شالا جوڑی سلامت رہوی


ہمارے سماج میں کچھ باتیں ایسی شاندار ہیں جو شاید کسی اور سماج کو نصیب نہیں، ہمیں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں سب سے زیادہ کھیل انسانی نفسیات اور جذبات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ کھیلنے والا اپنا ہو یا پرایا، اس سے فرق نہیں پڑتا بلکہ معاملہ کھیل اور کھیل سے حاصل ہونے والے فائدے کے اردگرد گھومتا ہے۔

عام طور پر ہم فقیروں کو سماج میں سب سے کم درجہ یہ سمجھ کر دیتے ہیں کہ یہ تو پاگل ہے۔ ایک سطح پر یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کہ ایک ایسا انسان جو اپنی بنیادی ضروریات کو مانگ کر پورا کر رہا ہو وہ زندگی کے دیگر معاملات میں کیسا ہوگا، لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی تصویر کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ جن کو ہم پاگل گردانتے ہیں دراصل ان کے کاغذوں میں ہم پاگل ہوتے ہیں، اس سوچ کی بنیادی وجہ اس طبقہ کا ہم کو پاگل بنا کر مختلف باتوں کے ذریعے یا اپنی مظلومیت دکھا کر پیسے بٹورنا ہے

لیکن وہ کیا ہے ناں کہ جدید دور میں ہر کام کو کرنے کے تقاضے بدل چکے ہیں، فقیروں نے بھی اپنے پیشے کو جدید دور کے تقاضوں میں ڈھال لیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دعاؤں نے بھی نیا چولا پہن لیا ہے، جس کے بعد ان کی شکل کچھ اس طرح بن گئی ہے

”بھائی اللہ تیری پیار کی شادی کروائے“
”باجی اللہ تجھے تیرے پیار سے ملائے

ہر گزرتے جوڑے کو یہی کہہ کر نفسیاتی طور پر بلیک میل کیا جاتا ہے کہ
”ہائے کتنی سوہنی جوڑی اے، اللہ تم دونوں کو اسی طرح خوش رکھے“

اور پھر ان الفاظ سے وصول ہونے والے پیسوں نے ان کے ذہن میں اس بات کو راسخ کر دیا ہے کہ جوڑیاں بنانے اور شادیوں کی دعا دینے سے اچھی خاصی رقم بٹوری جا سکتی ہے۔

ایسے میں ہر بھکاری بچے کو یہ الفاظ ازبر کروا دیے گئے ہیں۔ جو سامنے آنے والے کے رشتے سے بے خبر بس دوڑتے ہوئے ان پر زبردستی یہ دعا تھوپ دیتے ہیں۔

مجھے آج تک یاد ہے کہ ہمارے بچپن اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک فقیروں کے چند مخصوص جملے ہوتے تھے جو دعاؤں کی صورت اگلے کی جیب کو ہلکا کرنے میں انہیں مدد دیتے تھے، جیسے :

”شالا ماں دا سایہ سلامت رہویں“
”اللہ بھراواں دی زندگی کری“
”قسمت چنگی ہووی“

ان سب میں سے پہلا نمبر ماں کے ساتھ جڑی ہوئی دعا کا ہوتا تھا، جس پر اچھے اچھے بندے بڑی خوش دلی کے ساتھ اپنی جیب خالی کرتے جبکہ عورتوں کو ماں کے ساتھ ساتھ بھائیوں کی دعا پر بھی جیبیں خالی کرتے ہوئے پایا۔

دو دعائیں ایسی تھیں جن کو موقع محل دیکھ کر دیا جاتا تھا، ایک ”بچیاں دی زندگی ہووی“ ”شالا سر دا سائیں سلامت رہوی“

لیکن آج تو یہ سب جملے ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، جدید دور میں فقیروں کی بڑی تعداد آپ کو جامعات کے باہر اور ہوٹلز کے قریب نظر آتی ہے اور وہیں پر شادی اور جوڑیاں قائم رہنے کی دعائیں دی جاتی ہیں۔ یہ دعا اس وقت قہر بن کر ٹوٹتی ہے جب آپ پوری کلاس کے ساتھ ہوں اور کوئی بچہ آپ کے سامنے آ کر ایسی حرکت کر جائے۔

جس ساتھ والے کو آپ صرف کلاس فیلو کے طور پر جانتے ہوں اور وہ بھکاری بچہ چند پیسوں کے عوض آپ کا جوڑا منتخب کر دے تو جھٹکا لگنا کوئی غیر فطری بات نہیں اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ دوسرا فریق اسے بڑی خوش دلی کے ساتھ نواز بھی دے۔ ایسے میں احتجاج کرنا آپ کا حق بن جاتا ہے۔

لیکن آپ بھلے احتجاج کرتے رہیں، وہ بچہ تو اگلا جوڑا بنانے کی دھن میں نکل جاتا ہے اور دن میں نہ جانے کتنوں کے جوڑے بنا کر اور شادیوں کی دعائیں دے کر رات کو خود اپنی کمائی پر ناز کرتا ہے، پھر ایسے افراد پر خوب ہنستا بھی ہے جو اس کے ہاتھوں نفسیاتی اور جذباتی طور پر بلیک میل ہوئے۔

بس فقیروں اور ان کی دعاؤں سے بچیے، ورنہ کوئی نہ کوئی جوڑا آپ کا بھی چند پیسوں کے لیے بنا دیا جائے گا اور آپ بنانے والے کو دیکھتے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).