر کشمیر کے موقف سے انڈیا دستبردار ہو گیا تو کیا ہو گا؟

کشمیر کی آبادی تقریباً 2 کروڑ کے قریب ہے جو کہ بلوچستان کی آبادی سے زیادہ ہو گی۔ اور وہاں سیاحت کے علاوہ کوئی انڈسٹری ایسی نہیں ہے جو سر دست کام کرنے کی حالت میں دستیاب ہو گی۔ کشمیر 70 برس سے جنگی علاقہ ہے۔ لوگ بے حال ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کوئی بھی نہیں۔ ہم لٹے پٹے کشمیر اور آبادی کے اتنے بڑے بوجھ کو کیسے مینج کریں گے؟ اگر ہم یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ ہماری افرادی قوت میں اضافہ ہو گا تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری اپنی آبادی کا کثیر حصہ بے روزگار ہے۔ ہمارے پاس ان کو روزگار دینے کا کوئی پلان نہیں تو کشمیر کی افرادی قوت کیا اضافی بوجھ نہیں ہو گی؟

اگر ہمیں یہ امید ہے کہ ہم کشمیر کے بوجھ کو اس کی سیاحت سے سنبھال لیں گے تو ہمیں ایک بار پھر اپنے آپ کو ہی دیکھنا ہو گا۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں سیاحت ایک بہت بڑی انڈسٹری کے طور پہ سامنے آئی ہے اور کئی ممالک محض اسی ایک انڈسٹری کی بنیاد پہ بڑی معیشت بنے ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم دنیا کی حسین وادیوں، بلند چوٹیوں اور خوبصورت میدانوں کے باوجود دنیا کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے یہاں تک کہ دنیا ہم کو اس قابل بھی نہیں سمجھتی کی ہمارے میدانوں میں آ کر کوئی ہم سے کھیلے۔ ہم اپنی ہوم سیریز عرب ممالک میں جا کر کھیلتے ہیں۔ ایک عشرے سے زائد وقت ہو چلا پاکستان نے آؤٹ ڈور تو دور کی بات کسی ان ڈور میگا ایونٹ کو بھی ہوسٹ نہیں کیا۔

ہم پندرہ برس گزر جانے کے باوجود 2005 کے زلزلہ زدگان کو دوبارہ نہیں بسا سکے۔ جن کی مدد کے لیے دنیا نے ہمیں اربوں ڈالر بھی دیے تھے۔ لاکھوں لوگ ضرب عضب کے متاثرین ہماری توجہ کے طلب گار ہیں تو کشمیر کو دوبارہ بسانے کے لیے ہم ان کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے؟ اس سے پہلے کہ کشمیر مل جائے اور ہمیں احساس ہو کہ اس کامیابی سے ہماری صرف اور صرف انا ہی سیراب ہوئی ہے تو ہمیں کشمیر کے بارے اپنی پالیسی کو از سر نو مرتب کریں۔ کشمیر ہماری شاہ رگ تو ہے لیکن سوچنا یہ ہے کہ اگر پورا جسم پہلے ہی خون سے لت پت ہو اور اس کی کوئی مرہم پٹی کا بندوبست نہ ہو تو شہ رگ کا خیال کیسا؟

ہم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ کشمیری ریاست پاکستان کے ساتھ ایک گائے کی طرح رہنا شروع کر دیں گے۔ جو محض چارہ کھانے کے عوض ہی دودھ مہیا کرتی جائے۔ کشمیریوں کے پاس حقوق کے حصول کا 72 سال کا کامیاب تجربہ ہو گا وہ اقتدار میں اپنا جائز حق مانگنے کے ساتھ ساتھ معیشت میں بھی شراکت داری کی بات کریں گے۔ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کو پہلے ہی وفاق سے اس ضمن میں بہت سی شکایت ہیں جن کا ازالہ کرنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔

ایسے میں جب کشمیر بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے گا تو یقین جانیے وفاق کے خلاف اٹھنے والی آواز کو ہی قوت ملے گی۔ ہم اقتدار اور معیشت میں شراکت داری کے باعث مشرقی پاکستان کو بھی درد ناک انداز میں قربان کر چکے ہیں۔ تو کیا کشمیر ہمیں پانی مہیا کرنے کے عوض اپنے ساتھ محض پاکستان کا لاحقہ جوڑنا ہی پسند کرے گا۔

کشمیرپہلی ریاست نہیں ہو گی جو پاکستان کے ساتھ جڑے گی۔ تقسیم ہندوستان کے بعد جہاں بیشتر ریاستوں نے بھارت کے ساتھ الحاق پسند کیا تھا وہیں پہ کچھ ریاستیں ایسی بھی تھیں جن کی علاقائی قربت پاکستان کے ساتھ تھی اور انہوں نے معاہدہ الحاق پاکستان کے ساتھ کر لیا۔ جن میں ریاست بہاولپور، سوات، خیر پور، چترال، ہنزہ، نگر، امب، پھلرا، دیر، قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ شامل تھیں۔ کیا کبھی وہ معاہدات الحاق نصاب میں شامل کیے گئے تاکہ ہم جان سکیں کہ الحاق کے وقت ان ریاستوں کے ساتھ وفاق نے کیا وعدہ کیا تھا۔ اور یہ تجزیہ کرنا آسان ہو جائے کہ اس وعدے کی پاسداری ہم نے کس حد تک کی ہے۔ پھر اس بات کا تجزیہ بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ برطانوی ہندوستان میں ان ریاستوں کی معاشی حالت کیا تھی اور الحاق پاکستان کے بعد ان میں کس قدر بہتری آئی ہے تاکہ ہم کشمیر کے کیس میں اپنی تیاری پہ ایک نظر ڈال سکیں۔

پاکستان میں ہر سال لاکھوں کیوسک پانی ضائع ہو جاتا ہے ، ہم اس کے لیے ایک ڈیم تک نہیں بنا سکے تو کشمیر سے آنے والے دریا ہماری تباہی کا ہی بندوبست بنیں گے۔ وزیراعظم صاحب چند روز قبل ارشاد فرما رہے تھے کہ ہمیں دو برس بعد احساس ہو رہا ہے کہ ہم جب حکومت میں آئے تو ہماری تیاری نہیں تھی۔ اور کسی بھی سیاسی جماعت کو تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے تو ان کی اس دردمندانہ نصیحت پہ عمل کرنے کا صحیح مقام یہ ہے۔

ہمیں پہلے خود کو ایک منظم اور منتظم قوم بنانے کی ضرورت ہے۔ اپنے تمام ذرائع سے ان کی پوری استعداد کے ساتھ فائدہ اٹھانا ہو گا ، اپنی یوتھ کو تعلیم صحت اور روزگار سے مزین کرنا ہو گا تاکہ وہ پہلے اپنا بوجھ اٹھانے قابل ہو جائیں پھر اپنے کشمیری بھائیوں کا بوجھ بانٹ سکیں۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو یہی کشمیر انہی مجاہدین کے ساتھ ہمارے اسی طرز پہ ہماری نسلوں کو کاٹے گا جیسے طالبان نے کاٹی ہیں۔ پھر ہمیں کشمیر کے بارے میں مشرقی پاکستان والا قصہ دہرانا پڑ سکتا ہے۔

مشرقی پاکستان باقی حصے سے سینکٹروں میل دور تھا ، بات بن گئی لیکن کشمیر کی جغرافیائی حیثیت ہمیں ویسا کچھ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نہ تو کوئی بھوک اور افلاس میں آپ کے ساتھ خوش رہ سکتا۔ اور نہ ہی کوئی صوبائی اکائی اقتدار اور معیشت میں اپنا برابر حصہ لیے بغیر وفاق کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے۔ اس لیے الحاق کشمیر کی خواہش جائز ہے لیکن تیاری ابھی تک نامکمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).