ہمارا کلچر حیا ڈے



ہر سال کے دوسرے مہینے یعنی فروری کے 14 تاریخ کو دنیا بھر میں بے شرمی کا دن منایا جاتا ہے جسے عام اصطلاح میں ”ویلنٹائن ڈے“ کہا جاتا ہے۔ اس بے شرمی کے دن کی ابتداء کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ جو روایت اس حوالے سے مشہور ہے وہ کچھ یوں ہے کہ تیسری صدی عیسوی کے اواخر یعنی آج سے کوئی 17 سو سال پہلے ویلنٹائن نامی ایک شخص کو جو کہ کسی وجہ سے جیل میں قید کاٹ رہا تھا، اس دن پھانسی لگائی گئی۔ پھانسی سے قبل اس شخص نے اپنا آخری پیغام نامہ اپنی جیل کے جیلر کی بیٹی کے نام ارسال کیا جس میں اظہار محبت کے بعد درج تھا ”تمہارا ویلنٹائن“ ۔ ویلنٹائن کی یاد میں لوگوں نے اس دن کو منانا شروع کر دیا اور اس کا نام رکھ دیا ویلنٹائن ڈے۔

آج اکیسویں صدی میں اس دن کے نام پر جو تماشا کیا جاتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ کس طرح  بے شرمی و بے حیائی کا ماحول گرم ہوتا ہے، جس کا یقیناً اسلام یا مسلمانوں سے دور دور تک تعلق نہیں ہے مگر بدقسمتی سے کچھ نام نہاد مسلمان، کچھ سیکولر اور لبرل اس دن اور اس بے شرمی کو زبردستی ہمارے معاشرے میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ محبت کے نام پر بے حیائی کو فروغ دینے کی حمایت کی جا رہی ہے۔ دوسروں کی بیٹی بہن کی ہتک عزت پر خوشیاں منائی جا رہی ہے۔

سرعام پارکوں میں ، سڑک کنارے، ریستورانوں میں اس بے شرمی کا کاروبار کرنے والوں کو شاباشی دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم محبت کو عام کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے والوں کو جب ان کی اپنی بیٹی بہن کی یاد دلا دی جائے اور پوچھا جائے کہ اگر ان کے ساتھ کوئی یہ کچھ کرے جو آپ کسی اور کی بہن بیٹی کے ساتھ کر رہے ہیں تو جواب یا تو گالیوں کی صورت میں ملتا ہے یا پوچھنے والے کو شدت پسندوں کی فہرست میں ڈال کر اس سوال سے منہ پھیر دیا جاتا ہے۔

لیکن اللہ کے فضل یہ تھوڑے سے لوگ اپنے اس غلیظ مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ملک اسلام کی خاطر بنا ہے اور اس ملک کے اندر اسلام ہی نافذ ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اس بے شرمی و بے حیائی کا راستہ روکنے کے لیے 14 فروری کو حیا ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ حیا ڈے کو پاکستان کی سب سے بڑی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے متعارف کروایا۔

جب 14 فروری 2009 کو پہلی مرتبہ پنجاب یونیورسٹی کے اندر اسلامی جمعیت طلبہ نے حیا ڈے کا نام دے کر اس دن کو منایا، اس کے بعد 2012 سے مسلسل اس دن کو پورے پاکستان میں حیا ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ اب اس دن کو ہر طبقۂ فکر کے لوگ اپنے اپنے طور پر مناتے ہیں۔ بطور مسلمان حیاء ہمارے ایمان کا حصہ ہے، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ”جس میں حیاء نہیں اس میں ایمان نہیں“ ۔

یہی وجہ ہے کہ 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس بے حیائی یعنی ویلنٹائن کے منانے یا میڈیا پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہی اس ملک کا قانون ہے، یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا۔ غیر اسلامی اقدار کو یہاں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑے گی۔ یہاں نہ تو کوئی غیر اسلامی ایجنڈ چل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی تہوار۔

ہمارا معاشرہ اور ہمارا کلچر حیا ڈے کے ساتھ ہی چل سکتا ہے کیونکہ اسلام ہی ہمارا کلچر ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے اور ہمارے دین (اسلام) کی پہچان شرم و حیا ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments