لاکھوں غریب عورتوں کی کتھا


چند برس پہلے میں پاکستان میں جن خاتون کے ہاں مقیم تھا وہ مطلقہ تھیں۔ ان کے گھر کی دونوں خاتون ملازماؤں کو بھی فارغ خطی مل چکی تھی۔ ان کی رفقائے کار خواتین میں سے ایک بیوہ تھی جو جوانی میں ہی بیوہ ہو کر اپنے بچے پالنے کے جتن کرنے لگی تھی اور دوسری نے اپنے شوہر سے اپنا چھینا ہوا بچہ واپس لینے میں جوانی بتا دی اور بچہ لے کر کم از کم ایک جانب سے مطمئن ہو سکی۔

ایسی بات نہیں کہ یہ کوئی نسائیت پرست خواتین کا گروہ ہے۔ دراصل یہ پاکستان کے بدلتے ہوئے سماجی رجحانات کا پرتو ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ضروری نہیں شوہروں سے جدا ہونے والی خواتین پڑھی لکھی ہی ہوں۔ وہ کم پڑھی لکھی بھی ہیں اور ان پڑھ بھی۔ ایسی خواتین کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔

کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جن کا ”مائیکروفنانسنگ“ سے تعلق تھا۔ جب ملک میں عورتوں کی تنہائی اور بیچارگی پہ بات چلی تو انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربے کی بنا پر تصدیق کی کہ پاکستان کے شہروں اور قصبوں میں تنہا ماؤں اور مطلقہ خواتین دونوں کی ہی تعداد میں آئے برس اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

س کی عمر چھبیس برس ہے۔ اس کی دو بچیاں ہیں ایک ساڑھے چھ سال کی ایک پانچ سال کی۔ اپاہج باپ اور خانہ دار بوڑھی ماں بھی ہے۔ وہ چار ہزار ماہانہ پر گھریلو ملازمہ ہے اور صبح ساڑھے دس بجے سے سہ پہر تین بجے تک کام کرتی ہے۔ وہ انیس برس کی تھی کہ اس کی ایک شخص سے شادی کر دی گئی جو کاریگر تھا۔ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد اس نے بیوی کو سب و شتم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ وجہ یہ بتاتا تھا کہ اسے کسی اور سے پیار تھا۔ اس کے والدین نے اس کی زبردستی شادی کر دی۔ سردیوں میں بیوی کو مار کر کمرے سے نکال دیتا تھا اور خود دروازہ بند کر کے سو جایا کرتا تھا۔ محبوبہ کی یاد بھلانے کی خاطر منشیات کا بھی استعمال کرتا تھا۔ اس اثناء میں دو بچیاں ہو گئیں۔ تشدد میں مزید اضافہ ہوا کہ تم نے بیٹا کیوں پیدا نہیں کیا۔

یہ خاتون قبول صورت ہے مگر بقول اس کے جس لڑکی سے اس کا سابقہ شوہر پیار کرتا تھا وہ خوبصورت تھی۔ ایک عرصہ یہ اس کے ظلم سہتی رہی اور صبر کیے رہی کہ غریب باپ اور بیروزگار بھائیوں پر اپنی بچیوں سمیت بوجھ نہ بنے۔ مگر تا بہ کے، صبر جواب دے گیا۔ وہ میکے آ گئی اور طلاق کا مطالبہ کر دیا، جو کہیں ڈیڑھ سال بعد پورا ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بچیوں پر سوتیلا باپ مسلط نہیں کرے گی اور خود محنت کرے گی۔

اس سے پوچا کہ وہ تشدد کیوں سہتی رہی، پولیس سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ اس کا جواب تھا کہ ہم بہت غریب ہیں، پولیس والے بھی تو پیسے ہی مانگتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اور تو اور اس کے خاوند نے مہر کے پچاس ہزار روپے بھی نہیں دیے۔ وہ تو تم قانونی طور پر لینے کی حقدار ہو، میں نے پھر سادگی سے کہا۔ قانون کا سہارا لینے کی خاطر وکیل کرنا پڑتا ہے جو بلا معاوضہ نہیں ہوتا، اس نے مجھے لقمہ دیا۔

کیا یہ صرف ایک س کی کہانی ہے؟ نہیں یہ لاکھوں عورتوں کی کتھا ہے۔ معاشی ناآسودگی سماجی اقدار کو کھا چکی ہے۔ انسانیت عنقا ہو چکی ہے۔ ایک زمانے میں میاں بیوی غربت میں بھی گزارا کر لیا کرتے تھے چونکہ کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ مل جایا کرتا تھا۔ آج صارفین کا سماج ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا گھناؤنا باب ہے۔ اس سماج میں محنت کے بغیر سہولتیں تو دور کی بات رہی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ محنت کرنے کی خاطر بھی روزگار کے مواقع کم ہیں۔ کاریگروں اور غیر ہنر مندوں کے لیے تو بالکل ہی نہیں۔ منشیات کا حصول عام ہے۔ جہل کی پکار ہر جانب سنی جا سکتی ہے۔ غم بھلانے کی خاطر نشے کا استعمال کرنا ایک عام خیال ہے۔

س کے شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کی سابقہ محبوبہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی اور دونوں نے بیاہ کر لیا۔ شاید اب اس نے نشہ کرنا چھوڑ دیا ہو یا شاید کچھ عرصے بعد جب عشق کا بھوت اتر جائے تو پھر کرنے لگے لیکن س کو اس نے عذاب میں ڈال دیا۔ س اس سے یوں بدلہ لے رہی ہے کہ وہ بچیوں کو اس سے ملنے نہیں دے گی۔ ابھی بچیاں چھوٹی ہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

مجھے نسائیت پرست تنظیمیں اور خواتین کے حقوق کے علمبردار کہیں دکھائی نہیں دیتے جو ایسی لاکھوں شاید کروڑوں عورتوں کی کسی مناسب طریقے سے مدد کر سکیں۔ گھریلو تشدد کے خلاف قانون تو بن گیا لیکن عورت قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رشوت کا مطالبہ پورا کیے بغیر کیسے رجوع کرے؟ علیحدہ ہونے والے شوہر سے بچوں کے لیے نان و نفقہ کیونکر حاصل کر سکے؟ مناسب روزگار کہاں سے حاصل کرے؟ جنسی طور پر بھوکے مردوں کی دستبرد سے کیسے محفوظ رہے؟

کہنے کو تو این جی اوز بہت ہیں لیکن وہ خاص مقاصد کی خاطر ہوتی ہیں۔ مائیکرو فنانسنگ کی ہی مثال لیں۔ یہ بھی بڑے لوگوں کا غریبوں کی مدد کرتے ہوئے خود اپنی کمائی کا بندوبست کرنے کا طریقہ ہے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ”باجی“ یعنی خاتون کو پندرہ سے پینتیس ہزار روپے قرض دیتے ہیں لیکن خاتون کے باپ، بھائی، بیٹے یا شوہر سے بعد کی تاریخ میں چیک لکھوا کر اسے ”قانونی دھمکی“ دے دیتے ہیں کہ اگر بروقت قسط ادا نہ کی تو تمہیں اور ”باجی“ دونوں کو عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔

بجائے سفر، غذا اور وکیل پر خرچ کرنے کے بہتر ہوگا کہ قرض کی قسط بروقت ادا کردو۔ خود اس قسم کے ادارے بڑے بینکوں سے گیارہ بارہ فیصد سود پر قرض لیتے ہیں جو غرباء کو بیس اکیس فیصد سود پر دے دیتے ہیں۔ سود سے حاصل ہونے والی باقی رقوم سے عملے اور انتظام کے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ اپنے تعیش کے لیے بھی وسائل بنا لیتے ہیں۔ سود لینے اور دینے کے بارے میں احکام الہٰی سے ہم نچلے درمیانے طبقے کے لوگ ڈرتے ہیں۔ امیر امراء ”مائیکروفنانسنگ“ کرنے والے بھلا کیوں پریشان ہوں ان کی دنیا میں ہی جنت ہے اور بیچارے غریب کیا گمان کریں کیونکہ ان کی دنیا ہی جہنم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments