وہ سائیکل جو مجھے نہ مل سکی


ابا مجھے سائیکل دلا دیں۔
ابا مجھے سائیکل دلا دیں۔

بار بار یہی آواز میرے کانوں میں گونجتی۔ بہت کوشش کے باوجود میں اس آواز سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ میں ابا کے پیچھے پیچھے بھاگتے یہی کہہ رہا ہوتا۔

”ابا مجھے سائیکل دلا دیں“ ۔
ابا کو میری آواز سنائی نہ دیتی۔ میں بھاگتے ہوئے تھک جاتا۔ تھک ہار کر چپ ہو جاتا۔

ابا کو سائیکل پسند نہیں تھی۔ ان کی نظر میں سائیکل چلانے والے بچے پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ سارا دن گلی میں گھومتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ابا کہتے۔

”تم میٹرک کا امتحان پاس کر لو۔ پھر تمہیں سائیکل لے دوں گا“ ۔

مجھے اپنا سائیکل چلانے کا شوق میٹرک ہونے کے انتظار تک دفن کرنا پڑا۔ جب مجھے سائیکل ملنے کی کوئی امید نظر نہ آئی۔ میں نے اپنے شوق اور خواہش سے لاتعلقی برتنی شروع کر دی۔ اس سے پہلے میں اپنے شوق کی دیوانگی میں دن رات ضد کرتا تھا۔ ایک سائیکل کی خاطر آنسو بہاتا۔ ماں باپ سے الجھتا۔ کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ میری بھوک ہڑتال سے بھی ابا کو کوئی فرق نہ پڑتا۔ وہ اپنی بات اور اصول کے پکے تھے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا۔ انہیں ہم سے پیار نہیں۔

وہ ایک سخت جابر حکمران لگتے۔ میں اپنے دوستوں اور گلی محلے کے بچوں کو جب سائیکل چلاتے دیکھتا تو دل مسوس کر رہ جاتا۔ اپنے گھر کے دروازے کے آگے بیٹھ کر بچوں کو سائیکل چلاتے دیکھتا۔ میری آنکھوں کی نمی کسی کو دکھائی نہ دیتی۔ جب رات کو میں بستر پر آتا وہاں میری ایک حسین دنیا آباد ہو جاتی۔ میں خود کو سائیکل چلاتے دیکھتا۔ گلی کا پورا چکر لگا کر سامنے والی سڑک پر جا کر موڑ کاٹ کر واپسی کا رستہ اختیار کرتا۔ میرے بال ہوا میں اڑ رہے ہوتے۔ چہرے پر خوشی کے ننھے دیپ جگمگا رہے ہوتے۔ سائیکل سے اتر کر میں گھر کا دروازہ کھول کر اندر آتا اور سائیکل کو سیڑھیوں کے نیچے ایک سائیڈ پر لگا دیتا۔

مجھے پتا ہی نہ چلتا کب نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہوئی۔ یہ خواب میرے بچپن کی حسین یاد تھا۔ جس نے اب تک میرا پیچھا نہ چھوڑا۔

ہمارے مالی حالات اچھے تھے۔ ابا کے لیے سائیکل دلانا مشکل نہیں تھا۔ وہ بچوں کی بلاوجہ ضد پوری کرنے کے سخت خلاف تھے۔ جو چیز ان کی نظر میں اچھی نہ ہوتی، وہ دوسروں کے لیے بھی غیر ضروری سمجھتے۔ ساتویں کلاس تک میں سائیکل کے لیے ترستا رہا۔ جب ہمارے محلے میں چھوٹے بچے بچیاں سائیکل چلاتے تو میرا دل چاہتا۔ کاش میں ان کے گھر پیدا ہوتا۔ مجھے سائیکل تو مل جاتی۔

سائیکل کے لیے میری دیوانگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ کچھ لوگ میرا مذاق اڑاتے اور کچھ تسلی دلاسا دیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں سائیکل کو بھولنے لگا۔ اب شوق اور خواہش میں وہ پہلے والا دم نہیں رہا تھا۔ اب میں ایک بہت قیمتی سائیکل خرید سکتا ہوں۔ لیکن وہ بچپن کے دن اور خوشی کے لمحات نہیں خرید سکتا۔ اگر گزرے وقت کو واپس لانا ممکن ہوتا تو میں اپنے بچپن کے وہ دن واپس لاتا جب میں ایک سائیکل کی آرزو کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments