وطن عزیز میں گزشتہ دنوں ہونے والے دو واقعات


وطن عزیز کی کچھ عجیب قسمت ہے، یہاں کوئی نہ کوئی انہونی ہوتی ہی رہتی ہے بلکہ اب تو کچھ بھی غیر متوقع نہیں رہا۔ رواں دنوں میں بھی مختلف واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں، دو البتہ ان میں نمایاں رہے۔

پہلے واقعے میں اسلام آباد میں معروف سیاستدان اور وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کشمالہ طارق کی گاڑی سے ٹکرانے والی ایک گاڑی میں سوار مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے چار نوجوان جاں بحق ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق محترمہ کشمالہ کی گاڑی میں سوار لوگ محفوظ رہے جبکہ ان کی گاڑی ایک اور گاڑی اور موٹر سائیکل سے بھی ٹکرائی۔ وفاقی محتسب کی ریلیز کردہ ویڈیو بیان کے مطابق ان کا ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا اور دونوں گاڑیوں کی تیز رفتاری کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔

تاہم کچھ عینی شاہدین کے دعوے کے مطابق گاڑی ان کا بیٹا چلا رہا تھا۔ محترمہ ایک اہم سیاست دان اور انصاف کے منبر پر تخت نشین وفاقی محتسب ہونے کے باوجود بہرحال ایک ماں بھی ہیں اور یقیناً ان کے بیٹے کا اس واقعے میں کسی قانونی پیچیدگی سے بچنا مشکل نہیں ہو گا۔ ویسے بھی یہ تاثر ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں عام طور پر پروٹوکول گاڑیوں یا اہم شخصیات کی گاڑی تلے روندے جانے والے افراد کے لئے انصاف کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اس لیے اس کا نتیجہ بھی غیر متوقع نہیں ہو گا۔

ایک دوسری خبر کے مطابق سینیٹ کی کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی امور نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل کثرت رائے سے مسترد کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ 2014 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق جیلانی کے فیصلے کے مطابق حکومت کو اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لئے کچھ اہم اقدامات کرنے تھے، بعد ازاں 2019 میں اس فیصلے کے عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لئے ایک رکنی کمیشن بھی تشکیل دیا گیا تھا۔ بہرحال قانون سازوں کا اختیار قانون کی تشریح کرنے والوں سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے معزز ممبران نے یہ مناسب سوچا ہو گا کہ جسٹس صاحب نے جذبات میں آ کر فیصلہ دیا ہے ورنہ راوی تو یہاں چین ہی لکھ رہا ہے۔

ویسے بھی جب پہلے سے موجود قوانین کے تحت اقلیتوں کا تحفظ ممکن نہیں ہو پایا تو نئے قوانین کیا کر لیں گے، حال ہی میں ایک مسیحی نرس پر ساتھی نرسوں کی طرف سے توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے رسیوں سے باندھا گیا، تشدد کیا گیا اور پھر اس کی ویڈیوز وائرل کی گئیں۔ پولیس پر دباؤ ڈال کر تھانے کا گھیراؤ کر کے ایف آر کا اندراج کروایا گیا۔ اس سے پہلے کرک میں مندر کا جلایا جانا اور اقلیتی لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے واقعات بھی اقلیتی حقوق کے ’تحفظ‘ کے مظاہر تھے۔

الفاظ ساتھ چھوڑ رہے ہیں، اس لیے آخر میں اپنی ایک نظم عرض ہے۔
اب مجھے ڈر لگتا ہے
گر گزرے کوئی سبک پا اشراف
میرے قریب سے
مجھے ڈر لگتا ہے
کہ وہ کہیں کچل نہ ڈالے
میرا دامن بے اماں
میری حسرتوں کا
میرے ارمانوں کا
کسی منہ زور بے لگام
رئیس زادے کے ہاتھوں
خون نہ ہو جائے
مجھے ڈر لگتا ہے
کیونکہ میرے دیس کے
مجسمہ انصاف کی آنکھوں پر
ایک دبیز پٹی آویزاں ہے
اور یہ دبیز پٹی
کوتوال کی پتلی کو
جنبش نہیں لینے دیتی
انصاف کے آہنی شکنجے کو حرکت نہیں لینے دیتی
مجھے ڈر لگتا ہے
کہیں میں اس دبیز پٹی کا
شکار نہ ٹھہروں
کہ میرا وجود
شناختوں کے اس شجر میں پیوستہ ہے
جہاں دھرتی میں پھیلی
صدیوں پرانی جڑیں
ہوں باعث شرمندگی
جہاں تنے کی طرح مضبوط
نسوانی شناخت
سوکھی لکڑی سے زائد نہیں
میرے مفلس، استحصال زدہ لوگوں
مجھے ڈر لگتا ہے
کہ تم میں سے کسی کو
قرار واقعی انصاف ملا
تو میں عالم تحیر میں
کہیں مر نہ جاؤں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).