”دل بھٹکے گا“ تک دل کیسے پہنچا!


کوئی خاص چیز جو آپ خرید کر کھاتے ہیں، پہنتے و اوڑھتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ رات خواب میں جھلک آوارد ہوئی اور اگلی صبح آپ تکمیل کو پہنچ گئے، ہاں معاملہ محبوب کو اس میں استثناء حاصل ہے۔ کچھ چیزیں آپ تبھی خرید اور دیکھ لیتے ہیں کہ چلو میاں یہ تو پوری قوم کر رہی۔ کھادی کے کپڑے، ارطغرل غازی اور گیم آف تھرانز کا سیزن، کچھ چیزیں صرف اس اس لیے چل رہی ہیں کہ کوئی آپشن ہی نہیں بچتا باخدا یہاں ہرگز اشارہ ایک سابق کپتان کی طرف نہیں ہے۔

کچھ کتابوں پر بھی قوم کی سند ہوا کرتی ہے۔ (یہاں سند سے مراد لت ہے ) عمیرہ احمد کا پیر کامل، شہاب صاحب کا شہاب نامہ، ایلیف شیفک کا فارٹی رولز آف لوو، پائلو کا الکیمسٹ۔ کچھ کتابیں آپ کسی کے مشورہ دینے پر پڑھتے ہیں مگر میرا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ ہر کتاب کا ایک مزاج ہوتا ہے، ایسے ہی جیسا اشخاص کا ہوا کرتا ہے۔ یعنی میرے جیسا شخص پیا رنگ کالا نہیں پڑھ پائے گا، ہو سکتا ہے آپ کاما سترا نہ پڑھ پائیں۔ باقی حالات زندگی کو بھی اس میں کچھ دخل ہے، سکون اور اطمینان اور دھیان۔ کچھ کتابیں آپ ان کے بنا نہیں پڑھ سکتے۔

دو برس پہلے صدر پنڈی میں variety books پر موجود تھا، اس دکان میں پہلا فلور انگریزی کتب کا جبکہ دوسرے فلور پر اردو فکشن، تاریخ، اور دیگر موضوعات پر کتابیں ہیں۔ مجھے فلور پر پہنچے پانچ ایک منٹ ہوئے ہوں گے کہ پچاس پچپن برس کے ایک ایک صاحب، درمیانہ قد، شلوار قمیض و ویسکٹ میں ملبوس آ دھمکے۔ معلوم نہیں کس کتاب کی تلاش میں تھے۔ میں نے دکان دار سے میرا جی کی مشرق و مغرب کے نغمے مانگی، نہ ملی۔ اتنے میں وہ انکل میرے پاس آئے اور کہنے لگے، آپ ناول پڑھتے ہیں؟

میں نے ان پر رعب جمانے کے لئے اردو کے شہرہ آفاق ناول اداس نسلیں، آگ کا دریا سے لے کر بستی تک کے نام لے ڈالے (یہ اور بات ہے کہ اردو ناول پڑھنا میں نے چند ماہ پہلے ہی شروع کیا ہے اور تب ان کے سامنے شیخی ماری تھی۔) میرا جواب سن کر وہ حیران نہیں ہوئے اور نہ ہی میں وہ رعب ڈال پایا۔ آہستگی سے پوچھنے لگے بیٹا آپ نے احمد بشیر کو نہیں پڑھا؟

میں نے اسی لمحے ذہن پر بہت زور ڈالا کہ یار یہ کون سا نیا رائٹر آ گیا ہے جس کی کتاب اور نام میں نے دونوں نہیں سن رکھے، ان انکل سے معذرت خوانہ انداز میں ”نہیں“ کہہ دیا۔ بیٹا تم احمد بشیر کا ناول دل بھٹکے گا پڑھو، وہ تم نوجوان کے لئے ہے۔ یہ آگ کا دریا، اداس نسلیں تو سبھی پڑھتے ہیں مگر دل بھٹکے گا ہر کوئی نہیں پڑھتا۔ میں نے تھوڑا حیرانی سے ان کی بات سنی تو مزید ہلکا سا مسکرا کر کہنے لگے ”یار احمد بشیر نے رومانس، محبت اور سیکس پر بھی کھلا ڈھلا لکھا ہے، وہ جوانوں کو ضرور پڑھنی چاہیے“ یہ بات سن کر مجھے لگا کہ یہ بابا جی چسکے لے رہے ہیں، تھوڑے ٹھرکی مزاج ہیں اور یہ شاید کوئی ففٹی شیڈز آف گرے ٹائپ ناول ہے ”۔

خیر بات آئی گئی ہو گئی، میں نے واپس آ کر نیٹ پر احمد بشیر سرچ کیا، ارے یہ تو بشری انصاری کے والد ہیں، بیسویں صدی کی صحافت میں نمایاں نام، ایک فلم نیلا پربت بھی بنا چکے ہیں۔ چلو کبھی موقع ملا تو پڑھیں گے۔ دو سال یوں گزرے کہ نہ تو احمد بشیر کو پڑھا اور نہ ہی ان کا ناول خریدا۔ یہ سال شروع ہوا تو سوچا شخصی خاکے پڑھے جائیں۔ ایک دکان سے ”جو ملے تھے راستے میں“ لے آیا۔ ارے یہ تو احمد بشیر کی ہے۔ میرا جی، ممتاز مفتی، شہاب صاحب، کشور آپا کا خاکہ، احمد بشیر تو پاگل ہے، یہ تو سچ لکھتا ہے، کسی دوست کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔ ننگا سچ اور ایسی کمال نثر کے ساتھ۔ بس احمد بشیر سے عشق ہو گیا۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد ارادہ کر لیا کہ دل بھٹکے گا خرید ہی لو اور پڑھ لو کیونکہ احمد بشیر افسانے نہیں تراشتا، اس پر جو بیتی ہے اور جیسا اس نے دیکھا ہے، کیا ہے، لکھ دیتا ہے۔

میں نے یہ کتاب لا کر میز پر رکھی، اماں دیکھتے ہی کہنے لگی ”ہیں؟ دل بھٹکے گا؟ اور کتنا بھٹکنا ہے ترا دل؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).