سینیٹ کا میلہ مویشیاں


ایوان بالا میں الیکشن ڈرامہ آخری مرحلے میں داخل ہو رہا ہے رائے دہی کے طریق کار پر بحث و مباحثہ جاری ہے دلائل کے انبار لگائے جا رہے ہیں بے پر کی اڑائی جا رہی ہے ووٹ کو عزت دینے اور گئے برس شفاف انتخاب کرانے اور اربوں کھربوں کی کرپشن کے دروازے بند کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے نون لیگی رہنما آج زوروشور سے کھلے عام ووٹ ڈالنے کی مخالفت کر رہے ہیں

‎میدان سیاست میں باہم مدمقابل سیاست کار جو چاہے کریں ان کے ہر طرح کے مفادات اس گندے اور گھناونے کھیل سے وابستہ ہیں لیکن ان نام نہاد دانشوروں قلم کاروں اور فن کاروں کا کیا کیجئے جو بلا جھجک و شرم و حیا، بلند پایہ اخلاقی اصولوں اور دیانت داری کے تقدس کی دھجیاں اڑائے جا رہے ہیں اور ذرا نہیں شرما رہے آئین کی آڑ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کو عین جمہوریت قرار دیے جا رہے۔

‎آقاومولا سرورکائنات ﷺ نے فرمایاتھا

‎محض عمل کوئی حیثیت نہیں رکھتا اس کے ساتھ خلوص نیت لازم ہے جس سے حضرت مولانا فضل الرحمن، بانکے میاں سراج الحق سمیت سب کا دامن خالی ہے وقت مصلحتیں اور ادنی مفادات کو پیش نظررکھ کر موقف اپنائے جاتے ہیں کف اڑائے جاتے ہیں

‎رہے میاں نواز شریف اور پیارے عمران خان تو یہ دونوں اشرافیہ کی اقدار کو بچانے پر متفق ہیں۔ خاص طور ایوان بالا، سینٹ کا انتخاب تو منہ زور اشرافیہ کے لیے کھیل تماشا بنا دیا گیا ہے

‎اس مجلس بزرگان کا بنیادی مقصد تو تمام سیاسی اور جماعتی مفادات اور مصلحتوں سے بلند ہو کر قوم کی رہنمائی کرنا تھا لیکن موجود سینٹ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے جسمانی اور ذہنی مفلوجوں کا چند شاطر اور عیاروں نے گھیراؤ کر کے اس مقدس ایوان کو اپنی چراگاہ بنا رکھا ہے ایک صاحب مشاہدات ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک فرقہ وارانہ جماعت کے ذریعے میدان سیاست و صحافت میں قدم رکھا تھا۔

‎پھر دنیا نے انہیں امام زمان آیت اللہ روح اللہ خیمنی کے لیے رطب السان دیکھا وہاں سے اخبار میں آن وارد ہوئے اور پھر لسانی چابک دستی اور لطیفہ گوئی کے سہارے میاں نواز شریف کے دربار میں رسائی پا گئے اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا جمہوریت پروان چڑھاتے دکھاتے دس برس تنخواہ دار لطیفہ گو ‎کی حیثیت سے گجرات کے بڑے چودھری کا دل بہلاتے ‎اورجنرل مشرف کی جمہوریت کے گن گاتے رہے اور پھر نامعلوم خصوصیات کے سہارے ”ووٹ کو عزت دو“ کا جاپ جپتے جپتے نون لیگ کے منظر نامے پر نمودار ہوئے ایوان بالا میں دوبارہ نئی پارٹی کے ذریعے پہنچے اور اب چینی صدر شی کی داستان حیات کا اردو ترجمہ کرا کے کروڑوں کا کاروبار کر کے چینی سوشلزم کے گن گاتے اور مرادیں پاتے ہیں یہ ہمارے ایوان بالا کا منظرنامہ ہے۔

‎ایوان بالا کے ارکان کا انتخاب تو سیدھا سادھا گنتی کا کھیل ہے اگر برسرمیدان ہاتھ کھڑے کروا کے ہارجیت کا فیصلہ ہی کروانا ہے تو الیکشن کے تکلف کی کیا ضرورت ہے ویسے ہی اراکین کی نسبت تناسب کے اعتبارسے نشستیں بانٹ کر بے پناہ اخراجات اورقومی وقت کا ضیاع روکا جاسکتا ہے یہاں توہماری اشرافیہ کے ذہنی افلاس کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں 15 سے زائد وفاداریاں تبدیل کر کے حکمران جماعت کے چیئرمین صادق سنجرانی کو منتخب کرانے والے ارکان کاجناب نواز شریف اور شعلہ بیان چرب زبان صاحبزادی مریم نواز کو بخوبی علم تھا لیکن مصلحتوں نے آج تک ان کی زبان پر تالے لگائے ہوئے ہیں طرفہ تماشا تو یہ ہوا کہ اسی شام وہ تمام ”غدار ارکان“ بڑے دھڑلے سے اپنی جماعت کے عشائیے میں بھی شریک ہوئے تھے اور سب کچھ جانتے بوجھتے جمہوری اقدار کے پہرے داروں نے تقریباتی مسکراہٹوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا ہماری پارٹیوں میں جمہوری اقدار جرات اظہار کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم عمران خان، خواجہ آصف کے رونے دھونے اور اپنی متوقع شکست پر جنرل باجوہ سے مداخلت کرنے کا قصہ چٹخارے لے کر بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں

‎ہمارا پارلیمانی جمہوری منظرنامہ پنجابی دانش کی مثال ”من حرامی ہجتاں ڈھیر“ کا مجسم مرقع بنا ہوا ہے اور فرمایا آقا و مولارسول اللہ ﷺ نے، عملوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔

‎اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دنیا یا مال و دولت حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت کے لئے تھی پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت اس نے کی ہوگی

‎یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مرحوم محمد خان جونیجو کے اپنے ساتھی وزراء کے احتساب کے بعد کپتان خان عمران خان نے سینٹ کے میلہ مویشیاں میں خرید و فروخت پر اپنے 20 ارکان کے خلاف کارروائی کی تھی اور گزشتہ دنوں 2 سال پرانی وڈیو کلپ میں اپنے موجودہ وزیرقانون کا چہرہ شناخت ہونے پر اسے بھی فوری طور پر وزارت سے برطرف کر دیا یہ جرات وحوصلہ صرف ”ووٹ کو عزت دینے“ کے بلند آہنگ نعرے لگانے والے مریم کے ابا جناب نواز شریف تو نہ کرسکے تھے شاید کبھی بھی نہ کرسکیں گے۔

‎ویسے جناب نواز شریف کی جرات رندانہ کا یہ عالم ہے کہ اپنی باوقار اہلیہ اور پنجابی ماں کا مجسم اوتار والدہ محترمہ کے جنازوں میں شرکت نہ کر سکے بلکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سب کچھ ہوئے بھی اپنی والدہ کے جسد خاکی کو باوقار طریقے سے پاکستان بھجوانے کی بجائے DHL ‎کارگو سے بک کرا دیا اور ان کے دونوں صاحبزادے تو خیر سے ویسے بھی برطانوی شہری ہیں کہتے ہیں کہ ان دونوں کی بیگمات کو اپنے خاوندوں کو ”گندی سیاست“ سے دور رہنے پر آمادہ کرچکی ہیں۔

‎ایوان بالا کا انتخاب کھلے بندوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے کے بارے میں صدارتی حکم نامہ جاری ہو چکا ہے جس پر ووٹ کو عزت دینے کے دعوی دار سب سے زیادہ ناراض اور بے تاب ہیں۔ ‎آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت صرف وزیراعظم اور وزرائے اعلی کا انتخاب (Show of Power) ‎کے تحت کیا جا سکتا ہے جبکہ موجودہ سرکار کا موقف یہ ہے کہ سینٹ الیکشن، الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوتا ہے جس کے بارے میں صدر مملکت حکم نامہ جاری کر چکے ہیں

‎پس تحریر: گزشتہ ہفتے آبائی گاؤں بڈھا گورائیہ کا چکر لگا، اباجی کے دوست چاچا ظفر گورائیہ رحلت فرما چکے تھے ان کی تعزیت کے لیے حاضر ہوا۔ فاتحہ کے بعد یادوں اور باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ‎ماضی میں کھو گیا یہ 1982 کے دن تھے۔ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ جیل کی ملاقاتی وارڈ میں ایک نوجوان کرسی ڈالے جالیوں کے پار اپنے ملاقاتیوں کے ہجوم سے تحمل اور صبر کی تلقین کر رہا تھا کہ اچانک مرحوم ظفر اللہ گورائیہ دکھائی دیے انہیں خصوصی انتظام کے تحت ملاقاتی وارڈ کے اندر بلا لیا وہ یہ انتظامات دیکھ کر حیران تھے۔ فرمانے لگے ”ایتھے پسرنہ جائیں توں قلم کتاب پھڑنی اے“ (‎جیل میں پھیل نہ جانا کتاب وقلم تمہاری منتظرہے۔)

‎اور 16 نومبر کی اجلی دوپہر اسلام آباد کلب کے سرسبز و شاداب لان میں دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تین دہائیوں بعد مہا گرو مرحوم انور عزیز چودھری اس کالم نگار کا دایاں ہاتھ نرمی سے دباتے ہوئے فرما رہے تھے، اسلم خاں کالم لکھدا سونا لگدا ایں تعویز نہ لکھیں لمبا راستہ چنگا ہوندا اے۔ Short Cut ‎ نہ ماریں ”1982 سے 2021 کا ہنگامہ خیز اڑتیس برس کا سفر چاچا ظفراللہ گورائیہ اور مہاگرو انورعزیز چودھری مرحوم کے دو جملوں میں سمٹ گیا اورخاکسار اپنے آنسوؤں کو ضبط کر رہا تھا چھپا رہا تھا۔

پس ماندگان جانے والوں کے نقش پا پر جواں مردی سے چلا کرتے ہیں۔ عورتوں کی طرح آنسو نہیں بہا کرتے۔ مجھے بھی راست اقدام کرنا ہیں۔ جذبات سے عاری چہرے کے ساتھ راہ کی رکاؤٹوں ہٹانا ہے۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments