اولڈ راوینز یونین کے انتخابات اور ہمارے سیاسی رویے


گورنمنٹ کالج لاہور میں پچھلی تین یا چار دہائیوں سے طلبا یونینز پر پابندی ہے۔ یوں تو یہ پابندی تمام تعلیمی اداروں میں ہے۔ مگر سر دست معاملہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے متعلق ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیاست پر پابندی کے باوجود اس ادارے کی فضا سے سیاست کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ سیاست کے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اب ایک راہ یہ نکالی گئی ہے کہ ہر سال اولڈ راوینز یونین کے انتخابات ہوا کریں۔ اولڈ راوینز یونین یہاں سے فارغ التحصیل طلبا کی ایک تنظیم ہے۔ اس کے انتخابات میں امیدوار اور ووٹر کا اولڈ راوین ہونا ضروری ہے۔

پاکستان میں بالعموم اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلبا سے بالخصوص تعلیمی اداروں میں سیاست پر بات کریں تو شاید وہ اس کی مخالفت کریں اور اس مقدمے کے دلائل بھی وہی ہوں جو ایک عرصے سے تعلیم کو سیاست سے الگ کرنے کے لیے دیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً طلبا کو تمام تر توجہ اپنی تعلیم پر دینا چاہیے۔ سیاست میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ لوگ تقسیم ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کا وقار مجروح ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ اولڈ راوینز یونین کا الیکشن جو اب تواتر سے ہو رہا ہے، سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟ اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبا کی فیس بک وال پہ جائیے تو کسی نہ کسی امیدوار یا گروہ کی حمایت میں ووٹ اور سپورٹ کی ریکویسٹ کے ساتھ پوسٹر لگا ہو گا۔ انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ امیدوار اور ان کے ساتھی روز گھنٹوں فون اور فیس بک پہ صرف کرتے ہیں۔ آئے روز دعوتیں ہو رہی ہیں۔ تعلقات اور یاریوں کی بنیاد پہ ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

یار فلاں بندہ، فلاں کی بات نہیں ٹال سکتا۔ اسی سے کہلواؤ کہ ووٹ مجھے دے۔ نہیں بھائی۔ وہ فلاں اور فلاں کا تعلق بہت پرانا ہے، وہ ہمیں ووٹ نہیں دے گا۔ یا پھر فلاں میرے علاقے اور برادری کا ہے، اس کا ووٹ کہیں اور نہیں جانا چاہیے۔ یہ سب کچھ ہم اپنی ذاتی زندگی میں کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی عام سی بات ہو۔ بس یہی تعلق، یاری دوستی اور برادری اگر قومی سیاست کا رخ متعین کرے تو ہم سارے سیاست کو گالی دینے بیٹھ جائیں گے۔ تب ملک کی محبت بھی سامنے آ جائے گی اور قومی سوچ کے فقدان کا ماتم بھی شروع ہو جائے گا۔

ذرا غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اس طرح کا سیاسی عمل محض تعلیمی اداروں تک محدود نہیں۔ آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیے۔ وہاں پر سیاست کی یہ شکل آپ کو ضرور ملے گی۔ اکثر اداروں میں ایک آدھ یونین ہو گی۔ اس کے انتخابات بھی ہوں گے۔ اور انتخابات کے محرکات اور طریقہ کار تقریباً یہی ہوں گے۔ کیا افسر، کیا چھوٹا ملازم ہر آدمی اپنی استطاعت اور مفادات کے حساب سے ان میں حصہ لے گا۔ مخالفین کے زچ کرنے اور اپنے ووٹر کو خوش کرنے کے طریقہ ہائے کار بھی وہی ہوتے ہیں جو سیاست میں بالعموم استعمال ہوتے ہیں۔

سیاست کسی بھی طرح سے طاقت اور وسائل پر تصرف حاصل کرنا اور اس مقصد کے لیے اجتماع کرنے کا نام ہے۔ سیاست کی اس تعریف کے مطابق اولڈ راوینز یونین کے انتخابات اور اکثر سرکاری اداروں میں ہونے والے انتخابات بالیقین سیاست کا حصہ ہیں۔ اور اس میں وہی حربے استعمال کیے جاتے ہیں جو اس سیاست میں استعمال ہوتے ہیں جسے ہم صبح شام گالی دیتے ہیں۔

اولڈ راوینز کے انتخابات میں کسی امیدوار کے پاس کوئی نام کا بھی منشور نہیں۔ راقم کو کم سے کم چار سے پانچ امیدوار ووٹ کا کہہ چکے ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں مہم تیز کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ کسی نے یہ تک نہیں بتایا کہ اس کا اس ادارے کی بہتری کے لیے لائحہ عمل کیا ہو گا۔

آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہبی یا سیاسی فکر سے ہو، اگر آپ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے پڑھے ہیں تو آپ کو اس کے گرتے ہوئے معیارات پر تشویش ہو گی۔ ادب، سماج، سیاست، تاریخ اور فلسفہ کے مباحث یہاں کا خاصہ رہے ہیں۔

پچھلی کچھ دہائیوں سے گورنمنٹ کالج نے اپنی اس طاقت کو کمزوری میں بدلا ہے۔ اسی طرح یہاں کے پرانے طلبا تدریس کے گرتے ہوئے معیارات پر بھی اکثر نالاں رہتے ہیں۔ اولڈ راوینز یونین کے انتخابات میں ان مسائل کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ اور امیدواروں نے اپنے ووٹرز کو ایسا کوئی پلان دیا بھی نہیں جس میں ان مسائل کا کوئی حل تجویز کیا گیا ہو۔

غور کریں تو اولڈ راوینز یونین کے انتخابات ہمارے عمومی سیاسی رویوں کے عکاس بھی ہیں۔ یہ وہی سیاسی رویے ہیں جن پر بات کرتے ہوئے ہم برہم ہو جاتے ہیں۔ آخر قومی سیاست کا خمیر کہیں باہر سے تو نہیں اٹھایا جاتا۔ ہم جن معیارات کو قومی سیاست میں برداشت نہیں کرتے، ان کو اپنی ذاتی زندگیوں میں کیسے سہ جاتے ہیں؟

آپ دیکھیے گا کہ ہم میں سے اکثریت کسی نہ کسی طرح سے سیاسی عمل کا حصہ بنتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سیاست سے بالذات کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یا تو یہ ہو کہ ہم بنیادی انسانی جبلتوں سے انکاری ہو جائیں اور ہر طرح کی سیاست کو بند کر دیں۔ اس ملک کی آدھی سے زیادہ تاریخ فوجی آمریتوں کی ہے۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان سے بھی یہ کام نہ ہو سکا۔ اگر یہ کبھی ممکن ہی نہیں ہوا تو سیاست کو گناہ نہ بننے دیا جائے اور اس کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ اس میں نظریات پر پابندی نہ ہو۔ جو چاہے آئے۔ بائیں اور دائیں بازو کی کوئی قید نہ ہو۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سیاست ہر جگہ ہوتی بھی ہے لیکن اس کی حدود چند طاقتور گروہوں کے ذریعے متعین کر دی جاتی ہیں۔

مسئلہ سیاست سے نہیں ہے۔ وہ تو ہمیشہ ہی ہوتی آئی ہے۔ مسئلہ ایک خاص سیاست سے ہے۔ بیر ایک ایسی سیاست سے ہے جو شہری حقوق اور بنیادی آزادیوں سے منسلک ہو اور سماج اور اس کے مختلف اداروں میں طاقت کی تقسیم میں کوئی توڑ پھوڑ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).