سلطنت سیاست کے مشہور شہر اور مقامات


سلطنت سیاست کے چند مشہور شہروں کا تعارف ذیل میں ہے۔

ٹیکس لا

تیزی سے پھیلتا شہر ”ٹیکس لا، مارشل لا سے بھی ڈراؤنی اصطلاح بن کر ابھرا ہے۔ اس شہر میں لوگوں پہ ٹیکس لاگو کرنے، خون نچوڑنے اور ٹیکس زنی کے جدید ترین ذرائع دریافت کیے جاتے ہیں تاہم ان ٹیکسوں کا غریبوں پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔ ایف بی آر اس شہر کا مرکزی خون آشام چوک ہے۔ ٹیکس دو قسم کے ہیں۔ بلا واسطہ اور بالواسطہ۔

اول الذکر تو لوگوں سے بذات خود یا ان کی تنخواہوں لے لیا جاتا ہے جبکہ مؤخر الذکر ٹیکس دیو مالائی قصوں سے کم نہیں۔ وہ یوں کہ کارخانے سے چیز کے باہر آنے سے قبل ہی یہ ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے۔ طویلے کی بلا بندر کے سر کے مصداق صنعت کاروں سے وصولے گئے ٹیکس سے سیدھی عوام کی جیب کٹتی ہے۔ اس ٹیکس کا متبرک نام سیلز ٹیکس ہے۔ اس شہر کے عام باشندے تواتر سے تھیلیسیمیا، انیمیا، دماغی تناؤ، جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ جوں جوں وقت کا پہیہ چلتا جاتا ہے اس شہر کی ”شر حدیں“ وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹیکسوں کی نت نئی ایجادیں اور دریافتیں لوگوں پہ جبر مسلسل کا تسلسل ہیں۔

انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، جنرل ٹیکس، ٹی وی ٹیکس، بچت اسکیمز ٹیکس، حج و عمرہ ٹیکس، ایکسائز ٹیکس، ٹال ٹیکس، سروس ٹیکس، کارپوریشن و میٹرو پولیٹن ٹیکس کی طویل ٖ فہرست جو گوادر اور کراچی کے ساحلوں سے ہو کر میدانوں، صحراؤں، دریاؤں، شہروں، قصبوں اور کوہساروں کو چیرتی ہوئی تا بہ خاک کاشغر ٹیکس زن ہے۔ شہر کی آبادی کو فائلر اور نان فائلر میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سنا ہے قبروں کے کتبوں پہ بھی فائلر اور نان فائلر کندہ کروانا ہو گا۔ ماضی میں عوام کو ٹیکسوں کی ادائیگی روکنے والے اب ہر فرد سے ہر قسم کا ٹیکس لینے کے درپے ہیں۔

لیا ہور

سلطنت سیاست کا قدیم اور تاریخی شہر ہے جس کا لغوی معنی something more یا ”کجھ ہور“ ہے۔ شاید اسی لیے پطرس نے کہا تھا کہ اس شہر کے اردگرد کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے چاروں طرف یہ خود ہی پھیلا ہوا ہے۔ آبادی اور ٹریفک کے دھواں دھار اضافوں سے ماحول حتیٰ کہ شام بھی دھواں دھواں سی ہوتی جاتی ہے۔ اہل ادب کا یقین ہے کہ میر تقی میر اسی جگہ کے بارے میں ’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘ ، والا سوال پوچھا کرتے تھے۔

مشہور ہے کہ جس نے یہ شہر نہیں دیکھ وہ ”جمیا ای نہیں“ ۔ اور اکثر کہا جاتا ہے کہ لیا ہور، لیا ہور ہے، تاہم اب اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ ”سموگ وی سموگ ای ہے۔ اس کے ابتدائی نام لوہ، لہور اور لوہاری گیٹ کی نسبت سے، لوہار“ بھی رہے ہیں۔ یہ شہر اپنے اندر لوگوں، کاروباروں اور دولت کو سمانے کی کمال اہلیت رکھتا ہے اور کھلے دل سے خوش آمدید کہتا ہے۔ اقتدار اور اختیار کے ارتکاز کا تخت بھی یہیں پایا جاتا ہے۔

عظیم صوفی بزرگ کا آستاں جہاں ہر خاص و عام کے لئے فیض عام ہے اور وہ گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک شریر دانش ور کے مطابق حضرت گنج بخش نے دو حکمران بھائیوں کو بھی قابل رشک ”گنج“ بخشا تاہم انہوں نے ناخن بڑھا کر گنج کی قدر نہ کی۔ مستزاد مصنوعی بال تک لگوا لیے۔ یاد رہے یہاں گنج سے مراد فارغ البالی ہرگز نہیں بلکہ اقتدار کے خزانے ہیں۔ مختلف کھیلوں کے کھلواڑ کے لئے اس شہر میں مشہور زمانہ گراؤنڈ ”قزاقی“ سٹیڈیم بھی موجود ہے۔ اس کے مشہور علاقوں میں اتھرا، ٹھوکر، مارشل ٹاؤن، جیل روڈ، جوہڑ ٹاؤن، یتیم خانہ، پاگل خانہ وغیرہ ہیں۔

این آر او وال (مفاہمت نگر)

یہ شہر انسانی، سیاسی اور جماعتی حقوق کے تحفظ کا علم بردار ہے۔ اس میں اوپر والوں کی رضا کی خاطر رسم عفو و درگزر نبھائی جاتی ہے۔ اس میں تکنیکی بنیادوں پر حریفوں اور دشمنوں کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کی دھلائی اور معافی کے بڑے بڑے کارخانے اور لانڈریز ہیں۔ اس شہر کی خاص بات وہ بہتی گنگا ہے جہاں ہر قسم کی بدعنوانی سے ”پوتر“ ہونے کے لئے اشنان کی سہولیات میسر ہیں۔ شہر کی وسیع وعریض اور طویل، شاہراہ مصلحت، عجوبے سے کم نہیں۔

اس پہ گامزن راہروان راہ سیاست بس دو چار سخت مقامات کے بعد منزل کو آ لیتے ہیں۔ اس شہر کا خفیہ کوڈ این آر او ہے۔ ایک رائے ہے کہ این آر او دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں مگر یہاں یہ حدود محض لینے والوں پہ لاگو ہیں۔ اس شہر کی خاص بات اس میں چلنے والی مشہور زمانہ ”سمجھوتہ ایکسپریس“ ہے جس پہ صرف چند مخصوص لوگ سفر کرنے کی اہلیت و طاقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا سفر کافی مہنگا ہے۔ یہاں کے معروف تانگے کچہریوں سے کم ہی خالی لوٹتے ہیں۔ یہاں ڈیل کرنے اور کروانے کے علوم و فنون کے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں اور ماہر ڈیلر بھی دستیاب ہیں جو بنی نوع سیاست کے لئے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں۔

انتقام آباد

تاریخ میں اس شہر کا بڑا نام ہے۔ شروع شروع میں اس کا نام اقتدار آباد ہوا کرتا تھا جو اب انتقام آباد میں بدل چکا ہے۔ شہر کے مشہور پانامہ چوک میں پانامہ کے تھیلوں سے لگ بھگ پانچ سو بلیوں کی برآمدگی کی باز گشت سنائی دیتی رہی تاہم ان کے گلوں میں گھنٹیاں حسب منشا ہی باندھی گئیں۔ الزامات، مقدمات اور سزاؤں کی قیامت خیز مارکیٹ ہے جس کے مرکز میں کالے پانی کی جھیل بھی ہے۔ اس شہر میں سازشوں کے جال، پھانسنے کے پھندے اور ریشہ دوانیوں کے ٹریپ بنانے کے شہرۂ آفاق کارخانے ہیں۔

پکڑ دھکڑ کی مشہور قومی منڈی بھی اسی شہر میں واقع ہے۔ اس مقام کے سب سے بڑے ہتھیار احتساب، غداری اور blasphemy ہیں۔ قیام سلطنت سے لے کر اب تک سرکاران حاضرہ اپنے سیاسی مخالفین اور سابق سرکاروں کے گناہوں کا حساب لیتی آئی ہیں۔ لہٰذا ہر سرکار ایک دبنگ ”متعصب اعلیٰ“ متعین کرتی ہے جو بد عنوان حریفوں کا تیا پائنچہ کرنے میں ملکہ رکھتا ہے۔ سو تاریخ گواہ ہے کہ اس شہر میں ہر دور میں انتقام کی آگ بھڑکی رہی اور ذمہ داران اس پہ مٹی ڈالنے کی بجائے آگ پہ کھڑے ہو کر خود بانسریاں بجاتے دیکھے گئے۔

اس طرز کی چھوٹی موٹی آتش زدگیاں تو معمول کا کام ہے۔ پوڈو، ایبڈو اور نیب اس شہر کے نمایاں علاقے ہیں۔ یہ عظیم الشان شہر سلطنت سیاست کا آئینی دارالحکومت ہے۔ یہاں قانون بنانے، منظور کروانے اور پھر دھجیاں اڑانے کی خاطر بہت بڑا قانون ساز ادارہ بھی ہے جسے عام لوگ ”اکھاڑلیمنٹ“ جبکہ پڑھے لکھے ”چارلیمنٹ“ کہتے ہیں۔ یہ اکھاڑلیمنٹ دو ایوانوں، متعدد اعوانوں اور کچھ معاشرتی و سیاسی حیوانوں پر مشتمل ہوتا ہے جو اکثر ڈیڑھ دو لاکھ کے عوض بنچ بجانے کے کام آتے ہیں۔

اس کے مستحق ممبران کے لئے نہایت سستی کینٹین بھی موجود ہے۔ یہاں کئی وزیر ہاضم اور کرائم منسٹر بسیرا کر چکے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کے دماغ قومی خزانے کی طرح ہمیشہ خالی رہتے ہیں۔ اس شہر سے دور بسنے والوں کو یہاں کے ڈھول بہت سہانے لگتے ہیں۔ یہ شہر تخت لگانے، تخت الٹانے، تخت گرانے اور تاج اچھالنے کی تقریبات کے حوالے سے عالم میں بے مثال ہے۔ یہ شہر ماہر درزیوں کی وجہ سے کافی مشہور ہے جو قلیل وقت میں آرڈر پہ کئی ”شیروانیاں“ سینے کی مہارت رکھتے ہیں۔

یو ٹرن سٹی

یہ شہر دریائے فور ٹوینٹی کے سراب زدہ کنارے پہ واقع ہے۔ اس میں مکر و فریب کی دلکش موٹر ویز اور ہوش ربا شارٹ کٹس ہیں۔ یہاں کے مکینوں کے مطابق وعدوں کی تکمیل مورکھوں کا چلن ہے جبکہ صفائی سے مکرنا دانش مندوں کا شیوہ ہے۔ اس شہر میں ہر بڑی شاہراہ پہ گاہے بگاہے یو ٹرن او ر اباؤ ٹ ٹرن کے فقید المثال شاہکار تعمیر کیے گئے ہیں۔

کما لیا

متمول، خوشحال بسیار خور اور شکم سیر باسیوں کا عالی شان مسکن کمالیا شہر ہے۔ اس میں بہت سارے گزشتہ و موجودہ حکمران، سول و ملٹری افسر شاہ، صنعت کار، پٹواری، کلرک، لوٹے اور بیت الخلائی مخلوق شامل ہیں۔ یہاں کے اکثر لوگ خالی ہاتھ دنیا میں آتے ہیں مگر سونے کا چمچہ منہ میں لئے مرتے ہیں۔ اپنی خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز کی کہنہ مشقیوں کی بدولت نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی آنے والی کئی پشتوں کے لئے تمول و عشرت کا سامان کر جاتے ہیں۔ اس مقام کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ شاہوں کے قصیدہ گو، ان کے مصاحب اور وفادار ہمیشہ ایسی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ سامراجی طاقتوں کے ادوار میں بھی اپنی دھرتی ماں اور اپنے لوگوں سے غداری پہ صاحبان جائیداد بنتے رہے۔ یہاں کا ہر فرد اوقات سے بڑھ کر کما لینے کی نیت اور صلاحیت سے مالا مال ہے۔

ڈیرہ قاضی خان

یہ عظیم الشان شہر عظمت، بزرگی اور طاقت کا منبع ہے جس میں جاتے ہوئے بڑے بڑے سورماؤں پہ لرزا طاری ہو جاتا ہے۔ یہاں مزاج یار کے مطابق لوگوں کو طلب کر کے سر تسلیم خم کرنے کے مراکز ہیں۔ شہر کے وسط میں ہتھوڑے کا پر وقار مجسمہ عوام کو ”از خود“ اپنی اہمیت کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ٹیکسوں کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت، پارلیمان کے قوانین کی مع پارلمنٹیرین دھلائی اور جملہ ریاستی و غیر ریاستی امور میں حسن کمال و حسن ظن کا مظاہرہ اس مقام کا طرہ امتیاز ہے۔

اس شہر کے گھریلو، اندرونی اور پیشہ ورانہ معاملات میں بلا کا جمود اور سکون ہے لیکن اس شہر کے باسیوں کی عقابی نظریں اپنے سوا تمام لوگوں پہ جمی رہتی ہیں۔ ان کے بارے میں آرا رکھنا قانوناً جرم ہے۔ یہاں اہل تخت کو بوقت ضرورت باآسانی تختہ دار تک بھی لایا جا سکتا ہے۔ ماضی کی ایک باعث ”افتخار“ ہستی نے اس شہر باوقار کو ہلچل، ہلا گلہ اور ایکشن سے روشناس کروایا جس کی بدولت وکلا، زبان درازی کے ساتھ ساتھ دست درازی میں بھی نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس شہر کا اہم ترین مقام، بالا کورٹ، ہے جہاں کی آب و ہوا بہ لحاظ لیاقت موافق و مخالف ہو سکتی ہے۔ ان علاقوں میں ”نظریہ ضرورت“ کی پیدائش پچاس کے عشرے میں ہوئی اور اب خیر سے نظریہ ضرورت تہتر ”خزائیں“ دیکھ چکا ہے۔ اس شہر کی عالیائیں، عظمائیں، خصوصیائیں اور دیوانیائیں بھی باہم جلنے سڑنے کے جذبات رکھتی ہیں۔

لارا لائی

سلطنت سیاست کا سب سے پرکشش، خوبصورت اورپرفریب شہر ہے۔ اس میں بیسیوں ہوائی قلعے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں۔ امداد، انعام، ترقی، انقلاب اور خوش حالی کے بلند و بالا وعدے اسے دیگر شہروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہاں کے تمام باشندے ہر وقت امید سے رہتے ہیں۔ اکثر لوگ چرب زبانی، رطب اللسانی اور خواب دیکھنے، دکھانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ دیوانے کے خواب بہت مقبول اور آسانی سے دستیاب ہیں۔ یہاں بے شمار جھانسی کی رانیاں اور جھانسے کے راجے اپنے پیشہ ورانہ کمالات میں مشغول کار رہتے ہیں۔

ہر گھر میں لارا لپہ کی صنعت موجود ہے۔ اس شہر کی خاص بات اس شہر میں پھیلے وسیع و عریض سبز باغات ہیں جو ہر رنگ میں قطار اندر قطار، بصورت سراب موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ مشہور کرکٹر برائن لارا کو بھی یہ شہر بڑا پسند تھا۔ یہاں کے تمام مرد و زن اور پیر و جواں لارے لگانے کی کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔

متنفر گڑھ

اقلیم سیاست کے اس مشہور شہر کی سب سے بڑی سوغات نفرت کی نہ ختم ہونے والی فصل ہے۔ یہ فصل دیگر فصلات کے برعکس بڑی آسانی سے کاشت کی جا سکتی ہے۔ اس کا بیج بو دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہر قسم کے حالات اور موسم میں ہری بھری رہتی ہے اور کسی خاص دیکھ بھال کی متقاضی نہ ہے۔ یہ وسیع مقدار میں دیگر قصبوں اور ہمسایہ ریاستوں کو ارزاں نرخوں پہ برآمد بھی کی جاتی ہے۔ یہاں کے تمام باشندوں کے دلوں اور دماغوں میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔

فی زمانہ نفرت کے پھیلاؤ کا فن ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ یہاں کی جملہ آبادی اس صنعت سے وابستہ ہو چکی ہے۔ شہر میں ہر طرف میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا کی شر سبز چراگاہیں ہیں جہاں عقل و خرد کے اندھے معاشرتی حیوان نفرت کی گھاس تواتر سے چرتے ہیں۔ یہاں آئے روز کھارے اور تیزابی پانی کے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں۔ بے شمار بے ہودہ کلمات عوام میں رائج ہیں جبکہ حکمرانوں کے ہاں سرکار کی رجسٹرڈ ( منظور شدہ ) گالیاں ہیں۔ اس مشہور شہر میں نفرت کو عام کرنے کے لئے بہت سے جدید کارخانے لگائے گئے ہیں جہاں مختلف نوعیت کے بے شمار ”کارڈز“ بنائے جاتے ہیں جن میں مذہب کارڈ، سیاست کارڈ وغیرہ اہم ہیں۔

میاں والی

وجوہات تسمیہ کے برعکس میاں والی شہر ”میاؤں“ کی بجائے خانان کا مسکن ہے۔ سیاست کے ساتھ فوک موسیقی بھی اس خطے کا طرۂ امتیاز ہے۔ سیاست میں، کسی کو نہیں چھوڑوں گا، اور موسیقی میں، تینوں لے کے جانا اے میانوالی، کی دھمکیاں خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ البتہ، خاناں دے خان پروہنے، جیسی لطیف باتیں بھی ملتی ہیں۔

ملک وال (سحریہ ٹاؤن )

یہ دیس کا جدید، ترقی یافتہ، انقلابی اور طلسماتی شہر ہے۔ اس کا سحر انگیز وجود پوری ریاست کو مسحور کیے رکھتا ہے۔ اس شہر کے شہر یار سے تعلقات سعادت کی علامت ہیں۔ یہاں کی سرکار احباب کو نوازنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس قدر نواز دیتے ہیں کہ اپنی تنگی داماں کا گمان ہونے لگتا ہے۔ پھر انسان اتنا عاجز ہو جاتا ہے کہ کسی سے آنکھ ملاتا ہے اور نہ زبان پہ قادر رہ پاتا ہے۔ یہاں بھوکوں کے لئے دستر خواں سجتے ہیں۔ صحافیوں کے لئے پلاٹ اور سیاست دانوں کے لئے گھر اور گاڑیاں دستیاب ہیں۔ متقی نوکر شاہوں کو غیب سے عمرہ و حج کی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں جبکہ زندہ دل حضرات یورپ و بنکاک کے ویزے پاتے ہیں۔ جرنیلوں کے حصے میں بینک بیلینس اور عوام کے بھاگوں عالیشان مسجدیں آتی ہیں۔

حریف مار خان

حریف مار خان ایک بڑا شہر ہے۔ متنفر گڑھ کے قریب ہونے کے باعث اس شہر کے باسی بھی انتہائی متلون مزاج ہیں۔ یہاں بھی نفرت، حقارت اور عدم رواداری کا راج ہے۔ متنفر گڑھ کی نسبت یہ شہر زیادہ خوفناک خصوصیات کا حامل ہے۔ یہاں اپنے سیاسی حریفوں کو محض رسوا اور بدنام کرنے پہ اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے وجود کو بھی عدم کرنے کے عملی اقدام ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس شہر میں ایک مخصوص مقام متعین تھا جسے ”لٹکانہ صاحب“ کہتے تھے۔

یہاں مخالفین کو لٹکا کر راستہ صاف کیا جاتا تھا۔ کہیں سڑکوں پہ گھسیٹنے کی دھمکیاں بھی چلتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ، ارتھ شاستر، اور دی پرنس نامی صحیفے اسی قصبے کے زعما پہ نازل ہوئے تھے۔ یہاں کے باشندے آنجہانی میکیاولی، کوٹلیہ، اعلیٰ حضرت ایڈولف ہٹلر، عزت مآب ہملر، مہاراج مسولینی، جہاں پناہ سٹالن اور خلیفہ بیریا سے سیاسی عقیدت رکھتے ہیں۔

عسکریوال

یہ شہرسلطنت سیاست کا مضبوط گڑھ اور حقیقی طاقت کا سر چشمہ ہے۔ جیپوں، ڈنڈوں اور بوٹ بنانے کے معیاری کارخانے اسی شہر میں ہیں۔ ان بوٹوں کا شجرۂ نسب جوتوں کے قدیم خاندان سے ملتا ہے۔ مختلف ادوار میں اسے کھسہ، ناگرا، چپل، سینڈل، گرگابی، کفش، پاپوش اورسلیپر کہا جاتا رہا۔ موجودہ بوٹ خالص چمڑے سے بنائے جاتے ہیں اور چمڑہ کھال سے حاصل ہوتا ہے جبکہ کھال ہر قسم کے جانداروں سے اتاری جاتی ہے۔ ڈنڈا پروری کی وجہ سے یہاں بننے والے ڈنڈے برائے فروخت نہیں بلکہ اپنی مرضی کے استعمال کے لئے مختص ہوتے ہیں۔

سیاسی بھونچال اور جھٹکوں کا موجب بننے والی پلیٹیں اسی شہر میں زیر زمین پائی جاتی ہیں۔ یہ سلطنت کا واحد شہر ہے جس میں ہمہ قسم ناجائز تجاوزات بھی جائز تصور کی جاتی ہیں۔ یہاں اقاموں، پاناموں، اثاثوں اور آئینوں کی بابت خصوصی استثناؤں کی لمبی لمبی سراؤں کو ثبات حاصل ہے۔ تمام اہم امور میں ہراول دستہ ہونے کی نسبت سے اس شہر کو ”ہراول پنڈی“ بھی کہتے ہیں۔ اس شہر کا سب سے اہم اور مشہور علاقہ ”خیابان مارشل“ ہے۔

یہ ایک لاجواب، لازوال اور بے مثال ٹاؤن ہے جس کے چوتھے دروازے سے اس خطے کے اہم علاقے، بالا کوٹ، جایا جا سکتا ہے۔ جس کی بنیادیں مائٹ از رائٹ اور سروائیول آف دی فٹیسٹ میٹیریل سے استوار ہیں۔ اس سرکار میں پہنچ کر سبھی ایک اور پھر نیک بھی ہو جاتے ہیں۔ یہاں کے باسی مضبوط اعصاب کے حامل ہونے کے باعث کسی سے ”ڈرتے ورتے“ نہیں ہیں۔ یہاں پوری ریاست سے سیاسی بچوں کو گود لینے کا رواج ہے جبکہ بغل بچوں کے حوالے سے بھی اس شہر کے دور دور تک چرچے ہیں۔

اس شہر کے حوالے سے ”فیض“ کی جاندار اصطلاح کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ یہ فیض کسی بھی فرد پہ اچانک وارد ہو سکتا ہے۔ اسی طرح یہی فیض ناگاہ بے فیضی کا شکار ہو کر کسی کو بھی خاک میں ملا سکتا ہے۔ شہر میں داخلے کے لئے بھی ”فیض آباد“ نامی خطے سے گزر کر ہی جانا ہوتا ہے۔ میاں محمد بخش نے بھی لفظ فیض کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ شہر کے ایک کونے میں کچھ تاریخی تھراپی سنٹرز بھی قائم ہیں جن میں دودھوں دھلوں کو دودھوں جلے اور دودھ جلوں کو دودھوں دھلے بنایا جاتا ہے۔ اس شہر کے ارد گرد بوقت ضرورت دو انتہائی اہم قصبے ( صادق آباد اور امین آباد ) آباد کر دیے جاتے ہیں اور پھر، بے وقت، ضرورت اجاڑ کر مقام عبرت بھی بنائے جاتے ہیں۔ سب سے نمایاں بات شہر کا صدر دروازہ ہے جس پہ جلی حروف میں یہ شعر کندہ ہے۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور ”یہاں“ ہوتا ہے۔
عظیم فلسفی شاعر اقبال کی دور بین نگاہوں نے بھی عروج ”آدم خاکی“ کا ذکر کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).