عنوان کا فساد


شوقیہ لکھاری جن کا اخبارات اور جرائد میں مدیران سے واسطہ نہیں پڑتا، بسا اوقات اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی تحریر کا عنوان کیوں بدلا گیا ہے۔
ہم سب کی مضمون بھیجنے کی گائیڈ لائن میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے
“یاد رہے کہ مضمون کا عنوان لگانا، تحریر میں موجود غلطیاں درست کرنا، غیر مہذب یا غیر اخلاقی مواد کو حذف کرنا، ایسا مواد جو کہ ادارتی پالیسی کے خلاف ہو، اسے حذف یا تبدیل کرنا اور بات کو واضح کرنے کے لئے متن میں تبدیلی کرنا، کسی بھی ایڈیٹر کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر آپ ایڈیٹر کے اس اختیار سے متفق نہیں ہیں تو، براہ کرم اپنا مضمون کسی اور جگہ شائع کرنے کے لئے بھیجیں، ہم اسے شائع کرنے سے قاصر ہیں۔”
یہ گائیڈ لائن ہماری ویب سائٹ پر بھی موجود ہے اور مضمون موصول ہونے کی صورت میں مصنف کو بھی ایمیل کی جاتی ہے۔
مدیر مختلف معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ تحریر کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس کی ریڈر شپ کیسے بڑھائی جا سکتی ہے۔ اچھے ادارے مدیر کے فلٹر سے گزارے بغیر تحریر شائع نہیں کرتے ورنہ وہی حال ہوتا ہے جو آپ بریکنگ نیوز والے ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں۔
تحریر پر نظرثانی کے علاوہ اس ادارت کے کچھ دوسرے فائدے بھی ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی وجہ سے ادارہ اور مصنف عدالتی ہرجانوں سے بچ سکتا ہے اور اور پاکستان جیسے ممالک میں جان تک جانے سے۔ مصنف کی بعض فاش غلطیاں بھی درست ہو جاتی ہیں۔
ماہانہ قسم کے جرائد یا ایسے اخبارات میں جہاں ادارتی صفحے پر لکھنے والے آٹھ دس ہوں، عنوان اور متن کی کچھ اہم تبدیلی مصنف سے ڈسکس کی جا سکتی ہے۔ اس کے مدیر نے روز کے کتنے فون یا میسیج کرنے ہوں گے؟ محض ایک دو۔
ہم سب جیسے ادارے میں جہاں مدیر دن کے پچاس پلس مضامین شائع کرتا ہے، یہ ممکن نہیں ہوتا ورنہ کام کا اتنا ڈھیر لگ جائے گا کہ اسے نمٹانے کے لیے ایسے مضامین مسترد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
آج کل میں ادارت میں زیادہ وقت نہیں لگا رہا، بیشتر کام وجاہت مسعود کر رہے ہیں۔ عموماً ان کے لگائے ہوئے عنوانات کی وجہ میری سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ادارہ ہم سب پر عنوانات کو ڈیجیٹل میڈیا کے میڈیم پر بہتر انداز میں لگانے کے اصول میں نے ہی وضع کیے ہیں ورنہ 2016 کے وجاہت مسعود کا دور دیکھیں تو عنوانات بہت ادبی رنگ لیے ہوتے تھے۔
لیکن اب بھی بعض اوقات میں بھی وجاہت صاحب کا عنوان سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہوں۔ وجہ میرا محدود مطالعہ ہے۔ پچھلے دنوں ایک ایسے ہی عنوان کی مصنف کی جانب سے مجھ سے جواب طلبی ہوئی تو میں جواب دینے سے قاصر تھا، وجاہت صاحب سے پوچھا، وہ اس وقت کام میں ناک تک ڈوبے ہوئے تھے، مختصر سا جواب ملا کہ “اردو ادب کا مطالعہ کیا کریں”۔
لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ بیشتر عنوانات صرف اور صرف مضمون کے متن سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
تو عرض یہی ہے کہ اگر کسی جگہ مضمون بھیج رہے ہیں تو مدیر پر اعتبار کر لیا کریں۔ کہیں مدیر ناقابلِ اعتبار ہوں تو وہاں مضمون ہرگز مت بھیجا کریں ورنہ پریشان ہوں گے۔ اور عنوان وغیرہ اگر کسی وجہ سے آپ کو بہت ہی زیادہ پریشان کن نہ دکھائی دے تو اس پر صبر کر لیا کریں۔
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar