کیا آپ ڈپریشن کے رازوں سے واقف ہیں؟


وفات کے بعد غم زدہ لواحقین کو نہ صرف اپنی سوچ بلکہ اکثر صورتوں میں اپنے طرز زندگی کو بھی ازسر نو ترتیب دینا پڑتا ہے. ڈپریشن اپنے کردار یا منصب کے کھو جانے کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے. بہت سی مائیں جن کے لیے اپنا ماں کا کردار. بیش بہا مسرت کا حامل ہوتا ہے جب وہ زندگی کے اس مقام پر پہنچتی ہیں جہاں ان کی آخری اولاد اسکول چلی جاتی ہے. یا گھر چھوڑ جاتی ہے یا رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جاتی ہے. اور ان کا ماں کا کردار غیر ضروری ہوجاتا ہے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں.

بعض اوقات یہ نقصان کافی در پردہ ہوتا ہے. مجھے وہ نرس یاد ہے جو ترقی پا کر اپنے ہیڈ نرس بننے کی وجہ سے کافی خوش تھی. لیکن چند مہینوں بعد دھیرے دھیرے اس کو یہ احساس ہونے لگا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کی دوستی اور رفاقت کو کھو دیا ہے. اس کے ساتھی اب اس کو اپنا افسر تصور کرنے لگے ہیں چہ جائیکہ ایک دوست, وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئی.

کچھ صورتوں میں لوگ تب ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جب وہ زندگی سے معنی کھو دیتے ہیں یا ان کا ایمان زندگی پر سے اٹھ جاتا ہے. سوویت یونین کے زوال کے بعد کچھ کمیونسٹ اس قدر ڈپریشن کا شکار ہوئے کہ انھوں نے خود کشی کر لی.

ڈپریشن کی دوسری قسم ہے دائمی افسردگی (chronic unhappiness) جو انتہائی مایوس کن اور غیر فعال طرز زندگی کا نتیجہ ہے. اگر لوگ ایسی نوکری کر رہے ہو جس میں ان کے وجود کو گھٹن کا احساس ہو یا وہ ایسے رشتے کا حصہ ہوں جہاں ان کی ضروریات باقاعدہ طور پر پوری نہ ہوتی ہو ایسے لوگ دائمی افسردہ (chronically unhappy) اور ڈپریس محسوس کرتے ہیں. یہ ڈپریشن dysthymia کہلاتا ہے.

ڈپریشن کی تیسری قسم, جو سب سے زیادہ سنگین ہے Affective disorder یا Manic. depressive illnessایک بیماری کا حصہ ہے. اس بیماری کو unipolar کہا جاتا ہے, اگر فرد صرف ڈپریشن کی واردات کا شکار ہے. لیکن اگر ڈپریشن کے ساتھ انماد (mania) کی واردات کا شکار بھی ہے تو ہم اس کو bipolar کہتے ہیں.

Unipolar اور bipolar امراض میں مبتلا افراد کے دماغ میں biochemical تبدیلیوں اور علامات کے قابو کے لیے ادویات کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے. اگر حالت بگڑ جائے اور کلینک کے مریض (out patient) کے طور پر علاج مشکل ہو, ایسے فرد کو ہسپتال میں داخل کروانا ضروری ہے.

ڈپریشن کو سمجھنے کے لئے ان عوامل کا جاننا ضروری ہے جو لوگوں کو کمزور کرنے میں شامل ہے جن کے باعث لوگ ڈپریشن کا شکار بنتے ہیں. چوں کہ ڈپریشن نقصان (loss) کا نفسیاتی ردعمل ہے, جتنا بڑا نقصان ہوتا ہے فرد پر اتنے ہی زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں. ایسے افراد جو all eggs in one basket تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے کے عادی ہوتے ہیں پھر چاہے وہ نوکری ہو, محبت, خاندان یا ان کی زندگی کا کوئی اور رخ وہ زیادہ کمزور ہوتے ہیں بنسبت ان لوگوں کے جن کی جذباتی وابستگی مختلف چیزوں اور افراد سے ہوتی ہے. اگر وہ کسی ایک چیز یا فرد کو کھو دیتے ہیں تو ان کے پاس دیگر سہارے موجود ہوتے ہیں. ایسے افراد جو جذباتی طور پر اپنے والدین یا شریک حیات یا بہترین دوست پر انحصار کرتے ہیں عموماً بکھر جاتے ہیں جب وہ اس رشتے کو کھو دیتے ہیں. ان کی زندگی اس فرد کے بغیر غیر فعال ہوجاتی ہے. ایسے افراد Grief reaction کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جو افراد dysthymia کا شکار ہوتے ہیں ان میں بتدریج بے بسی کا احساس گھر کر جاتا ہے روزمرہ کے مصائب سے شدید ہیجان محسوس کرنے لگتے ہیں جذباتی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں اور اس منفی چکر negative cycle کو توڑنے میں ناکام رہتے ہیں. بیشتر افراد اپنی غیر مطمئن نوکری کو خیرباد نہیں کہہ پاتے کیونکہ وہ خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اگر وہ دوسری نوکری حاصل نہ کر پائے تو کہیں ان کا خاندان فاقوں کا شکار نہ ہو جائے. دوسرے وہ افراد ہیں جو ناآسودہ, پابند اور توہین آمیز ازدواجی رشتے میں بندھے رہتے ہیں اور یہ بندھن محبت کی بجائے احساس جرم یا فرض ہوتا ہے. بیشتر رشتہ ازدواج سے منسلک افراد جو تنہائی سے خوفزدہ ہوتے ہیں. A bad relationship is better than no relationship گویا برے تعلق کو تعلق نہ ہونے سے بہتر سمجھتے ہیں. بیشتر خواتین عموماً وہ جن کے بچے چھوٹے ہیں اور وہ کسی پیشہ ورانہ کام سے منسلک نہیں ہیں مالی اور جذباتی طور پر کمزور محسوس کرتی ہیں ان کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ازدواجی رشتے سے الگ ہو گئیں تو یہ ان کی اولاد کے لیے باعث تکلیف ہوگا. اپنی اولاد کی خاطر وہ اپنی جوانی کا بلیدان دیتی ہیں اور سالہا سال پریشر کا شکار رہتی ہیں بیشتر ایسی مائیں دائمی تھکان محسوس کرتی ہیں اپنے خاندان کی دیکھ بھال میں ہلکان رہتی ہیں اور اپنی ذات کی ضرورتوں کو نظرانداز کرتی ہیں. جب وہ اپنے لیے کچھ کرتی ہیں تو احساس جرم انہیں گھیر لیتا ہے انہوں نے اپنا خیال رکھنا self careنہیں سیکھا ہوتا.

یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ بڑی تعداد میں وہ افراد ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں جن کی شخصیت مثالیت پسند ‘کمال پرست (perfectionist) اور آدرش وادی (idealistic) ہے. ان کو اپنے رفقاء, شریک حیات, اقارب اور خود اپنی ذات سے بھی بلند توقعات وابستہ ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ با آسانی مایوس ہو کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں. ان کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ زندگی سے ان کی توقعات غیر حقیقی ہیں. ان میں سے بیشتر افراد کی پرورش ایسے خاندانوں میں ہوئی ہوتی ہے جہاں والدین ان سے بلند توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سے محبت کی وجہ ان کی ذات کی بجائے ان کی کارکردگی ہے.

یہی وجہ ہے کہ اعلی متوسط طبقہ اور ملازمت پیشہ خاندانوں کی بچوں میں ہر بچے سے اپنی کلاس میں اول رہنے کی امید وابستہ کی جاتی ہے جو ڈپریشن کا باعث ہوتی ہے. حتی کہ بہن بھائیوں کے مابین عموماً پہلوٹی کی اولاد میں اس فلسفے اور طرز زندگی کو اپنانے کے امکانات ہوتے ہیں. وہ تیس طلباء کی کلاس میں دوئم آ جائیں تو ان کو تعریف و توصیف اور انعام و اکرام کی بجائے اول نہ آنے پر ڈانٹ پھٹکار سے نوازا جاتا ہے. ان میں سے متعدد طالب علم بعد میں اپنے ماں باپ کی ان توقعات کو اپنی ذات کا داخلی حصہ بنا لیتے ہیں. اور اگر وہ اعلی کامیابیاں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تو وہ اپنی ذات سے مایوس ہو جاتے ہیں. ان کے لئے کسی عمل یا سفر سے لطف اندوز ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے وہ عمومی طور پر مقاصد اور منزل کے لیے استغراق کا شکار رہتے ہیں

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments