ڈینیئل پرل کیس میں کیا غلط ہوا؟


5 فروری 2002 کو جب ڈی آئی جی پولیس جاوید نور لاہور میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر تھے تو اس وقت کے صوبائی سیکرٹری داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے انہیں بتایا کہ ڈینئیل پرل اغواء کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ نے گرفتاری دے دی ہے۔

اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ڈینیئل پرل قتل کیا جا چکا ہے۔ بریگیڈیئر شاہ چاہتے تھے کہ ملزم کی حوالگی پولیس کو قانونی طریقے کار کے مطابق کی جائے۔

اس کے برعکس پولیس پہلے ہی احمد عمر شیخ کے دادا شیخ محمد اسماعیل اور تایا طارق اسماعیل سمیت گھر کی کچھ خواتین کو بھی موہنی روڈ اور جوہر ٹاؤن لاہور سے حراست میں لے چکی تھی تاکہ تحقیقاتی عمل میں مدد مل سکے۔ جب کہ احمد عمر شیخ کے ماموں شیخ عبد الرؤف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے اور ان کی تقرری مظفر گڑھ میں تھی۔ جنہوں نے کیس کا تفصیلی جائزہ لیا اور احمد عمر شیخ کو گرفتاری دینے کے لیے رضامند کیا۔ جب کہ شیخ عبد الرؤف کی مذکورہ پولیس افسر جاوید نور سے بھی اچھی دوستی تھی، اسی لیے عمر کی حوالگی کا معاملہ احسن طریقے سے انجام پایا۔

شیخ عبد الرؤف نے اس نمائندے کو بتایا کہ انہیں جعلی پولیس مقابلے کا اندیشہ تھا، جب کہ اس وقت کے ڈی آئی جی پولیس بھی میرے کلاس فیلو تھے تو ہم ان سے ملنے گئے۔ انہوں نے اس کے بعد کی تفصیلات بھی بتائیں۔ عمر شیخ کے گھر والوں کے خلاف پولیس کے علاوہ دیگر سیکورٹی ادارے بھی متحرک تھے۔ جب جاوید نور نے سیکرٹری داخلہ اعجاز شاہ کو بتایا کہ وہ اپنے گھر پر موجود ہیں تو اعجاز شاہ فوری وہاں پہنچے اور جلد چلے گئے۔ جس کے بعد عمر شیخ جو کہ اس وقت مشتبہ تھا اور بعد میں مرکزی ملزم بنا، اپنے والد سعید احمد شیخ اور ماموں شیخ عبد الرؤف کے ہمراہ جاوید نور کی رہائش گاہ پہنچا جہاں شیخ عبد الرؤف نے جاوید نور کو تفصیلات بتائیں۔ جس کے بعد جاوید نور نے عمر شیخ سے اس کے خیالات اور عقائد سے متعلق بات کی۔ اسی دوران ظہر کی اذان ہو گئی۔ جس کے بعد سب نے عمر شیخ کی امامت میں نماز ادا کی۔ وہ بہت متاثر کن تھا اور مجھے لگا کہ وہ ہم سب سے زیادہ اچھا مسلمان ہے، اسی لیے میں نے اسے امامت کرنے کو کہا۔

جاوید نور نے یہ بات کئی برس قبل بتائی تھی۔ اس کے بعد قانونی طریقے کار کے مطابق عمر شیخ کو گرفتار کر کے 12 فروری 2002 کو پی آئی اے فلائٹ کے ذریعے کراچی بھیجا گیا۔

یہ تمام باتیں جاوید نور نے خود بیان کی تھیں اور 2014 میں بریگیڈیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر جب عدالت میں ڈینئیل پرل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پولیس نے عدالت میں جو چالان پیش کیا اس میں بتایا گیا کہ عمر شیخ کو کراچی ائرپورٹ سے 12 فروری 2002 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جب کہ عمر شیخ کے اعترافی بیان کے مطابق بھی اس نے 5 فروری 2002 کو گرفتاری دی تھی اور اسے 12 فروری کو پی آئی اے فلائٹ کے ذریعے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔

عدالت میں عمر شیخ کے حق میں اس کے والد اور ماموں کی گواہی اور میڈیا رپورٹس میں اسے لاہور سے گرفتاری کی باتوں نے ریاست کے کیس کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عمر شیخ کے وکیل محمود اے شیخ نے بھی عمر شیخ کی گرفتاری سے متعلق اخبارات کے تراشے اور سرکاری ٹی وی کے فوٹیج بھی پیش کیے۔ جس کا استغاثہ کے پاس کوئی جواب نا تھا اور نا ہی اس کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ڈینئیل پرل کیس کی کہانی 9 / 11 کے اگلے روز اس کی کراچی آمد سے شروع ہوتی ہے۔ وہ بھارت سے کراچی آیا تھا کیوں کہ اس کے اخبار کا دفتر ممبئی میں تھا۔

اس نے کچھ وقت کراچی میں گزارا اور پھر مبارک علی گیلانی نامی شخص کی تلاش شروع کردی جس کے مبینہ طور پر رچرڈ ریڈ نامی شخص سے روابط تھے، جو کہ ایک برطانوی دہشت گرد تھا اور اسے یورپ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے جوتوں میں بم چھپا کر پیرس سے میامی کا فضائی سفر کیا تھا تاکہ جہاز پر حملہ کرسکے۔ مبارک علی کی تلاش کے سلسلے میں ہی ڈینئیل پرل کی ملاقات احمد عمر شیخ سے ہوئی۔ پولیس اور استغاثہ کے ریکارڈ کے مطابق ان کی پہلی ملاقات 11 جنوری 2002 کو اکبر انٹرنیشنل ہوٹل راولپنڈی میں ہوئی۔ عمر شیخ کی ڈینئیل پرل سے ملاقات صحافی آصف فاروقی کے ذریعے ہوئی۔ آصف فاروقی کو خود علم نہیں تھا کہ ان سے ملنے والا بشیر نامی شخص دراصل عمر شیخ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر شیخ اسی ہوٹل میں فاروق مظفر کے نام سے قیام پذیر تھا۔ عمر شیخ نے یہ ملاقات گیلانی کے معاون کے طور پر کی تھی۔

یہ ملاقات ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک ہوئی۔ عمر شیخ نے اس ملاقات میں روایتی ایشیائی طرز پر انگریزی بولی، ملاقات میں اس نے گیلانی سے ڈینئیل پرل ملاقات کا وعدہ نہیں کیا بلکہ کہا کہ وہ کوشش کرے گا۔ یہ بات ایک سینیئر صحافی رضا ( رضا اس صحافی کا اصل نام نہیں ہے کیوں کہ اس نے اصل نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے ) نے بتائی، جب کہ اس نمائندے سے اس نے 18 برس بعد بات کی ہے۔ وہ اس ملاقات کا گواہ بھی ہے۔ استغاثہ کے مطابق ڈینئیل پرل قتل کی سازش ہوٹل کے اسی کمرے میں 11 جنوری، 2002 کو ہوئی جہاں دو اور ملزمان فہد نسیم اور سید سلیمان ثاقب بھی موجود تھے۔ جب کہ استغاثہ ان کی وہاں موجودگی ثابت نہیں کر سکا جس سے یہ کیس مزید کمزور ہوا۔

اس ملاقات کے چند روز بعد عمر شیخ نے ڈینئیل پرل کو کراچی آنے کا کہا۔ 23 جنوری، 2002 کو عمر شیخ سے ملاقات سے قبل ڈینئیل پرل نے صحافی آصف فاروقی سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا عمر شیخ سے ملاقات کرنا ٹھیک رہے گا یا نہیں۔ آصف فاروقی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اس سے کسی عوامی مقام جیسے ریستوران وغیرہ میں ملاقات کرے اور اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر نا جائے۔ اس فیصلہ کن روز ڈینیئل پرل نے کراچی میں سی پی ایل سی افسر جمیل یوسف احمد سے ملاقات کی جو کہ ایک بزنس مین اور کراچی میں سی پی ایل سی کے بانی ہیں۔

جنہوں نے بعد ازاں تصدیق کی کہ ملاقات کے دوران ڈینیئل پرل کو فون آیا تھا جسے اس نے کہا تھا کہ میں تمھارے آفس کے قریب ہوں اور مجھے یاد ہے کہ تم سے ملاقات کرنا ہے۔ جس کے فوری بعد ڈینیئل پرل عمر شیخ سے ملاقات کے لیے چلا گیا۔ ڈینئیل پرل وہاں سے ناصر عباس نامی ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ میٹرو پول ہوٹل پہنچا۔ یہ آخری موقع تھا جب ڈینئیل پرل کو زندہ دیکھا گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کے مطابق جیسے ہی وہ اپنے مقام پر پہنچے ایک سفید کرولا کار آئی اور اس نے ایک شخص (عمر شیخ) کو امریکی صحافی سے ملتے دیکھا اور وہ دونوں ساتھ چلے گئے۔ استغاثہ کی جانب سے پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق ڈینئیل پرل کو جس فون نمبر سے کال آئی تھی وہ عمر شیخ کا نہیں بلکہ کراچی میں کسی صدیقی نام کے شخص کا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments