پی ڈی ایم اتحاد کے یوٹرن


پاکستان ڈیموکریٹک مومینٹ نام سے تشکیل دیا گیا سیاسی اتحاد، جس میں ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں شامل تھیں، ان کا لیا گیا یو ٹرن پہ یوٹرن اب صاف دکھائی دینے لگا ہے۔ یو ٹرن لینے کے حوالے سے مشہور تو موجودہ وزیراعظم عمران خان تھے، پر ان پہ کڑی تنقید کرنے والے، جس طرح اس کے نقش قدم پہ اپنے رستہ بنا رہے ہیں، اور یو ٹرن پہ یو ٹرن لیے جا رہے ہیں، یہ ہمیں توقع نہ تھی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں پہ مشتمل پی ڈی ایم اتحاد کا بنیادی مقصد عوام کو یہ بتایا گیا کہ، پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجا جائے گا۔

اس اتحاد کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کو سونپی گئی، اور جب پی ڈی ایم اتحاد کی لمبی لمبی ملاقاتیں ہوئیں، تو کئی ساری معاملات طے پائے، اور میڈیا پہ آ کر بڑے ہی اعتماد کے ساتھ کہا گیا کہ یہ حکومت نئے سال کا سورج دیکھ نہ پائے گی اور اس سے پہلے ہی گھر کو روانہ ہو جائے گی۔ عمران خان کی حکومت جانے کے باری میں پی ڈی ایم والوں نے بہت سی ڈیڈ لائنیں بھی دیں، اور عوام سے وعدے بھی کیے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اکتیس جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی گئی کے وہ مستعفی ہوجائیں، ورنہ دمام دم مست قلندر کے ساتھ پتا نہیں اور کیا کیا ہوگا؟

پر وہ تاریخ گزر گئے، اور حالات جوں کے تو ہیں، بلکہ اب یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم والے اب کہیں نہ کہیں مذاکرات کرنے کا رستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ویسے سیاستدانوں کی کوئی بھی بات آخری نہیں ہوتی، پر پھر بھی جو لوگ عمران خان کی حکومت میں ہونے والی مہنگائی سے تنگ تھے، انہوں نے پھر بھی تھوڑا بہت سچ مان کر پی ڈی ایم کا ساتھ دیا، اور سوچا کہ شاید عمرانی حکومت کے جانے سے کوئی ہماری زندگی میں بہتری آ جائے۔

بڑے بڑے شہروں میں کورونا وائرس کا خطرہ مول لیے، ہزاروں لوگ پی ڈی ایم کے جلسوں میں شریک ہوئے، اور یخ سردی میں بھی اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اور انہیں اپوزیشن جماعتوں نے، عوام کے سامنے زبان بھر بھر کے وہ وعدے کیے جو اب وفا ہونے سے رہے۔ سیاسی لیڈروں نے یقین دلایا کہ وہ چاہے اسمبلی سے استعفی دیں یا شہر اقتدار تک لانگ مارچ کریں پر حکومت کو گرا کر ہی چھوڑیں گے۔ انہوں نے تو صاف الفاظ میں کہا کہ جنوری کے ختم ہونے تک حکومت چلی جائے گی۔

پر بھلا ہو، موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید کا، جس نے بار بار عوام کو پیغامات دیے کہ اس پی ڈی ایم میں پہلے دن سے ہی پھوٹ پڑ چکی ہے، ان کی آپس میں نہیں بن رہی تو عوام کی کیا خاک سوچیں گے؟ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کی تو پہلے دن سے بات نہیں سنی گئی، اس لیے وہ خفا رہا۔ مولانا صاحب اس بات پہ بضد تھا کہ تمام اپوزیشن ارکان کو اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہوجانا چاہیے، پر تھوڑی بہت مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز تو راضی ہوئی، باقی پیپلز پارٹی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اس بات پر قطئی طور پر راضی نہیں ہوئے۔

بلاول بھٹو کے لہجے کی نرمی یہ تاثر دے رہی تھی کہ وہ حکومت گرانے کے حق میں قطعی طور پر نہیں ہیں، نہ ہی وہ کبھی اسمبلیوں سے استعفی دینے پر راضی ہوئے۔ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی ناکام پالیسی پیش کرنے جیسی باتیں کر کے، پی ڈی ایم کو صاف پیغام دے دیا کہ وہ حکومت کو گھر بھیجنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے اپنے ابا والی مفاہمتی سیاست کو فروغ دینا چاہا، اور باقی جماعتوں پر ظاہر کر دیا کہ وہ سخت بیانات تو دے سکتے ہیں، باقی حقیقت میں کوئی ٹکراؤ لینے کے اور تناؤ بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے، کہ اس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے ہوں، کہ ہر وقت بات چیت کا دروازہ کھلا ہو۔ پر دوسری طرف مریم نواز کی تلخ زبانی یہ ثابت کر رہی تھی کہ وہ کسی بھی طور عمران خان اور اس کے لانے والوں سے صلح نہیں کرنا چاہتی۔ پر سب نے گھوم پھر کر، لفظوں کے راستے بدل بدل کر، ایک ہی یوٹرن لیتے ہوئے اسی ایک پوائنٹ پہ کھڑا ہونا تھا، جہاں پہ پیپلز پارٹی پہلے سے ہی موجود کھڑی تھی۔

پہلے مریم نواز اور فضل الرحمان علیٰ الاعلان یہ کہتے تھے کہ انہیں سلکیٹیڈ سے زیادہ سلیکٹرز سے شکایات ہیں، پر اب مولانا فضل الرحمان نے واضح کر دیا کہ انہیں صرف سلیکٹڈ عمران خان سے ہی مسئلہ ہے، باقی وہ تمام قوتوں سے صلح کرنے پر راضی ہیں، بشرطیکہ عمران خان کو ہٹا کر، اقتدار کی ڈوریں ان کے کندھوں سے باندھی جائیں۔ آئندہ ماہ سینٹ میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے حصہ لینے کا اعلان تو کب کا کر دیا تھا، پر اب مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمان نے بھی سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دے دیا ہے، جس سے یہ بات اور بھی صاف ہو گئی کہ یوٹرن کا لیبل صرف عمران خان کے لیے محدود نہیں ہونا چاہیے، پر ہر سیاستدان اسے اپنے ماتھے پہ چمکانا چاہتا ہے۔

پی ڈی ایم کے بھرے غبارے میں سے ہوا تو اب نکل چکی ہے، اور اب تو عمران خان اور اس کی ٹیم بھی خاصی مطمئن نظر آ رہی ہے، کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ بادل صرف گرجنے والے ہیں، برسیں گے کبھی نہیں۔ پی ڈی ایم کی لانگ مارچ کی دھمکی بھی اب اپنا وزن گرا چکی ہے، اور جو غصہ پہلے دنوں میں مخالف جماعتوں نے دکھایا وہ بھی ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ جمعرات کو پانچ گھنٹے طویل ہونے والا پی ڈی ایم کا اجلاس، جس میں، آصف زرداری اور نوز شریف آمنے سامنے وڈیو کال پہ حاضر تھے، انہوں نے 26 مارچ کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے، پر مشترکہ طور پر سب نے سینٹ انتخابات میں بھی حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

پی ڈی ایم کے اعلانات اور موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ اپوزیشن رہنما سختی کے بجائے نرمی والا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ لانگ مارچ ہونے تک سینیٹ کے انتخابات ہو جائیں گے تو سیاسی صورتحال کافی بدل جائی گی، اور کیا پتا اس لانگ مارچ والے اعلان پر بھی ایک اور یو ٹرن لیا جائے۔ ان تمام سیاستدانوں کی بس یہی پالیسی ہوتی ہے کہ اپنی جماعت کو کس طرح فائدہ پہنچانا ہے، اسی مقصد کو سامنے رکھ کر، وہ نہ صرف عوام کا استعمال کرتے ہیں، پر بعض دفعہ دوسرے ممالک سے بھی مدد لیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

ان ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پاکستان کی عوام پر کتنے برے نتائج مرتب ہوتے ہیں، اس بات کی تمام سیاستدانوں کو دور دور تک کوئی فکر نہیں۔ فکر کریں بھی کیوں، سیاست کا مفہوم ہمارے یہاں عوامی خدمت نہیں، بلکہ اپنی کمائی کرنا اور مال بٹورنا ہے، پھر اس کے لیے آخری حد تک چاہے کیوں نہ جانا پڑے۔ سینیٹ انتخابات تو ہمیشہ کی طرح نیلام گھر کی مثال پیش کرتے ہیں، جہاں پہ جس کی زیادہ بولی لگے گی، وہ اپنی سیاسی وفاداری بیچ کر، بڑے بریف کیسوں کے بدلے ووٹ ان کے حوالے کر آئے گا، اور اسی طرح جیتے گا وہی، جس کے پاس زیادہ مال ہوگا۔

اسی طرح کیے نئے ممبران یوٹرن کا لیبل لگائے ہوئے سینیٹ کا حصہ بنیں گے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کسی جگہ پہ درست لکھا تھا کہ، ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ ، پر اس کی بات پہ اور اضافہ کر کے ہم یہ بھی فقرہ شامل کرتے چلیں، سیاست میں کبھی ایک زبان اور ایک اصول بھی نہیں چلتا۔ اب جو سیاست پاکستان میں چل رہی ہے، وہ یو ٹرن کی سیاست ہے، جس میں الفاظ سمیت اصولوں اور وفاداریوں پر بھی سودا بازی ہو سکتی ہے، اور اس یوٹرن والی سیاست کا حصہ، تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).