کیا آپ ڈپریشن کے رازوں سے واقف ہیں؟


وہ بیشتر مرد جو اپنی نوکریوں سے ناآسودہ ہیں اور بیشتر عورتیں جو اپنی ازدواجی زندگی میں ناخوش ہیں وہ بھی خود توقیری کے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں. غیر ارادی طور پر یہ خیال ان کے ذہن میں جنم لے لیتا ہے کہ وہ کسی بہتری کے اہل نہیں کچھ افراد کو غیر حل شدہ احساس جرم گھیرے رہتا ہے اور غیر ارادی طور پر وہ خود کو سزا دیتے ہیں. ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ اس نے ارادتاً اپنا وزن بڑھایا کیونکہ وہ بے کشش ہونا چاہتی تھی. وہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اس سے علیحدگی اختیار سپل برگ کیونکہ اس میں اپنے شوہر سے علیحدہ ہونے کی جرات نہیں تھی اس نے اپنے آپ کو قائل کر لیا تھا کہ وہ محبت کے قابل نہیں.

جہاں تک manic. depressive عارضے کا تعلق ہے اس کے کافی شواہد موجود ہیں کہ یہ خاندانی عارضہ ہے. بائی پولر (bi.polar) عارضے میں یونی پولر (uni. polar) عارضے کی نسبت مضبوط موروثی بار ہوتا ہے. Manic ڈپریشن کا شکار والدین کے بچے حیاتیاتی کیمیائی (biochemical) تبدیلیوں سے غیر محفوظ ہوتے ہیں اور جب ان کو کسی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو دماغ میں noradrenaline, dopamine یا serotonin (کیمیائی مادوں) میں حیاتیاتی کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں. ایسی حیاتیاتی کیمیائی تبدیلیوں سے جسمانی تبدیلیوں کی علامات پیدا ہوتی ہیں جن کو عموماً Vegetative Symptoms کہا جاتا ہے, جن میں شامل ہیں :

بھوک اور وزن کا کم ہونا
نیند کم ہونا.
صبح سویرے نقاہت کا احساس.
قبض
حیض کا نہ ہونا
صبح سویرے طبیعت کا مکدر ہونا
توانائی اور تحریک کی کمی

ان علامات سے حیاتیاتی کیمیائی ڈپریشن (biochemical depression) اور نفسیاتی ڈپریشن (psychological depression) میں تفریق کی جا سکتی ہے جو ماحولیاتی عوامل کا ردعمل ہے.

حیاتی کیمیائی (بائیو کیمیکل ) ڈپریشن اس قدر برا ہو سکتا ہے کہ مریض کو سوچنے, ارتکاز (توجہ مرکوز کرنے ) اور اعضاء کی حرکت میں دشواری کا باعث ہو. اسی لیے اس کو psyco. motor. retardation کہا جاتا ہے.

وہ افراد جو ایسے ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں بسا اوقات ماضی کے واقعات پر شدید احساس گناہ محسوس کرتے ہیں. جو اکثر افراد کے لیے غیر اہم ہیں. 60 سال کی عمر میں ایک خاتون شدید ڈپریشن کی مریضہ تھی. جو اپنی سولہ سال کی عمر میں پہلی dateکے اختتام کی شام بوسے کی وجہ سے احساس گناہ کا شکار تھی.

بائی پولر عارضے کے مریض مینیا (manic) کی واردات کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کی واردات کا شکار بھی ہوتے ہیں. مینیا (manic) واردات کی علامات ڈپریشن کی واردات سے متضاد ہوتی ہیں. متعدد مریض توانا محسوس کرتے ہیں سوچنے کی صلاحیت تیز ہو جاتی ہے کرتے ہیں اور عجیب حرکات کرتے ہیں.

بعض افراد مینیا (manic) کی واردات کے دوران کئی کئی روز سوتے نہیں ہیں گھر کا کام کاج رات کے اوقات میں کرتے ہیں اور کبھی ہزاروں ڈالر چند روز میں خرچ کر دیتے ہیں. بیشتر ایسی صورتوں میں مریضوں کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پیش آتی ہے.

ڈپریشن کا علاج مرض کی تشخیص اور اس کے پیچھے بنیادی محرکات کو سمجھنے پر منحصر ہے. مینیا اور (manic) ڈپریشن میں مبتلا مریضوں پر شدید واردات کے دوران مانع ڈپریشن (antidepressant) اور استحکام مزاج (mood stabilizer) ادویات عموماً بہتر کام کرتی ہیں اور بعد ازاں تعلیم اور نفسیاتی علاج (psychotherapy) .

Grief reaction میں مبتلا افراد عموماً چند مہینوں کی support therapy سے خاطر خواہ افاقہ محسوس کرنے لگتے ہیں جب کہ وہ مریض جو dysthymia کا شکار ہوں ان کو عموماً طویل المیعاد علاج (long term psychotherapy) کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ذاتی عناصر پر توجہ دی جاتی ہے.

دوران علاج (تھراپی) مریضوں کو ان کے کمال پسند رجحانات اور توقعات سے آگاہ کیا جاتا ہے جب مریض علاج کے دوران یہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح اپنے نقصانات اور مایوسی سے نبرد آزما ہوں اور پھر کیسے مستقبل میں پیش آنے والی ڈپریشن کی واردات سے محفوظ رہ سکیں. جب مریض اپنی عزت نفس اور ذاتی توقیر بنا لیتے ہیں. اور اپنے لئے دوستوں کا ایک مددگار حلقہ قائم کر لیتے ہیں تو وہ اپنی زندگیوں کی مایوسیوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ لیس ہوتے ہیں.

چونکہ ڈپریشن کے اثرات خاندان پر پڑتے ہیں اس لیے اس بارے میں آگاہی اور مدد پورے خاندان کے لیے بہت ضروری گزشتہ چند دہائیوں سے manic. depressive associations بہت سی communities میں ان رفقاء اور خاندانوں کی امداد کر رہی ہیں جن کے افراد ڈپریشن کا شکار ہیں.

لوگوں میں یہ آگاہی بڑھتی جا رہی ہے کہ ڈپریشن کے اثرات فرد پر ہی نہیں بلکہ خاندانوں اور معاشروں پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اس سے بچنے اور قابو پانے کے لیے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے. اخبارات, رسائل اور ٹیلی ویژن پروگرام عوامی آگاہی اور سماجی شعور کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. پچھلی صدی کی سائنسی اور نفسیاتی تحقیق اور علاج کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ پیشہ ورانہ اور ماہرانہ مدد حاصل کر رہے ہیں اور اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ

نہیں ایسی کوئی بھی رات جس کا
کہیں سورج کوئی نہ منتظر ہو (خالد سہیل)

تحریر: ڈاکٹر خالد سہیل – ترجمہ: ہما دلآور

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments