مودی فسطائیت مکار گودی میڈیا اور پرامن کسان تحریک


لکھنا مجھے کسی اور موضوع پر تھا۔پیر کی صبح چھپے کالم کو لیکن سوشل میڈیا پر پوسٹ کررہا تھا تو علم ہوا کہ بھارتی وزیر اعظم اپنی پارلیمان کے ایوان بالا سے خطاب کر رہا ہے۔تھوڑی دیر سننے کو مجبور ہوگیا۔نریندر مودی کی تقریر واضح طورپر یہ پیغام دے رہی تھی کہ وہ کافی ڈھیٹ اور تجربہ کار سیاست دان ہونے کے باوجود اپنے ملک کے Imageکے بارے میں پریشان ہوگیا ہے۔

بھارتی کسانوں کی جانب سے چلائی احتجاجی تحریک نے عالمی سطح پر مشہور ہوئی ایک گلوکارہ کی توجہ بھی حاصل کرلی۔ اس نے کسانوں کی حمایت میںچند ٹویٹس لکھے تو ہندوانتہاپسندوں کی سپاہ ٹرول اس کا مکوٹھپ کرنے کو ڈٹ گئی۔ان کی بیہودہ گوئی نے ماحولیات کے حوالے سے ٹرمپ کو متھا لگانے والی کم سن Gretaکو بھی متحرک بنادیا۔ریحانہ اور گریٹا کے لکھے ٹویٹس کے ردعمل میںبھارتی قوم پرستوں نے رعونت سے دُنیا کو یاد دلانا شروع کردیا کہ وہ ایک قدیم تہذیب اور خودمختار ملک ہیں۔بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے فن کاروں اور انسانی حقوق کے محافظوں سے انہیں لیکچر سننے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کے ’’اندرونی معاملات‘‘ میں مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ ’’عالمی گائوں‘‘ کہلاتی آج کی دُنیا میں بھارتی ’’دانشوروں‘‘ کا ’’بیرونی مداخلت‘‘کے خلاف ایسا واویلا حیران کن تھا۔

1950کی دہائی سے بھارت اپنے نام نہاد Soft Imageکی بہت ذہانت اور مہارت سے مارکیٹنگ کرتا رہا ہے۔لاٹھی ٹیکتے گاندھی کی تصاویر اور اس کی عدم تشدد والی تحریک نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سرد جنگ کے دنوں میں کمیونسٹ بلاک کا لاڈلا ہوتے ہوئے بھی بھارت خود کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی حیثیت میں اجاگر کرتا رہا۔

اس کا دعویٰ رہا کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے چمپئن ہونے کے دعوے دار امریکہ کے قریبی اتحادی مارشل لائوں یا شہنشاہیت کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ وہاں کے شہریوں کا کوئی والی وارث نہیں۔بھارت میں اس کے برعکس جمہوری عمل تمام تر توانائی سے بروئے کار ہے۔ سرد جنگ کے اختتام کے بعد بھارت نے اپنے متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد کی طرف توجہ دلانا شروع کردی۔انٹرنیٹ کی بدولت اس نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر گرفت کے ڈھول بجائے اور تاثر یہ پھیلایا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لئے چین کے مقابلے میں ایک جاندار اور ’’انسان دوست‘‘ ماڈل کی صورت اُبھرسکتا ہے۔

گزشتہ صدی کے اختتامی ایام میں لیکن ہندوانتہاپسندی نے بھارت میں ’’جمہوریت‘‘ کی وہ شکل بھی دکھانا شروع کردی جو درحقیقت ’’اکثریت‘‘ کے مذہبی تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے حکومتوں کو فسطائی بنادیتی ہے۔نوجوانی میں ہندوانتہاپسندی کے پرچارک رہے نریندر مودی نے اس صدی کا ا ٓغاز ہوتے ہی واضح طورپر اس فسطائی سوچ کو اقتدار پر کامل گرفت کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔اس کے ریاستی نظریات کی بنیادوں پر توجہ دینے کے بجائے تاہم عالمی میڈیا نریندرمودی کی سربراہی میں بھارتی صوبہ گجرات میں نام نہاد ترقی اور گڈگورننس کو یقینی بنانے والے ماڈل کے ڈھول بجانا شروع ہوگیا۔

اس ماڈل کی اصل حقیقت دُنیا کے روبرو 2019کے بھارتی انتخابات کے بعد اجاگر ہونا شروع ہوئی ہے۔شہریت والے قانون نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس کے خلاف بھارتی طلباء کی کثیر تعداد اور کچی آبادیوں میں مقیم مسلمانوں نے تاریخ ساز دھرنے دئیے۔ ہندوانتہا پسندی نے مگر جھکنے سے انکار کردیا۔ 5اگست 2019کے روز سے مقبوضہ کشمیر کو پہلے ہی دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں بھی تبدیل کردیا گیاتھا۔ کرونا کی وباء نے تاہم صحت عامہ کو دور ِحاضر کا بنیادی مسئلہ بنادیا۔

مودی سرکار کو اطمینان تھا کہ وباء کے تدار ک کے لئے ویکسین کی وسیع پیمانے پر تیاری کے حوالے سے وہ بالآخر صف اوّل کا ملک قرار پائے گا۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کی بدولت تیار ہوئی ویکسین اس کے دواساز اداروں نے Testingکا عمل مکمل ہونے سے کئی ماہ قبل ہی لاکھوں کی تعداد میں بنانا شروع کردی تھی۔ اسے صحت کے عالمی اداروں نے مؤثر قرار دیا تو بھارت نے کئی ممالک کو یہ دوا ’’خیرات‘‘ کے طورپر فراہم کرنا شروع کردی۔ ایسا کرتے ہوئے اسے گماں تھا کہ کرونا سے گھبرائی دُنیا میں اس کی واہ واہ ہوجائے گی۔وہ اپنے Soft Imageکے حوالے سے بلند تر مقام پر پہنچ جائے گا۔

تقریباََ تین ماہ قبل لیکن بھارتی پنجاب میں کسانوں کی احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ مودی سرکار نے انتہائی عجلت میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایسے قوانین متعارف کروائے جو کسان کو ’’مارکیٹ اکانومی‘‘ کی برکتوں سے مالا مال کرنے کے دعوے دار ہیں۔طلب اور رسد کے حقائق پر زور دیتے ہوئے فیصلہ ہوا کہ بھارتی کسان کو حکومتی معاونت سے سستی بجلی،ڈیزل اور کھاد وغیرہ دستیاب نہیں ہوں گے۔ایسی Inputsکو رعایتی قیمتوں پر فراہم کرتے ہوئے 1960کی دہائی سے بھارتی سرکار یقینی بنارہی تھی کہ کسانوں کی اُگائی فصلوںکو وہ ازخود خرید کر ذخیرہ کرے گی۔

بھارت جہاں 1960ہی کی دہائی میں متعدد بار قحط سالی نمودار ہوئی تھی مذکورہ پالیسیوں کی وجہ سے غذائی پیداوار کے تناظر میں کامل خودمختار ہوگیا۔فیصلہ اب یہ ہوا کہ بہت ہوگئی۔کسان مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق زراعت کو ’’جدید تر‘‘ بنائیں۔اس ضمن میں جو اور جتنا لگائو اتنا کمائو والا ماحول بنایا جائے۔کسانوں نے مگر اصرار کیا کہ زراعت سے خود کو لاتعلق کرتے ہوئے بھارتی سرکار درحقیقت انہیں اپنی پسند کے سیٹھوں اور آڑھتیوں کے رحم وکرم پر چھوڑرہی ہے۔

خدشات یہ بھی اُبھرے کہ اگر مارکیٹ ہی بالا دست ٹھہری تو گھروں تک آپ کی ضرورت کی اشیاء پہنچانے والی Amazonجیسی عالمی اجارہ دار کمپنیاں بھارت کو بھی اپنی گرفت میں لے لیں گی۔

بھارتی میڈیا ’’عالمی رحجانات‘‘ اور معیشت کو ’’جدید تر‘‘ بنانے کے پیغامات کے ساتھ فقط اپنے ہاں کے شہری متوسط طبقے کو گریدہ بنائے ہوئے ہے۔اس نے لاکھوں کسانوں کے دلوںمیں اُبلتے ہوئے خدشات کو توجہ کے قابل ہی نہیں سمجھا۔مودی سرکار اور اس کے ’’گودی میڈیا‘‘ کی بے اعتنائی سے اُکتاکر کسانوں نے دہلی تک مارچ کا فیصلہ کیا اور اپنے مطالبات کی منظوری تک وہیں دھرنادے کر بیٹھنے کا عہد باندھ لیا۔چونکہ احتجاجی تحریک کا حقیقی آغاز بھارتی پنجاب سے ہوا تھا اس لئے ’’گودی میڈیا‘‘ نے کمال مکاری سے قطعی معاشی بنیادوں پر اُبھری تحریک کو ’’خالصتانی تخریب کاری‘‘ بناکر دکھانا شروع کردیا۔

یہ مکاری مگر کام نہیں آئی۔کسانوں کی تحریک میں اب ہریانہ اور یوپی کے لاکھوں ہندوجاٹ بھی شامل ہوچکے ہیں۔وہ انتہائی پرامن اور منظم ہیں۔دومہینوں سے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں اور دُنیا کو اپنی استقامت سے متاثر کررہے ہیں۔مودی سرکار مگر ان کے دئیے ’’پیغام‘‘ کو ہر صورت کچلنے کی ضد میں مبتلا ہوگئی۔کسان تحریک کی بابت رپورٹنگ کرنے والے ’’غدار اور تخریب کار‘‘ ٹھہرائے گئے۔ان کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمات بھی درج ہوئے۔گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہائی ناممکن بنادی گئی۔ ان اقدامات نے بھارتی جمہوریت کی اصلیت اور کھوکھلے پن کو قطعاََ بے نقاب کردیا ہے۔نریندر مودی کی پیر کے روز راجیہ سبھا میں ہوئی تقریر مذکورہ تناظر میں Damage Controlکی ایک بھونڈی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔

یہ حقیقت بھی عیاں تھی نریندرمودی کا مخاطب یا Target Audience امریکہ کی نئی انتظامیہ ہے۔ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن اپنے ملک کو ’’جمہوریت‘‘ کا حقیقی محافظ او رپرچارک ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔مودی سرکار کے موجودہ چلن کی وجہ سے اس کا نریندر مودی سے جپھیاںڈالنا ممکن نہیں۔محض تقریروں سے کام نہیں چلے گا۔ٹھوس اقدامات لینا پڑیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).