لوم ( Loom)


میں فیکٹری کے گودام سے عجلت میں باہر آیا اور تیز قدموں سے پارکنگ ایریا میں پہنچ گیا، جہاں صرف ایک میری کار ہی پارک تھی، کیونکہ میں فیکٹری سے نکلنے والے آخری چند افراد میں سے تھا۔ رات کا ایک بج چکا تھا اور مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی، سو گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے تیزی سے سڑک پر لے آیا، موڑ مڑتے ہی مجھے فیکٹری کا ورکر راشد نظر آیا، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا جا رہا تھا، میں نے سوچا، اسے ساتھ بٹھا لوں، لیکن پھر ذہن سے یہ خیال جھٹک دیا، کیونکہ مجھے راشد پر پچھلے کئی ماہ سے غصہ تھا، اور آج تو یہ غصہ حد سے سوا تھا، اس لیے نظر انداز کر کے گاڑی بڑھائے گیا۔

راشد میرے آبائی علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کو ایک دوست کی سفارش پر چھ ماہ پہلے نوکری دی تھی، میں ملک کے سب سے بڑے شہر میں موجود ملک کی دوسری بڑی ٹیکسٹائل مل کا جنرل مینیجر ہوں، ہماری ٹیکسٹائل مل میں جدید مشینی لومز کے علاوہ ہاتھ سے چلنے والے تین لوم تھے جو مل میں بننے والے خاص کپڑے میں استعمال کیے جاتے، دنیا بھر میں ہمارا کپڑا ہماری پہچان ہے، ہم نے اپنے ملک کا نام ٹیکسٹائل کی صنعت میں روشن کیا ہے، ہماری فیکٹری کی لان خریدنے کے لئے ملک میں اور ملک سے باہر خواتین کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے، ملک بھر میں ہمارے سینکڑوں آؤٹ لیٹس ہیں۔ راشد کو ہاتھ والے تین لوم میں سے ایک کو چلانے کے لئے ملازمت دی گئی، بے شک وہ اپنے کام کا ماہر تھا، گرمیوں کا موسم آنے سے پہلے لان کے ملبوسات کی تمام ڈیزائینگ جیسا کہ کپڑے کے پرنٹ، دوپٹے کیسے بنانے ہیں، روایتی کرتے کیسے بننے ہوں گے ، مکمل کر لی گئی تھی۔

فیکٹری میں خواتین ڈیزائنر کی ٹیم نے بہت محنت سے منفرد پرنٹس تیار کیے ، لیکن راشد نے نہ جانے اپنے لوم کے ساتھ کیا کیا، کہ بجائے مطلوبہ ڈیزائن بننے کے کچھ اور ڈیزائن بن گیا، سینکڑوں گز کپڑا اس میں صرف ہو کر ضائع ہو گیا، ڈیزائنر چراغ پا ہو گئی، فیکٹری کے مالک لان تیار ہونے کے موسم میں ہر لمحہ فیکٹری میں موجود ہوتے، وہ سخت گیر فطرت کے حامل افراد میں سے تھے، غلطی راشد نے کی تھی لیکن سزا سب کو دی گئی، جب تک لوم کو مطلوبہ معیار تک نہ لایا گیا، تمام ملازمین کو فیکٹری میں نظر بند کر دیا گیا، خواتین ڈیزائنرز اور دیگر خواتین ملازمین کا عملہ بھی ساتھ شامل رہا، ڈیزائنر ذہنی دباؤ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی، جس کو اسپتال پہنچایا گیا۔ تین دن لوم کو درست کرنے میں لگ گئے، بے شک ہم کو کھانا پینا ملتا رہا، مالک بھی ہمارے ساتھ رہے، لیکن ذہنی اذیت و جسمانی تھکن نے سب ملازمین کو نڈھال کر دیا، میری بیوی اور دس ماہ کا بچہ گھر میں اکیلے ہوتے ہیں، مجھے ان کی فکر بھی لگی رہی، راشد کو سب نے سخت سست کہا، وہ چپ چاپ سنتا رہا۔

کئی ماہ کی لگاتا محنت کے بعد آج لان کو مارکیٹس میں پہنچانا تھا، کپڑا ٹرکوں میں لوڈ ہو رہا تھا، گودام سے سادہ کپڑے کا اسٹاک بھی نکالا جا رہا تھا، کہ میں نے ایک چوہا گودام میں دیکھ لیا، کپڑے کے گودام میں چوہے کا مطلب کیا ہے، یہ ہم سے زیادہ کون جانتا ہو گا، میں چیخنے لگا، سارے ورکرز چوہے کو مارنے لپکے، ایک ہنگامہ مچ گیا، اس دوران میں نے راشد کو دیکھا جو گودام میں بالائی منزل پر جانے والی سیڑھیوں پر کھڑا ہنس رہا تھا، میرا غصہ قابو سے باہر ہو گیا، میں غصے سے دھاڑا، راشد حرام خور، تم ہنس رہے ہو، کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ اس گودام میں چوہے کا مطلب کیا ہے؟

راشد بدستور ہنستا رہا، اور بولا سر کچھ نہیں ہوتا، ابھی مر جائے گا، اتنے مضبوط ڈبے ہیں، ان میں نہیں گھس سکتا۔ میں چیخ اٹھا، احمق آدمی، اگر چوہا کسی بیرون ملک جانے والے ڈبے میں گھس گیا تو وہ ہمارا لائسنس منسوخ کر دیں گے۔ ہماری بدنامی ہو گی نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی، دوسری ٹیکسٹائل ملز اس واقعے کو نمک مرچ لگا کر اچھالیں گی، کاروبار ٹھپ ہو جائے گا بد بخت انسان! ہماری ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ وہ ایک دم چپ ہو گیا، پھر سب کے ساتھ مل کر چوہے کو ڈھونڈنے لگا، پورے دو گھنٹے کی جد و جہد کے بعد چوہا مارا گیا وسیع و عریض گودام میں ایک چوہے نے تقریباً پچاس افراد کو نچائے رکھا۔ اسی وجہ سے آج رات کا ایک بج گیا، سامان لوڈ ہونے میں تاخیر کا باعث وہی خبیث چوہا تھا، میں نے اور دوسرے مینیجر نے ایک ایک ڈبہ دوبارہ کھلوایا کہ کہیں دوسرا چوہا موجود نہ ہو۔ چوہے مار اور کیڑے مار دوا کا اسپرے کروایا۔

رات بارہ چالیس پر آخری ٹرک فیکٹری سے نکل گیا، کل صبح سے ہماری لان آؤٹ لیٹس پر موجود ہو گی، میں نے اطمینان کا ایک طویل سانس لیا اور گاڑی کی رفتار مزید بڑھا دی۔

پینتیس منٹ کی مسلسل تیز رفتار ڈرائیو کے بعد میں نے اپنے اپارٹمنٹس کی عمارت کے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کی، اور چند قدم دور لفٹ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ مجھے عمارت کے دو چوکیداروں کے ساتھ راشد کھڑا ہوا نظر آیا، میں چونک اٹھا، ابھی میں کچھ بولنے بھی نہ پایا تھا، کہ ایک چوکیدار نے مجھے آواز دی، منصور صاحب! یہ آپ کی فیکٹری کے ملازم آپ سے ملنے آئے ہیں، میں حیرت زدہ سا ان کی طرف بڑھا، راشد چند قدم چل کر میری طرف آیا، اور کہنے لگا، سر! آپ مجھ سے ناراض رہتے ہیں، یقین کیجیے میں ہر کام اچھے طریقے سے کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس دن لوم خراب ہونے میں بھی میرا کوئی قصور نہیں تھا، نہ ہی آج میں نے گودام میں کسی چوہے کو دیکھا تھا، صرف آپ کو ہی وہ چوہا نظر آیا تھا، اور کسی کو تو دکھائی بھی نہیں دیا تھا، وہ مسلسل بولے گیا، میں نے حیرانی سے اسے دیکھا، راشد میں نے کب کہا کہ میں تم سے ناراض ہوں اور لیکن اس نے میری بات کاٹ دی اور کہنے لگا، سر! بس مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کے دل میں میرے لئے ناخوشگوار خیالات ہیں، سر! ان خیالات کو دل سے نکال دیجیے، آئندہ آپ کو کوئی شکایت نہیں ہو گی، میں جا رہا ہوں۔

یہ کہہ کر وہ بھاگتا ہوا عمارت کے احاطے سے نکل گیا۔ میں اور دونوں چوکیدار بھی ہکا بکا رہ گئے۔

تھوڑی دیر کھڑے رہنے کے بعد ایک چوکیدار بولا، عجیب پاگل آدمی تھا، ایسے بھاگا کیوں، میں نے چونک کر کہا، پتہ نہیں، میں نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا تھا، بلاوجہ پریشان ہوا۔

یہ کہہ کر میں لفٹ کے ذریعے اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے تک پہنچ گیا، متبادل چابی سے دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوا تو میری بیوی جاگ رہی تھی، مجھے دیکھتے ہی بولی، چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں، کوئی بات ہو گئی کیا، میں نے بوکھلا کر چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کہا نہیں سب ٹھیک ہے، شکر ہے لان فیکٹری سے نکل گئی، کل لانچنگ ہے، ذمہ داری پوری ہوئی۔

بیوی نے پوچھا چائے بناؤں، نہیں آج بس نیند پوری کرنی ہے ، کئی ماہ کی ٹینشن کے بعد آج پرسکون نیند سوؤں گا۔

شاور لینے کے بعد میں بستر پر گر گیا، لیکن یہ میری خام خیالی تھی کہ میں پرسکون نیند سو سکوں گا، مجھے خواب میں فیکٹری میں موجود مختلف لومز نظر آتے رہے اور بار بار آنکھ کھلتی رہی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی، میں اٹھ بیٹھا، اور اکتا کر بالکنی میں آ گیا، ہلکی سی خنکی اور دھندلکے میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ مجھے لوم کیوں نظر آتے رہے، ایسا پہلی بار ہوا تھا، کہ تیرہ سالہ ملازمت کے دوران مجھے خواب میں فیکٹری اور اس کی مشینیں نظر آئیں تھیں۔ میں کافی دیر بالکنی میں کھڑا یہی سوچتا رہا، پھر اکتا کر دوبارہ کمرے میں آ گیا، بچہ اور بیوی دونوں جاگ چکے تھے، بیوی نے حیران ہو کر پوچھا، اتنی جلدی اٹھ گئے، میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میرے سیل فون کی بیل بجنے لگی، میں نے سیل فون دیکھا تو آبائی شہر سے میرے بھائی کا فون آ رہا تھا، میں نے فوراً ریسیو کیا اور بولا اتنی صبح۔ سب خیریت ہے؟

وہ کہنے لگا جی جی سب خیریت ہے لیکن آپ کی خیریت مطلوب ہے، امی نے آپ کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے کہا کہ آپ کو فون کروں ، میں نے کہا بھی کہ ابھی آپ سو رہے ہوں گے لیکن وہ بضد تھیں آپ سے بات کرنے کے لئے، میں نے طویل سانس لیا، اور کہا نہیں میں جاگ چکا تھا، امی کو فون دو، ماں نے فوراً پوچھا، پتر تو ٹھیک ہے۔ جی امی میں بالکل ٹھیک ہوں، ابھی سو کر اٹھا ہوں، پتر میں نے خواب میں دیکھا، تیری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، تیرے ساتھ تیرا دوست بھی تھا، میرا دل دہلے جا رہا تھا، اسی لئے تجھ سے بات کرنی چاہی، مجھے ہنسی آ گئی، میں بالکل ٹھیک ہوں، خواب ایسے ہی آ جاتے ہیں، مجھے بھی خواب میں فیکٹری کی مشین نظر آتی رہی، میں کھل کر ہنسا، کافی دیر تک ماں سے بات کرنے کے بعد میرا ذہن ہلکا پھلکا ہو گیا، فون بند کر کے میں اپنے بچے کے ساتھ کھیلنے لگا اور بیوی کو ناشتہ بنانے کے لئے کہا۔

ناشتہ کرتے ہوئے بیوی نے کہا، لان کا ایک سوٹ تو لیتے آتے۔
میں نے تلخی سے کیا، مالکان خسیس ہیں، دے ہی نہ دیں۔۔۔ سیزن کے آخر میں شاید مل جائیں۔

بیوی چیخ اٹھی کیا مطلب، میں تو شادی کے وقت اتنی خوش تھی کہ چلو اب لان کے سارے ڈیزائنز پہنوں گی، میں نے قہقہہ لگایا، میں فیکٹری میں ملازم ہوں، فیکٹری کا مالک نہیں۔

بیوی کا منہ بن گیا، میں نے تسلی دی۔ ہم خرید سکتے ہیں، مفت کی توقع نہ رکھو، ناشتہ کر کے میں آفس کے لئے تیار ہوا اور بیوی کے گال شرارت سے تھپتھپا کر اپارٹمنٹ سے باہر نکل آیا۔

پارکنگ میں پہنچا تو صفائی کرنے والے اور گاڑیاں صاف کرنے والے لڑکے زور زور سے آپس میں باتیں کرتے ہوئے اپنا اپنا کام کر رہے تھے، میں نے اونچے اور سخت لہجے میں کہا، بہت شور مچاتے ہو تم لوگ، اوپر کے اپارٹمنٹس تک آوازیں آ رہی ہوتی ہیں، تمہیں کام کرنے کے پیسے دیتے ہیں، شور مچانے کے نہیں۔

وہ سب یک دم چپ ہو گئے، میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھا، لڑکا جلدی جلدی گاڑی صاف کرنے لگا، گاڑی کے ارد گرد پانی تھا، میں پھر چیخا، یہ اتنا پانی کیوں بہایا ہے، شہر میں ویسے ہی پانی کی قلت ہے، تم لوگ روز گاڑیاں دھونے کھڑے ہو جاتے ہو، لڑکا گھبرا کربولا، سر آپ کی گاڑی کے ٹائر بہت گندے ہو رہے تھے، اس لیے میں نے صرف آپ کی گاڑی دھوئی ہے۔ میں دھاڑا، جلدی خشک کرو، وہ جلدی جلدی کپڑے سے گاڑی صاف کرنے لگا۔

گاڑی صاف ہو جانے کے بعد میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو گاڑی کی چابی نہ تھی، میں نے کوفت سے ہر جیب ٹٹولی، لیکن چابی شاید میں گھر میں بھول آیا تھا، ناچار لفٹ سے واپس اوپر آیا ۔ گھر میں داخل ہوا تو بیوی گھبرا کر بولی، کیا ہوا خیریت ہے، کچھ نہیں یار چابی بھول گیا ہوں، لا کر دو، وہ چابی ڈھونڈنے لگی لیکن چابی نہ ملی، کل والی قمیض کی جیب میں دیکھو، میں نے زور سے کہا اور خود صوفے پر گر گیا۔ بیوی کو چابی نہ ملی، میں نے خود اٹھ کر تلاش کی، لیکن چابی کو ملنا تھا نہ ملی۔ رات کو یہیں تو رکھی تھی میں نے لیپ ٹاپ کے ساتھ، میں نے میز پر ہاتھ مارا۔ بیوی نے کہا، جائیے کسی پڑوسی کی گاڑی کی چابی سے لاک کھول لیجیے پھر بنوا لینا۔

میں خراب موڈ کے ساتھ نیچے آیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی اپنی گاڑی کے ساتھ نظر آئے تو کہوں لیکن پارکنگ میں اکا دکا گاڑیاں ہی رہ گئیں تھیں۔

دس منٹ میں سب نکل گئے کمال ہے ، میں بڑبڑایا۔ صفائی کرنے والے لڑکے بھی جا چکے تھے۔

عمارت کا ایک منتظم میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا، خیریت ہے سر کیا ہوا، میں نے جھلا کر کہا، گاڑی کی چابی گم ہو گئی ہے، بلاؤ کسی مکینک کو۔

وہ فون پر نمبر ملانے لگا۔ مجھے صفائی والا لڑکا دوبارہ عمارت میں داخل ہوتا دکھائی دیا، وہ تیز قدموں سے قریب آیا اور جیب سے گاڑی کی چابی نکالی، سر یہ آپ کی گاڑی کی چابی اس کے قریب زمین پر گری ہوئی تھی، میں نے گاڑی صاف کرتے ہوئے رکھ لی تھی، دینا بھول گیا تھا، اس نے چابی میری طرف بڑھائی۔ میں غصے سے گرجا تم سب حرام خور ہو، تم کو رحم کھا کر اپنے علاقوں کا سمجھ کر روزگار دیا جاتا ہے لیکن تم لوگ بد ذات اور ہڈ حرام ہی رہو گے، کبھی بھی کوئی کام ذمہ داری سے نہیں کرتے۔

لڑکا پیچھے ہٹتے ہوئے بولا، سر آپ چیخنے لگتے ہو ، میں ڈر گیا تھا اس وقت بھی اس لیے دینا بھول گیا۔

میں نے غصے سے کہا، جسٹ شٹ اپ ایڈیٹ، دفع ہو جاؤ۔ منتظم بھی بولا، صاحب کو آفس سے دیر کروا دی تم نے۔ تمہاری کوتاہی ہے۔ تم چابی مجھے دے دیتے۔ لڑکا کچھ نہیں بولا، واپسی کے لئے مڑ گیا۔

میں نے غصے سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور تیزی سے گاڑی پارکنگ سے نکال لی۔

فیکٹری والی سڑک پر پہنچا تو لوگوں کا رش تھا، فلاحی ادارے کی ایمبولنس کھڑی تھی، شاید کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا، میں بہ مشکل فیکٹری تک پہنچا، پارکنگ میں گاڑی سے اترتے ہی ایک ورکر نے مجھے بتایا، سر! آپ کو معلوم ہوا، بے چارہ راشد رات کو مر گیا۔

میں بھونچکا رہ گیا، بہ مشکل بول پایا، کیسے، تم کو کس نے بتایا؟

ورکر روتی آواز میں کہنے لگا، سر نہ جانے کس ظالم ڈرائیور نے اسے کچل دیا، بے چارے کی لاش صبح تک پڑی رہی، نہ جانے کتنی اور گاڑیوں نے لاش کو روند دیا، بہ مشکل فلاحی تنظیم کے افراد نے اس کے جسم کے ٹکڑے جمع کیے ہیں۔

میرے تصور میں رات کا منظر آ گیا، وہ تو میرے گھر تک آیا تھا لیکن اس کو میرے گھر کا پتہ کیسے معلوم ہوا تھا۔ میرے ذہن میں لوم گردش کرنے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments