احمدیوں کی ایک تنظیم کی ویب سائٹ کو پاکستان میں بلاک کر دیا گیا


24 دسمبر کے دن امریکہ میں احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان حارث ظفر کو ایک ای میل موصول ہوئی جو شاید ان کی نظروں سے گزرتی ہی نہ اگر وہ ’جنک‘ ای میل کا سیکشن نہ دیکھتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ای میل موصول ہونے کے ایک روز بعد ہم نے دیکھا کہ یہ (ای میل) پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) نے بھیجی تھی۔‘

یہ امریکہ میں احمدیہ کمیونٹی کی ویب سائٹ ’ٹرو اسلام ڈاٹ کام‘ کے خلاف ایک قانونی نوٹس تھا۔

پی ٹی اے نے نوٹس موصول ہونے کے 24 گھنٹوں کے اندر یہ ویب سائٹ ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی اے کی ای میل میں لکھا تھا کہ ’احمدی خود کو بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلمان نہیں کہلا سکتے اور نہ ہی اپنے عقیدے کو اسلام کا نام دے سکتے ہیں۔‘

ویب سائٹ نے انھیں قانونی کارروائی کی وارننگ دی اور کہا کہ اگر پی ٹی اے کے احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو ان پر 500 ملین پاکستانی روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ انتظامیہ نے ای میل کے جواب میں کہا کہ یہ ’نوٹس غیر قانونی اور بے بنیاد ہے‘۔

پاکستان کے آئین کے مطابق احمدی برادری کے لوگ غیر مسلم ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 26 نومبر کی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’جولائی 2020 سے اب تک کم از کم پانچ احمدیوں کو بظاہر اپنے عقیدے کی بنا پر قتل کیا جاچکا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

عاطف میاں اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت سے الگ

پشاور میں ایک اور احمدی شہری محبوب احمد کا قتل

شیخوپورہ میں احمدی برادری کا انتظامیہ اور مقامی افراد پر قبروں کی بے حرمتی کا الزام

’اقلیتی کمیشن میں شامل ہونے کی درخواست کی نہ حکومت کی جانب سے رابطہ کیا گیا‘

احمدیہ جماعت کی انتظامیہ کو اس بات پر زیادہ حیرت ہوئی ہے کہ پی ٹی اے نے ان کی ویب سائٹ پاکستان میں بلاک کر دی ہے جس پر امریکہ میں ان کی سرگرمیوں کو دکھایا جاتا ہے۔

حارث ظفر کا کہنا ہے کہ پانچ سال پرانی ویب سائٹ کا مقصد ’امریکہ میں ہماری سرگرمیاں دکھانا تھا جیسے ہم تقریبات میں پولیس فورس کی مدد کرتے ہیں، نائن الیون کو یاد کرتے ہیں اور جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد امتیازی سلوک کے خلاف مہم کا حصہ بنتے ہیں۔ تو تمام مواد امریکہ کا ہے۔‘

’ہماری ویب سائٹ پر پاکستان سے متعلق کوئی مواد نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بدنیتی پر مبنی‘ اس اقدام کا مقصد احمدی کمیونٹی کو ’مزید خاموش کرنا ہے۔‘ امریکہ میں اس برداری کے 20 سے 25 ہزار لوگ آباد ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے۔

پی ٹی اے نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بین الاقوامی میڈیا پر چلنے والی خبر کے حوالے سے وضاحت کی جاتی ہے کہ پی ٹی اے نے یہ اقدام ملک کے قوانین کی روشنی میں کیا ہے۔ ان قوانین کا اطلاق پاکستان کے علاقے پر ہوتا ہے۔‘

پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس ویب سائٹ پر قانونی وجوہات کی بنا پر پابندی لگائی گئی ہے۔

پاکستان نے گزشتہ کئی مہینوں کے دوران آن لائن مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

گذشتہ سال پاکستان نے آن لائن مواد ہٹانے اور اس پر پابندی عائد کرنے کے ضوابط جاری کیے تھے جن کا مقصد الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 37 پر عملدرآمد کے لیے ہدایت فراہم کرنا تھا۔

ان ضوابط کی مدد سے حکام ایسے کسی بھی آن لائن مواد کو بلاک کر سکتے ہیں جو ان کے خیال میں اسلام، سکیورٹی، استحکام، مسلح افواج، عوامی حکم یا اخلاقیات کے حوالے سے عوام کے مفاد کے خلاف ہو۔

انٹرنیٹ پر شہریوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کے اسامہ خِلجی کا کہنا ہے کہ ’ان ضوابط میں تمام سوشل میڈیا کمپنیوں اور انٹرنیٹ سروس پروائڈرز سے، جن کے پانچ لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں، کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اپنا دفتر کھولیں، مقامی نمائندہ تعینات کریں، ڈیٹا سرور قائم کریں اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کو تمام ڈیٹا ریڈیبل اور ڈی کرپٹڈ فارم میں فراہم کریں۔‘

’اس سے شہریوں کے رازداری کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ریاست کی طاقت مزید بڑھ جاتی ہے جس سے وہ شہریوں کی مزید نگرانی کرسکتی ہے۔ ملک میں پہلے ہی ویب مانیٹرنگ سسٹم قائم ہے جو ملک میں تمام انٹرنیٹ ڈیٹا کی جانچ کرتا ہے۔‘

احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان حارث ظفر کو پی ٹی اے کے اقدام پر تشویش ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ احمدیہ کمیونٹی پر ’پہلے سے ہونے والے ظلم و ستم کو بڑھانے کا اقدام ہے۔ حکومت پاکستان نئے سائبر قوانین کی مدد سے امریکہ میں قائم احمدی تنظیموں اور افراد کو پاکستان میں توہین رسالت کی خلاف ورزی کے قوانین کی مدد سے ستانا چاہتی ہے جبکہ ان افراد کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔‘

دسمبر میں پی ٹی اے نے گوگل اور وِکی پیڈیا کو نوٹس جاری کیے تھے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان پلیٹ فارمز پر توہین مذہب سے متعلق مواد پھیلایا جا رہا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’پی ٹی اے کو ’موجودہ خلیفۂ اسلام‘ سے متعلق سرچ میں غلط نتائج آنے اور گوگل پلے سٹور پر احمدیہ برادری کی جانب سے قرآن کی غیر مصدقہ شکل اپ لوڈ ہونے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔‘

حارث ظفر کے مطابق آسٹریلیا اور برطانیہ میں احمدیہ کمیونٹی کو بھی ایسے ہی نوٹس موصول ہوئے ہیں اور گوگل نے پاکستان میں پلے سٹور سے ان کی ایپس ہٹا دی ہیں۔

’ایسا کر کے پاکستان نے اپنے قوانین بین الاقوامی ویب سائٹس پر نافذ کیے ہیں جن کا پاکستان سے تعلق نہیں اور ویب سائٹ ہٹائی نہ جانے کی بنیاد پر امریکی شہریوں پر توہین رسالت کا الزام لگایا ہے۔‘

ظفر سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں گوگل پلے سٹور سے احمدی برادری کی چار مزید ایپس ہٹائی جاسکتی ہیں۔

نیشنل ریویو کے مطابق امریکی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ اظہارِ رائے، مذہب اور عقائد کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ ہم اپنے شہریوں اور آن لائن تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کا دفاع کرتے ہیں۔‘

ہیومن رائٹس واچ اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستانی حکام کو مذہبی اقلیت احمدیہ برادری پر جاری ظلم روکنا ہوگا جو کہ سرحد پار پھیلایا جا رہا ہے‘۔

ظفر کہتے ہیں کہ ان کی تنظم امریکی دفتر خارجہ اور کانگریس سے بھی رابطے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp