غیر قانونی تارکین وطن: امریکی حراستی مرکز میں 531 دنوں سے قید نو سالہ بچی


امریکہ میں ایل سالواڈور سے تعلق رکھنے والی ایک ماں اور بیٹی کو امیگریشن حکام کی حراست میں 500 دن سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ حالانکہ امریکہ میں ایک قانون ہے جس کے تحت حکام غیر بالغ تارکینِ وطن کو 20 دن سے زیادہ حراست میں نہیں رکھ سکتے۔

لوئساہ (فرضی نام) کی آواز ایک نو سالہ بچی جیسی ہی لگتی ہے۔ مگر ان کی باتیں اپنی عمر سے کہیں زیادہ سمجھدار شخص کی معلوم ہوتی ہیں۔ انھیں قانون سازوں کے خطوط لکھنے پڑے ہیں جس میں انھوں نے اپنی اور اپنی والدہ آریانہ (فرضی نام) کی امریکی حراستی مرکز سے رہائی کی اپیلیں کی ہیں۔

دو فروری تک انھوں نے امریکی حکومت کی حراست میں 531 دن گزار لیے ہیں۔ پناہ کی ایک ناکام درخواست کے بعد وہ امریکہ سے ملک بدری سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ملک میں کام کر رہی تین قانونی امداد کی تنظیموں کے مطابق لوئسا وہ تارکِ وطن بچی ہیں جنھوں نے حکومتی حراست میں سب سے زیادہ وقت گزار لیا ہے۔

ان کا تقریباً تمام وقت ریاست ٹیکساس کے شہر ڈلی میں واقعہ ساؤتھ ٹیکساس فیملی ڈیزیڈنشل سنٹر میں گزرا ہے۔ فون پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے تمام دوست جا چکے ہیں۔ میں اور میری ایک ہی دوست یہاں بچے ہیں۔‘

موجودہ قوانین کے مطابق امریکہ میں تارکینِ وطن بچوں کو امیگریشن حکام 20 دن سے زیادہ حراست میں نہیں رکھ سکتے۔

تاہم لوئسا اور چار دیگر بچوں (جن کی عمریں تین برس سے لے کر 16 برس تک ہیں) نے اپنی اپنی والدہ کے ساتھ یہاں 500 سے زیادہ دن گزار لیے ہیں۔

‘ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا

لوئسا اس حراستی مرکز سے جا سکتی تھیں اور امریکہ میں کسی اور رشتے دار کے ساتھ رہ سکتی تھیں۔ مگر انھوں نے اور ان کی والدہ نے امریکی عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑنے کے دوران اکھٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔

امریکی حراستی مرکز میں قید بچے

آریانہ کا کہنا ہے کہ ’ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ میں اپنے رشتے داروں کے پاس اپنی بیٹی نہیں چھوڑ سکتی۔ میری بیٹی بہت کم عمر ہے اور اسے میری ضرورت ہے۔ میں اسے کیسے چھوڑ دوں؟‘

امیگریشن وکلا کا کہنا ہے حکام کو ایسے تارک وطن خاندانوں کو اس چیز پر مجبور کرنے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائیں سے بہتر ہے رہا کر دینا ہے۔

گذشتہ انتہخابی مہم کے دوران صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ خاندان کے افراد کو حراست میں رکھنے کے خلاف ہیں اور تارکینِ وطن بچوں اور ان کے والدین کو رہا کر دیا جانا چاہیے۔

مگر لوئسا کا کیس ایک ایسی امیگریشن پالیسی کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے جسے اکثر ناکارہ کہا جاتا ہے۔

دو کرسمس

لوئسا اپنی صورتحال سے تنگ آ چکی ہیں۔ ‘میں نے دو کرسمس یہاں گزار لی ہیں۔ مجھے کھانا پکانے کا شوق ہے۔ میں اپنا کھانا خود پکانا چاہتی ہوں۔ میں نے تھوڑی سی انگریزی سیکھی ہے مگر میں سکول جانا چاہتی ہوں۔‘

ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کی بچی کو یہاں کا کھانا پسند نہیں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ بدل رہا ہے۔ ‘وہ صرف پھل کھاتی ہیں اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں کھاتیں۔‘

آریانا خود 31 سال کی ہیں اور وہ پریشانی سے خود بیمار ہو چکی ہیں۔

امریکی حراستی مرکز میں قید بچے

’میں دوائیں کھا رہی ہوں۔ کچھ وقت پہلے مجھ پر جیسے ایک حملہ ہوا تھا اور مجھے نہیں پتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ طبی عملے نے بتایا کہ یہ پریشانی کی وجہ سے نفسیاتی دورہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہاں قید میں، میں نہیں کوئی اور ہے۔‘

آریانا کا کہنا ہے کہ ایل سالواڈور میں پرتشدد واقعات کی وجہ سے انھیں اپنی بیٹی لوئسا کے ساتھ یہاں آنا پڑا۔ انھوں نے اپنے بقیہ دو بچے وہیں چھوڑے ہیں۔

21 اگست 2019 کو انھوں نے امریکہ اور میکسیکو کا بارڈر عبور کیا اور 27 اگست کو انھیں پکڑ کر ڈلی میں منتقل کر دیا گیا۔ دو دن بعد ایک افسر نے ان کا انٹرویو کیا۔ اس فیملی کی نمائندگی کرنے والی تنظیم پرویکٹو ڈلی سے منسلک ایک پیرا لیگل مکنزی لیوی نے بتایا کہ ان کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے کیونکہ انھوں نے یہ درخواست میکسیکو یا گوائٹامالہ سے نہیں بھیجی اور امریکہ آ کر داخل کی۔

ستمبر میں ان کے وکیل نے اس فیصلے کے خلاف ایک امیگریشن عدالت میں اپیل کی مگر عدالت نے فیصلہ برقرار رکھا اور انھیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔

آریانا کے وکلا نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ آریانا کو کسی جج کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف دینے کا موقع دیں۔

امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے کیس جو کہ عدالتوں میں زیرِ سماعت ہے، کوئی بیان جاری نہیں کر سکتے۔

ملک بدری کے قریب

آریانہ نے بتایا کہ حکومت نے انھیں ملک بدر کرنے کی پانچ بار کوشش کی ہے اور ان کے وکلا نے کبھی کبھی تو آخری لمحے پر جا کر ان کی ملک بدری روکی ہے۔

آریانہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی کو وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال سمجھ آنے لگی ہے جہاں انھیں بار بار ملک بدری کے لیے ایئر پورٹ لے جایا جاتا ہے۔

لوئسا کہتی ہیں کہ ’مجھے اس وقت غصہ آتا ہے جب وہ کبھی لے کر جاتے ہیں پھر واپس لا کر یہیں رکھ دیتے ہیں۔‘

آریانہ کی پریشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی بیٹی تعلیم میں پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب دو سال ہو چکے ہیں اور یہاں اس کی تعلیم صحیح نہیں جا رہی ہے۔

مکنزی لیوی کہتی ہیں کہ ان کے بہت سے موکل کہتے ہیں کہ یہاں پر دی جانے والی تعلیم غیر معیاری ہے اور بچے زیادہ وقت کمپیوٹر پر گزارتے ہیں اور کچھ سیکھتے نہیں ہیں۔

لیوی کہتی ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران انھیں ہوم ورک کے پیکٹ دیے گئے ہیں جو کہ ایک ہفتے کے لیے تھے مگر بچوں نے انھیں ایک دن یا چند گھنٹوں میں ہی مکمل کر لیا۔

امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ ڈلی میں سکول ستمبر میں کھول دیے گئے ہیں اور جو تعلیمی پیکٹ انھیں ارسال کیے گئے ہیں وہ ٹیکساس کی جانب سے سکولوں کو دی گئی ہدایات کے مطابق ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ وہ تمام فیملیز کے وقار اور انسانیت کی قدر کرتا ہے۔

افراتفری اور دل سوز واقعات

گذشتہ نومبر میں تارکینِ وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی 60 تنظیموں نے صدر ٹرمپ کو خط لکھا جس میں 28 ایسے بچوں کا ذکر تھا جو کہ 15 ماہ سے زیادہ سے قید میں تھے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

ادھر اسی وقت امیگریشن حکام نے بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو متعدد قانونی راستوں تک رسائی دی گئی تھی اور یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان کے امریکہ میں رہنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔

امریکی حراستی مرکز میں قید بچے

اس خط میں مذکورہ 28 بچوں میں سے چھ کو ملک بدر کیا جا چکا ہے اور 17 کو رہا کیا جا چکا ہے۔ ایسے پانچ بچے جن میں لوئسا بھی شامل ہیں، ابھی بھی زیرِ حراست ہیں۔

مائگریشن پالیسی انسٹیٹیوٹ کی سارہ پرئرس کہتی ہیں کہ ’اس طرح کی پالیسیاں افراتفری پیدا کرتی ہیں اور دل سوز واقعات کی وجہ بنتی ہیں۔ اگر آپ پناہ مانگنے والے شخص کی جگہ سے دیکھیں تو آپ کو بیوروکریسی کی تہہ پر تہہ نظر آئے گی۔‘

امریکہ داخل ہونے کے 531 دن بعد بھی لوئسا حراستی مرکز میں ہیں۔ ان کی دسویں سالگرہ آنے والی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میں باہر جانا چاہتی ہوں۔ میں اپنی خالہ کے گھر جانا چاہتی ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp