فرخ سہیل گوئندی کی کتاب: ”بکھرتا سماج“


فرخ سہیل گوئندی صاحب لکھتے ہیں : ”ریاستیں بکھرتی ہیں تو دوبارہ بن جاتی ہیں لیکن سماج بکھر جائیں تو ان کا دوبارہ بننا ایک مشکل اور طویل المدت عمل ہے“ ۔ گوئندی صاحب بکھرتے سماج کی نشانیاں لکھتے ہوئے کہتے ہیں : بکھرتے سماج میں ریاستی طاقت کمزور اور گروہی طاقت زور پکڑتی ہے۔ دولت پر گرفت رکھنے والے اور بندوق اٹھائے گروہ ریاست اور سماج کو اپنے ارادوں کے تحت چلانے لگتے ہیں۔ کہیں ریاست طاقت برقرار رکھتی بھی نظر آتی ہے، لیکن سماج بکھر جاتا ہے۔

انسانوں کا اجتماعی اتحاد کمزور پڑ جاتا ہے۔ معاشرتی قدریں ٹوٹ جاتی ہیں۔ قانون کو طاقتور خاندان اور مسلح گروہ جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسے سماج میں جہالت پر باقاعدہ غرور کیا جاتا ہے۔ توہم پرستی اور رجعت پسندی دونوں مذہبی انتہائیں اس بکھرتے سماج پر راج کرنے لگتی ہیں۔ لوگ توہم پرستی اور رجعت پسندی سے اپنے گناہوں کا کفارہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے سماج میں ہر کوئی اپنے لیے جینے کی راہ ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مبلغین یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ہم پر عذاب مسلط ہے اپنے گناہوں کا۔ بکھرتے سماج میں ادب اور علم کا زوال اس قدر ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بونے، بڑے قد آور نظر آنے لگتے ہیں۔

فرخ سہیل گوئندی صاحب کی کتاب ”بکھرتا سماج“ بھی ایسے ہی سماج کی داستان ہے جو بے شمار وہموں، وسوسوں، مغالطوں اور مبالغوں میں رچا بسا نظر آتا ہے۔ اپنی شناخت کے بحران کا شکار ایک ایسا سماج جو عربوں سے زبردستی تعلق جوڑتے ہوئے ان کی فتوحات کے تمغے اپنے سینے پر فخر سے سجاتا ہے۔

یہ کتاب کہانی ہے دنیا پر حکومت کا دعویٰ کرنے والی ”گمشدہ قوم“ کی جو نسلی شناختوں پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہے۔ جہاں غداری اور کفر کی سندیں عام دستیاب ہیں۔ جہاں ”شہید کون؟“ پر اتفاق نہیں ہے، جہاں کتابوں پر پابندی اور بندوق کا راج ہے، جہاں اہل علم ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور مکینوں کو ہر نقصان اور شکست میں غیر ملکوں کی سازش نظر آتی ہے۔

یہ مختصر سی کہانی ہے ایسے سماج کی جس کی سوچ اس قدر پست ہو گئی ہے کہ ”اپنے شریکوں کی طرف سے کیے گئے جادو کا توڑ، جادو سے کاروبار میں برکت، کامیابی کے لئے جادوگر کے ٹونے اور محبوب کو قدموں میں لانے کا طریقہ“ جیسے توہمات کے اشتہارات قومی اخباروں میں لگتے ہیں۔ جہاں ملک کے ایک بڑے اخبار کے کالم نگار اور نام نہاد دانشور انصارعباسی ”شریعت“ کے خواب دیکھتے ہوئے طالبان جیسے درندوں کے حق میں صفحات کالے کرتے ہیں، جہاں طالبان جیسے قاتلوں بارے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ”مغرب ان کے خوف سے لرزاں ہے“ ، جہاں قاتل، قتل کا جواز عقیدے میں ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے سماج میں محبت کے دن پر پھول دینے کو بھی ”حرام“ قرار دینے کے لئے جدوجہد کی جاتی ہے، کیونکہ ایسے سماج میں قاتل، قتل کے عوض جنت کے حصول کا ایمان رکھتے ہیں۔ جہاں عقیدہ کی بنیاد پر قاتلوں کے ماتھے چومے جاتے ہیں اور ایسے قاتلوں کو سزا دینے سے عدالتیں بھی کتراتی ہیں۔

ایک ایسا سماج جس میں گولی مارنے والا اور گولی کھانے والا دونوں ہی ہیروز ہیں اور جس میں اپنی بربادی کی ذمہ داری بیرونی سازشوں پر ڈال کر اپنے ”بے گناہ“ ہونے کا راستہ تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے سماج کا نوحہ ہے جہاں دہائیوں سے سلیقے سے جینے کی بجائے ”مرمٹنے“ کا سبق اتنی شدت سے پڑھایا گیا ہے کہ اب یہ موت پسند معاشرہ ہر ”اختلاف“ پر جان لینے کو تیار رہتا ہے۔

یہ سماج اس قدر موت پسند ہے کہ یہ اپنے ایٹمی اسلحہ پر سرعام فخر کرتا ہے، شاید ہی دنیا کے کسی ”ایٹمی طاقت“ ملک کا خطیب، مفکر، مبلغ اور عام آدمی اپنی گفتگو میں اس Weapon of Mass Destruction پر اس قدر فخر کرتا ہو۔ مگر یہاں مذاکروں، جلسوں اور تعلیمی اداروں میں ہونے والی تقریبات میں مقرر اپنی تقریر کے آغاز یا درمیان میں بڑے فخر سے کہتے ہیں ”ہم دنیا کی ایٹمی قوت ہیں“ ۔ ایسے سماج میں زندگی صرف ”موت“ کے گرد گھومنے کا نام رہ جاتی ہے اور یہ رجحان سماج کی پرتشدد نفسیات کا عکاس ہے۔

اس طرح کے سماج میں رہنے والے کبھی ضیاء الحق اور کبھی ملا عمر کی شکل میں ”اسلام“ کے غالب آنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ یہ سماج آج کل رجب طیب اردوان میں ”صلاح الدین ایوبی“ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گوئندی صاحب کا کہنا ہے کہ میڈیا مراکز میں اہل دانش کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب میڈیا میں اہل فکراور دانشور لوگ Engage نہ کیے جا رہے ہوں تو یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں میڈیا تعمیر کی جانب گامزن ہے۔ ایک ایسی ریاست، جس کے رجحانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہوں کہ سماج اور ریاست بکھرتے جا رہے ہیں، وہاں میڈیا کا اس قسم کا کردار دراصل بکھرنے کے عمل کو اور بھی تیز کر رہا ہے۔

فرخ سہیل گوئندی صاحب چونکہ ایک پبلشربھی ہیں، اس حوالے سے اپنے کتاب شائع کرنے اور بیچنے کے تجربے کی بنیاد پر لکھتے ہیں : پاکستان میں سب سے زیادہ اور شاندار کتابیں پڑھنے کا رجحان اندرون سندھ میں ہے۔ سندھ کا جاگیردار، سرمایہ دار، زمیندار، طالب علم، غریب اور امیر سب میں اعلیٰ، معیاری اور مشکل موضوعات کے حوالے سے پڑھنے کا رجحان ہے، جو پاکستان کے کسی اور علاقے میں شاید ہی ہو۔ آج کا سندھ پاکستان میں مطالعے میں سب سے آگے ہے۔ سندھ کو ہم کتاب دوست صوبہ قرار دیں گے۔ وہاں کا عام شہری وہ کتابیں پڑھتا ہے، جن سے ہمارے صوبے کے بڑے بڑے ادیب اور دانشور بھی ناواقف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).