میں پنجابن، اردو کے ساتھ اپنے ملک میں کہیں اجنبی نہ تھی


مقام ایلیفینٹ روڈ دھان منڈی ڈھاکہ کا ایک خوبصورت گھر۔ وقت نومبر 1969ء کے آخری دن۔ اہتمام ملاقات میری یونیورسٹی فیلو کے بچے کی سالگرہ کی تقریب۔

مشکی رنگت والے امریکہ پلٹ ایک نوجوان جس کے بارے ابھی پتہ چلا تھا کہ مرکزی ڈائریکٹریٹ میں کسی اہم کلیدی پوسٹ پر ہے ، نے دفعتاً میرے قریب آ کر مجھ سے پوچھا تھا کہ میری مادری زبان اردو ہے یا پنجابی؟ میں نے جواباً پنجابی کہا۔

”یہ تو بتائیے ذرا۔“ نوجوان پوری طرح میری طرف متوجہ ہوا۔ ”آپ لوگوں نے اپنی زبان کو اپنے ہی ہاتھوں کیوں قتل کر دیا؟“ جملہ تلخ ہی نہیں تعصب کے زہر سے بھی بھرا ہوا تھا۔ بھونچکی سی ہو کر میں نے اسے دیکھا اور حیرت زدہ لہجے میں کہا۔

” آپ کا مطلب نہیں سمجھی؟“
”بھئی! اپنی زبان کی نشوونما کرنے کی بجائے ایک غیر زبان کی آبیاری جو کر رہی ہیں۔“
”غیر زبان!“

مجھے اپنا لکنت زدہ سا لہجہ آج بھی یاد ہے۔ میرے ہاتھ میں پکڑا کپ لرزا تھا۔ میرے چہرے پر غم و غصہ کا ایک سایہ سا لہرایا تھا۔ اپنی آواز میں تیزی میں نے خود محسوس کی جب میں بولی تھی۔

”معاف کیجیے گا، اردو کے لئے آپ نے غیر کا لفظ استعمال کر کے انتہائی تعصب کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ہماری اپنی زبان ہے۔ یوں اس کے ساتھ“ ہماری ”کی تخصیص کچھ موزوں بھی نہیں۔ یہ تو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس کی آبیاری کچھ پنجاب والوں نے نرالی نہیں کی، اسے تو بنگال نے بھی پروان چڑھایا ہے۔ ڈھاکہ نواب فیملی کیا پورے مشرق و مغربی بنگال کی اشرافیہ اردو ، عربی ، فارسی سے ناتا جوڑنے کو اپنا فخر خیال کرتی تھی۔ رابندر ناتھ ٹیگور سے بڑی مثال کیا پیش کروں۔“

اس وقت عمر کا چوبیسواں سال شروع تھا۔ ایک ایم اے کر چکی تھی اور ایڈمنسٹریشن کے ایک خصوصی کورس کے لیے یہاں آئی تھی۔ عقل و شعور میں اور دلیل میں نہ اتنی مہارت تھی اور نہ علم کی وسعت۔ بس اتنا سا ہی جواب دے سکی تھی۔

”آپ اردو بولتی ہیں اور اردو سے محبت کرتی ہیں۔ کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ آپ کس تہذیب کی نمائندہ ہیں؟ محترمہ! زبانیں تو قوموں کی تہذیب وثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔“

مجھے تپ چڑھ گئی۔ ”شاید اسی لیے آپ کی سنسکرت اور ہندی زدہ زبان یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ ابھی بھی ذہنی طور پر ہندوؤں کے غلام ہیں۔ آپ کی بنگلہ بھاشا کس کلچر اور تہذیب کی نشاندہی کرتی ہے؟“

ہوسٹل واپس آ کر بھی بہت تپتی رہی تھی۔ دراصل اپنی اس وقت کی زندگی تک میری ذہنی اور جسمانی اڑان فقط وسطی پنجاب کے چند شہروں تک ہی رہی تھی۔ مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے آنے والے اس خاندان کے گھر ایسی کسی سوچ کا کوئی دخل ہی نہیں تھا۔

گھر میں ٹھیٹھ پنجابی بولی جاتی۔ مگر گھر کی مڈل میٹرک اور پرائمری پاس عورتیں جو زیب النسا ، حور، بتول اور عفت پڑھتیں۔ سردیوں کی راتوں اور گرمیوں کی دوپہروں میں یہ عورتیں بڑے کمرے میں اپنی چوپال لگاتیں۔ چھوٹی خالہ افسانہ پڑھنے سے داستان گوئی کا آغاز کرتیں۔ کہانی ختم ہونے پر تبصرے کرداروں پر حاشیہ آرائیاں ہوتیں۔ رونے دھونے اور قہقہے لگانے کا عمل بھی ہوتا۔ تب کبھی کسی کے ذہن میں یہ فضول سا خیال تک نہیں آیا کہ کہانی اردو میں ہے۔

اس ماحول میں اردو کے لیے غیریت نام کے ہر لفظ سے میری شناسائی نہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی۔ چھوٹی خالہ دسویں جماعت میں۔ ایک دن جب مجھے چھٹی ہو گئی پر ان کی ایکسٹرا کلاس ہو رہی تھی۔ میرے لیے ان کا انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے زوردار آواز میں ہانک لگائی۔ ”ماسی میں کھر چلی آں۔ مینوں بوت پکھ لگی آ۔“ پوری کلاس کا قہقہہ مجھے پورے برآمدے میں اڑتا پھرتا محسوس ہوا تھا۔ مجھے ڈر بھی لگا کہ کہیں چھوٹی خالہ نے اپنی بے عزتی نہ محسوس کی ہو، مگر نہیں۔ انہوں نے تو گھر آ کر مزے سے یہ قصہ سب کو سنایا۔ سچی بات ہے میں تو دوسری جماعت سے کہانیاں پڑھنی شروع ہو گئی تھی اور چوتھی جماعت تک وینس، بغداد، شام، مکہ، مدینہ اور کوہ قاف کی دنیائیں میرے خوابوں میں تھیں۔

ٰ ایسی سوچوں سے پہلی شناسائی تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں جا کر ہوئی۔ بعد ازاں یہ سوچ اور نعرہ باری یہاں بھی سننے کو ملنے گی۔ پنجابی زبان کا نعرہ لگانے والے اس کے لیے کتنے مخلص تھے۔ یہ سب کوئی ڈھکی چھپی چیزیں نہیں تھیں۔ کتنے اس پر اپنی دکانداری چمکا رہے تھے۔ اور اس پہلو سے اکثر آنکھیں بند کر لیتے تھے کہ پنجاب کے کلچر کو کسی نے اگر نقصان پہنچایا ہے تو وہ اردو نہیں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی ہے۔

ایسی ہی ایک تقریب میں جہاں فخر زمان کرسی صدارت پر متمکن تھے اور پنجابی کے پیارے دھواں دار بول رہے تھے۔ میں سٹیج پر آئی تھی۔

سچی بات ہے مجھے تو کبھی یہ احساس نہیں ہونا تھا اگر میں اپنے ملک کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان نہ گئی ہوتی۔

چلاس سے خوست تک۔ بلتستان اور چترال کی پائین و بالا وادیاں۔

میں بے دھڑک گھروں کے اندر گھس گئی تھی۔ زنان خانوں کے اندر۔ جہاں ان کے کلچر اور تہذیبی رکھ رکھاؤ سے آشنائی صرف اور صرف میری اس قومی زبان کی مرہون منت تھی۔ بڑے قصبات میں سمجھنے سمجھانے کا تھوڑا بہت فہم اردو زبان سے آشنائی کا مرہون تھا کہ عورتیں اس زبان میں تھوڑا بہت اظہار کرہی لیتی تھیں مگر چھوٹی جگہوں اور وادیوں میں گھروں کی عورتیں کہیں شینا بول رہی ہیں، کہیں بروشسکی، کہیں وخی، کہیں کھوار اور کہیں بلتی۔

وہاں وہ سکولوں میں پڑھنے والے چھوٹے بچے میرے اور اپنی ماؤں کے درمیان ترجمان بنے ہوئے تھے۔ زیارت اور چمن کی وادیوں میں بھی یہی صورت تھی۔ میں نے جی داری سے کہا تھا میں اپنی قومی زبان اردو کے ساتھ اپنے ملک میں کہیں بھی اجنبی نہیں تھی۔ اور یہ بھی کہہ دیا کہ لوگ معلوم نہیں کسے بیوقوف بناتے ہیں قوم کو، خود کو یا لوگوں کو۔ وقت نے جو چیلنجز سامنے کھڑے کر دیے ہیں۔ ان میں ترجیحات بہت بدل گئی ہیں۔ ثقافتی سطح پر کوئی قوم کتنی امیر ہے۔ یہ پہلو ہرگز اتنا اہم نہیں رہا جتنا یہ کہ وہ اکانومی کے اعتبار سے کہاں کھڑی ہے؟ چینی کس والہانہ انداز میں انگریزی سیکھ رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو چیں جا کر ہی ہوتا ہے اور ہم ہیں کہ ہر چیز کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).