سینٹ الیکشن: آرڈیننس کی حقیقت


کوئی پسند کرے یا نہیں حکومت مگر یہ ثابت کرنے کو ڈٹ چکی ہے کہ وطنِ عزیز کا سیاسی بندوبست عمران خان صاحب کی خواہشات کے عین مطابق ہی چلے گا۔ آئینی شقیں اور رسوم وقیود اس تناظر میں محض ریت کی بنائی دیواریں ہیں۔پارلیمان کے ذریعے قانون سازی بھی لازمی نہیں۔صدر کے دستخطوں سے جاری ہوئے آرڈیننس سے کام چلایا جاسکتا ہے۔عمران حکومت کے سیاسی مخالفین کی نگاہ سے دیکھیں تو ’’لاڈلے کی من مانیاں‘‘ مادرانہ شفقت سے برداشت کی جارہی ہیں۔

معاملہ مگر اتنا سادہ نہیں ہے۔عمران خان صاحب اور ان کے جذباتی حامیوں کو یقین کامل ہے کہ ’’پرانے پاکستان‘‘ میں آئین اور قوانین’’ چورو اور لٹیروں ‘‘ کو معاونت فراہم کیا کرتے تھے۔ ’’اصولی اور صاف ستھری سیاست‘‘کو یقینی بنانے کے لئے کچھ ’’نیا‘‘ کرنا ہوگا۔1990کی دہائی سے ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے افراد کی اکثریت ’’بے ایمان‘‘ ہے۔وہ لاکھوں روپے خرچ کرنے اور ’’قیمے والے نان‘‘ کھلانے کے بعد منتخب ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔

وہاں پہنچنے کے بعد انتخاب کے دوران ہوا ’’خرچہ‘‘ پورا کرنے کے علاوہ آئندہ انتخاب لڑنے کے لئے بھی رقم کی تلاش میں رہتے ہیں۔ایوانِ بالا کے لئے ہوئے انتخاب اس ضمن میں رونق بھرا ’’سیزن‘‘ لگادیتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی قیادتیں سینٹ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ذہین ومحنتی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کے بجائے ان لوگوں کو نوازنے کو ترجیح دیتی ہیں جو ان کی عشرت بھری زندگی کے خرچے اٹھاتے ہیں۔کوئی مالدار شخص ان قیادتوں کو رام کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہ ’’آزاد‘‘ حیثیت میں سینٹ کے لئے منتخب ہونے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔سیاسی جماعتوں کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے لوگوں کے ساتھ براہِ راست سودے بازی کے ذریعے ایوان بالا میں پہنچ کر ’’معززوباوقار‘‘ ہوجاتا ہے۔

ووٹ کی خریدوفرووخت کی بابت پھیلائی جھوٹی سچی کہانیوں نے ہمارے پڑھے لکھے متوسط طبقے کی اکثریت کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں پر انتخاب خفیہ رائے شماری کے بجائے کھلے بندوں ہو۔سیاسی جماعتوں کو ہر صورت ان کے جثے کے مطابق حصہ ملے۔عمران خان صاحب ’’روایتی سیاست‘‘ کے خلاف اُبلتے غصے کو بھڑکاتے ہوئے ہی برسراقتدار آئے ہیں۔

سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی 48 نشستوں پر انتخاب کے دوران ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف اپنی جانب سے برپا کی جنگ کو بھرپور توانائی سے برقرار دکھانا چاہ رہے ہیں۔اسی باعث ہفتے کے روز ایک صدارتی آرڈیننس جاری ہوا ہے جس نے ’’نظامِ کہنہ‘‘ کے عادی سیاست دانوں اور مبصرین کو حیران وپریشان کردیا ہے۔آئین اور قانون کی نزاکتوں اور با ریکیوں سے نابلد مجھ جیسے صحافی یہ طے کرچکے تھے کہ آئین کے آرٹیکل 226میں ترمیم کئے بغیر سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی نشستوں پر ’’کھلا‘‘ انتخاب ناممکن ہے۔آئین میں ترمیم کے لئے تاہم پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔عمران حکومت کو یہ سہولت میسر نہیں۔ ’’اسی تنخواہ‘‘‘ میں گزرکرنا ہوگا۔

عمران حکومت تاہم ووٹ کی خریدوفروخت‘‘ روکنے کے مشن پر ڈٹ گئی۔اپوزیشن جماعتوں پر چھائے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو آئین میں ترامیم کے لئے مذاکرات پر مدعو کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے روبرو اپنی فریاد لے گئی۔ صدر مملکت کی وساطت سے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سے درخواست ہوئی کہ ماضی کی ’’گندی‘‘ روایات کو  ذہن میں رکھتے ہوئے ’’کھلے‘‘ انتخاب کی ہدایت جاری کی جائے۔حکومت کی فریاد پر سپریم کورٹ میں ابھی غور جاری تھا کہ حکومت آئین میں ترمیم کی تجویز لے کر قومی اسمبلی بھی چلی گئی۔

حکومت کی تجویز کردہ ترمیم پر سنجیدہ بحث مباحثے کے بجائے ایوان میں گالم گلوچ اور دھکم پیل کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ مجوزہ ترمیم پر ووٹنگ کے بغیرہی قومی اسمبلی کا اجلاس مزید ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لئے ’’اچانک‘‘ ختم کردیا گیا۔ حکومت اگرچہ چین سے نہیں بیٹھی۔ہفتے کے روز صدر کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے جو کھلے انتخاب کی راہ بناتا ہے۔قانون سازی کا مسلمہ اصول ہے کہ کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ’’اگر‘‘ کا استعمال نہیں ہوتا۔

ہفتے کے روز جاری ہوا آرڈیننس اس تناظر میں ’’تاریخی‘‘ہے کیونکہ اس میں سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے کی بابت ’’اگر‘‘ کا استعمال ہوا ہے۔فرض کیا کہ سپریم کورٹ بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ خفیہ رائے شماری سے وابستہ تمام تر قباحتوں کے باوجود کھلا انتخاب کروانا آئین میں ترمیم کئے بغیر ممکن نہیں تو حکومت کی بہت سبکی ہوگی۔حکومت کی فریاد مان لی گئی تو عدلیہ کی آزادی اور ساکھ کی بابت وسوسے پھیلائے جائیں گے۔ حکومت اس کے باوجود یہ پیغام دینے میں ہر صورت کامیاب رہے گی کہ سینٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر ووٹ کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے اس نے ہر ممکنہ قدم اٹھانے سے گریز نہیں کیا ۔

’’اصولی مؤقف‘‘ پرڈٹی رہی۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی ’’بیانیوںکی جنگ‘‘ کے یرغمال ہوئے سیاسی کھیل میں یہ ایک توانا ترین پیغام ہوگا۔ اس کی تکرار اپوزیشن جماعتوں کو ’’نظام کہنہ‘‘کے عادی ’’چور اور لٹیروں‘‘ کی صورت پیش کرے گی۔پراپیگنڈہ محاذ پر کامیابی وکامرانی کے جھنڈے بلند کرنے کے جنون میں مبتلا تحریک انصاف کے نورتن مگر یہ سمجھ نہیں پارہے کہ کھلے انتخاب کے لئے اپنائی ان کی ضد یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ عمران خان صاحب کو تحریک انصاف کی نشستوں پر بیٹھے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی نیت پر اعتبارنہیں رہا۔

ان کی مؤثر تعداد ’’خودمختار‘‘ ہونے کو بے چین ہے۔ اس تناظر میں پیغام یہ بھی پھیلے گا کہ ہفتے کے دن جاری ہوا ا ٓرڈیننس درحقیقت ووٹ کی خرید وفروخت روکنے کے لئے نہیں بلکہ حکمران جماعت میں ابھرتی حقیقی یامفروضہ ’’بغاوت‘‘ کے قلع قمع کی گھبراہٹ دکھاتی کوشش ہے۔ریاست کے دیگر ستونوں سے بھی اس تناظر میں معاونت کی درخواست ہوئی ہے۔صاف ستھری اور اصولی سیاست کے فروغ پر اپنے تئیں مامور تحریک انصاف ’’نئے پاکستان‘‘ میں یقینا حیران کن فیصلے کررہی ہے۔

کئی حوالوں سے اس کی جرأت داد کی مستحق ہے کیونکہ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے اس نے پارلیمان کے بجائے ریاست کے دیگر ستونوں سے بھی کھلے بندوں مدد مانگ لی ہے۔اپوزیشن جماعتوں میں موجود ’’کائیاں اور تجربہ کار‘‘ سیاست دانوں کا ہجوم اس کے ’’حسنِ کرشمہ ساز‘‘ سے ہکا بکا ہوگیا ہے۔اعلیٰ عدالت کے روبرو گڑگڑانے کے علاوہ اسے کوئی اور راہ نظر نہیں آرہی۔ عمران حکومت اپنی ضد اورترجیح کے مطابق سینٹ کی 48 نشستوں پر انتخاب کروانے میں کامیاب ہوگئی تو خفیہ رائے شماری کی ’’برکت‘‘ سے حیران کن نتائج دکھانے کے منصوبے ’’اُڑنے بھی نہ پائے تھے…‘‘ والے مخمصے کا شکار ہوجائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).