تیگرے، ایتھوپیا: ’ریپ کے کوشش میں ایک فوجی سے بچنے کے دوران میں نے اپنا ہاتھ گنوا دیا‘


A Photoshopped image showing a woman covering her face and holding up her other hand

انتباہ: اس کہانی کی تفصیلات کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

ایتھوپیا میں ایک سکول کی طالبہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جب ایک سپاہی نے ان کا ریپ کرنے کی کوشش کی تو اس دوران اپنا دفاع کرنے کی کوشش میں انھوں نے کس طرح اپنا دایاں ہاتھ کھو دیا تھا۔۔۔ اس سپاہی نے ناصرف ان کو ریپ کرنے کی کوشش کی بلکہ ان کے دادا کو بھی اُن کے ساتھ سیکس کرنے پر مجبور کیا تھا۔

اٹھارہ سالہ یہ لڑکی (جن کی شناخت خفیہ رکھی جا رہی ہے) ایتھوپیا کے شمالی خطے تیگرے کے ایک ہسپتال میں گذشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے زیر علاج ہیں۔

تیگرے میں نومبر 2020 کے اوائل میں اس وقت کشیدگی شروع ہوئی جب وزیر اعظم ابی احمد نے خطے کی حکمران پارٹی کا اقتدار ختم کرنے کے لیے اس وقت ایک کارروائی شروع کی جب ان کے عسکریت پسندوں نے وفاقی فوجی اڈوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے اس اٹھارہ سالہ لڑکی اور ان کے کئی ہم جماعت ساتھیوں کے مستقبل کے خوابوں کو تباہ کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پہلی اسرائیلی وزیر جو ایتھوپیا میں پیدا ہوئیں

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

لڑکیاں درخت سے لٹکی ہوئی ملی تھیں: انڈیا ریپ کیسز سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہو رہا ہے؟

ان بچوں میں سے بیشتر اپنے خاندانوں کے ساتھ پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ہیں۔ 29 نومبر کو وفاقی فوجوں کے جانب سے تیگرے ​​کے دارالحکومت میکیل پر قبضہ کرنے اور فتح کا اعلان ہونے کے بعد بہت سے لوگ دربدر ہوئے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرنے والے ٹی پی ایل ایف (سابق حکمراں جماعت) کے ممبران کی تلاش کے لیے ایک آپریشن شروع کیا، جس کے بعد فوجیوں کی جانب سے تیگرے ​​کے رہائشیوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

سکول کی متاثرہ طالبہ اور اس کے دادا میکیلے سے تقریباً 96 کلومیٹر مغرب میں ابی اڈی کے گاؤں میں اپنے گھر میں ہی رہے، کیونکہ ان کے لیے پہاڑوں کی جانب بھاگنے کا یہ سفر کرنا مشکل تھا۔

Mountain canyon landscape, with rock formations and valley, in Tigray in northern Ethiopia

نوعمر لڑکی کے مطابق تین دسمبر کو ایک فوجی، جو ایتھوپیا کی فوجی وردی میں ملبوس تھا، ان کے گھر میں داخل ہوا اور پوچھا کہ جنگجو کہاں ہیں؟

گھر کی تلاشی لی گئی مگر وہاں کوئی جنگجو نہ ملا جس کے بعد فوجی نے انھیں حکم دیا کہ وہ چارپائی پر لیٹ جائیں اور ان کے چاروں طرف گولیوں کا نشانہ لگانا شروع کر دیا۔

متاثرہ لڑکی کے مطابق ’اس کے بعد اس نے میرے دادا کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ سیکس کریں۔ میرے دااد بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے لڑنا شروع کر دیا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ سپاہی دادا کو گھر سے باہر لے گیا اور ان کے کندھوں اور ران میں گولی مار دی اور پھر یہ کہتے ہوئے ان کے پاس لوٹ آیا کہ تمھارے دادا کو مار دیا گیا ہے۔

’اس نے کہا: اب کوئی بھی تمھیں نہیں بچا سکتا۔ اپنے کپڑے اتار دو۔‘

’میں نے اس سے التجا کی کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن اس نے مجھے بار بار مکے مارے۔‘

’یہ جدوجہد کئی منٹ جاری رہی حالانکہ میں اتنی مار پڑنے کے بعد نڈھال ہو گئی تھیں اور آخر کار وہ اتنا ناراض ہو گیا کہ اس نے بندوق تان لی۔‘

’اس نے میرے دائیں ہاتھ پر تین بار گولی ماری۔ اس نے میری ٹانگ میں تین بار گولی ماری۔ پھر باہر سے بندوق کی آواز سُن کر وہ چلا گیا۔‘

شکر ہے کہ ان کے دادا زندہ بچ گئے اگرچہ وہ بے ہوش تھے اور دو دن تک وہ گاؤں میں زخمی حالت میں رہے مگر مدد حاصل کرنے کے خوف سے منسلک خدشات سے وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔

’کوئی انصاف نہیں

اس نوجوان لڑکی کی کہانی تیگرے میں کشیدگی کے دوران ہونے والے جنسی تشدد کے متعلق اقوام متحدہ کی مندوب پرمیلا پیٹن کے خدشات کی تصدیق کرتی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’انھیں پریشان کن اطلاعات ملی ہیں جن میں مبینہ طور پر کئی خاندان کے ممبروں کو زبردستی تشدد کی دھمکیوں کے تحت زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘

’مبینہ طور پر کچھ خواتین کو بنیادی اجناس کے بدلے میں فوجیوں نے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا ہے، جب کہ طبی مراکز کی جانب سے ہنگامی مانع حمل اور جنسی طور پر منتقلی کے انفیکشن کی جانچ کے مطالبہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو اکثر تنازعات میں جنسی تشدد کا اشارہ ہوتا ہے۔‘

عورت

تیگرے میں حزب اختلاف کی تین جماعتوں نے کہا ہے کہ ماورائے عدالت قتل اور اجتماعی ریپ ’روزمرہ کے معمول‘ بن چکے ہیں اور انھوں نے اس واقعے کا حوالہ بھی دیا ہے جب بندوق کی نوک پر ایک باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی پر مجبور کیا گیا تھا۔

ایک ڈاکٹر اور خواتین حقوق کے گروپ کی ایک ممبر جو دونوں اپنی شناخت نہیں ظاہر کرنا چاہتے ہیں، نے بی بی سی کو جنوری میں بتایا تھا کہ انھوں نے میکیلے کے مختلف ہسپتالوں اور صحت مراکز میں 18 سال سے کم عمر 200 لڑکیوں کی رجسٹریشن کروائی ہے جن کا ریپ کیا گیا تھا۔

ان میں سے بیشتر نے کہا کہ ان کا ریپ کرنے والوں نے ایتھوپیا کی فوج کی وردی پہنی ہوئی تھی اور اس کے بعد انھیں طبی مدد لینے کے خلاف متنبہ کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر نے بتایا ’ان کو زخم آئے ہیں۔ کچھ کا تو اجتماعی ریپ بھی کیا گیا ہے۔ ایک لڑکی کو ایک ہفتے تک ریپ کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور وہاں کوئی پولیس نہیں ہے، لہذا انھیں انصاف ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن کا کہنا ہے کہ ’ہم نے تیگرے کے دوسرے حصوں سے بھی ریپ کی ایسی ہی افسوسناک کہانیاں سنی ہیں۔ لیکن نقل و حمل کے مسائل کی وجہ سے ہم ان کی مدد نہیں کر سکے۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔‘

میکیلے کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ایک اور طبی کارکن نے بتایا کہ حال ہی میں ایک دن میں پانچ یا چھ خواتین ایچ آئی وی اینٹی دوائیوں اور ہنگامی مانع حمل کے لیے ہسپتال آ رہی ہیں۔

وینی ابرہ، جن کا تعلق تیگرے میں خواتین کے حقوق کے ایک گروپ ییکونو (بہت ہو گیا) سے ہے اور وہ دسمبر کے آخر تک میکیلے میں تھیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ جنگ میں ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

’میکیلے میں بہت سی خواتین کا ریپ کیا گیا۔ اس کا مقصد لوگوں کے حوصلوں کو توڑنا، دھمکیاں دینے اور لڑائی ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔‘

ایتھوپیا کے آرمی چیف برہانو جولا گیلچہ نے اس طرح کے الزامات کی تردید کی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہماری دفاعی فورسز ریپ نہیں کرتی ہیں۔ وہ ڈاکو نہیں ہیں۔ وہ سرکاری فوجیں ہیں۔ اور سرکاری افواج میں اخلاقیات ہوتی ہیں اور انھیں ضوابط پر عمل کرنا آتا ہے۔‘

میکیلے کے نئے مقرر کردہ عبوری میئر، اٹکیلیٹ ہیلیلاسسی نے کہا کہ انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے جو اعدادوشمار بتائے جا رہے ہیں ان میں حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔

حکومت نے حال ہی میں ان الزامات کی مزید تحقیقات کے لیے تیگرے میں ایک ٹاسک فورس بھیجی ہے جس میں خواتین اور صحت کی وزارت کے افراد اور اٹارنی جنرل کے دفتر بھی شامل ہیں، ان افراد کے مطابق ریپ کے واقعات ہوئے ہیں تاہم ان کی مکمل رپورٹ ابھی سامنے نہیں آ سکی ہے۔

پچھلے ہفتے ایتھوپیا کے انسانی حقوق کمیشن نے کہا تھا کہ پورے تیگرے میں گذشتہ دو ماہ کے دوران زیادتی کے 108 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اگرچہ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ’مقامی ڈھانچے جیسے پولیس اور صحت کی سہولیات جہاں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے عام طور پر اس طرح کے جرائم کی اطلاع دی جاتی ہے، اب ویسی کوئی جگہ نہیں ہیں۔‘

میں انجینئر بننا چاہتی تھی‘

بی بی سی سے اپنا ہاتھ کھو دینے والی اس نوجوان لڑکی سے ایک ڈاکٹر کے ذریعہ رابطہ کیا۔

اس لڑکی اور ان کے دادا نے بتایا کہ وہ دونوں دو دن بعد علاقے کی تلاشی لینے والے اریٹرین فوجیوں کو ملے، حالانکہ ایتھوپیا اور اریٹیریا دونوں ہی تیگرے ​​تنازع میں اریٹرییا کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اریٹریئنوں نے ان کے زخمیوں کی دیکھ بھال کی اور انھیں ایتھوپیا کی فوجوں کے حوالے کر دیا جو ابی اڈی میں ہسپتال بند ہونے کے سبب انھیں میکیلے لے گئے تھے۔

ان کے دادا اب اپنے زخموں سے صحت یاب ہو چکے ہیں، لیکن ان کی پوتی کو اب بھی ہاتھ کٹ جانے کے بعد علاج کی ضرورت ہے۔ ان کی دائیں ٹانگ پر اب بھی پلاسٹر لگا ہے۔

انھوں نے ہسپتال کے بستر سے اپنے کھوئے ہوئے خوابوں کے بارے میں روتے ہوئے بی بی سی سے بات کی۔

جنگ کے آغاز سے پہلے سکول کے آخری سال میں ان کی خواہش یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے اور ایسا کیریئر بنانے کی تھی جس سے وہ اپنے دادا کی دیکھ بھال کر سکیں۔ ان کی والدہ کی موت کے بعد سے دادا نے ہی ان کی پرورش کی ہے۔

جب سسکیاں لیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ کیسے ممکن ہو گا؟ اب وہ نہیں ہو سکتا جو میں نے سوچا تھا‘ تو ان کے پہلو میں کھڑے دادا نے انھیں دلاسہ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp