آئینے کے پیچھے


زاہد اور طارق جب ٹاپ گن کے بڑے ہال میں پہنچے تو پارٹی کا بے قاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ نسیم، وحید، شمیم، راؤ، مہتا، بینجمن، پٹیل وغیرہ بھی پہنچے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی بہت سارے انگلش ڈاکٹروں کا مجمع بھی موجود تھا۔ بڑے سارے ہال میں رنگارنگ بلب جگمگ جگمگ کر رہے تھے۔ ہال کے بیچ میں ڈسکو لائٹس لگی ہوئی تھیں۔ دیواروں سے موسیقی اس طرح پھوٹ رہی تھی جیسے فوارے سے پانی نکلتا ہے۔ کبھی تیز کبھی آہستہ، کبھی دھیمے دھیمے اور کبھی اتنی تیز کہ صرف پانی کی بوچھاڑ ہی دکھائی دیتی ہے۔

ہال کے کنارے بار تھا اور بار کے ساتھ ہی میز پر کھانے کا انتظام تھا۔ مختلف قسم کے سینڈوچ، کباب اور پنیر سے ٹیبل بھرا ہوا تھا۔ بار کے ساتھ ہی لوگ چھوٹے چھوٹے گروپ کی شکل میں کھڑے تھے۔ ہاتھوں میں گلاس اور گلاسوں میں بیئر یا وہسکی۔ آہستہ آہستہ ہر کوئی چسکیاں لے رہا تھا۔ کیتھرینا اور نولن دونوں ہی ریڈیو گرافر تھیں۔ کیتھرینا آئرش تھی اور نولن اسکاٹش۔ دونوں ہی ایک فلیٹ میں رہتی تھیں، دونوں غیر شادی شدہ تھیں، دونوں ہی بغیر کسی بوائے فرینڈ کے تھیں اور دونوں ہی آسان لڑکیاں تھیں۔ ہیلو ہیلو کے بعد باتیں چل نکلی تھیں۔ عورتوں کے حقوق اور میگی تھیچر کی سیاست، ہر چیز کا ذکر تھا۔ ہال کی آبادی میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ رنگ رنگ کی لڑکیاں، طرح طرح کی خوشبو اور قہقہوں کے ساتھ چیخ پکار، پارٹی کا باضابطہ آغاز ہو چکا تھا۔

زاہد نے ادھر ادھر نظر ڈالی مگر ٹریسی کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ بشیکی اسٹوین کے گانے گرین ڈور پر لوگ تھرکیاں لگا رہے تھے کہ کیتھرین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی مجمعے میں گھسیٹ لیا تھا، دوسرا گانا تھرڈ ڈگری کا گایا ہوا تھا۔ بہت ہی تیز ڈانس تھا۔ زاہد تو صرف جھکولے لے رہا تھا۔ صحیح معنوں میں کیتھرینا ناچ رہی تھی، دائیں بائیں، دائیں، آگے پیچھے، نیچے اوپر نیچے اور زاہد تو صرف ساتھ دے رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ یکایک اس کی نظر بار پر پڑ گئی جہاں ٹریسی اپنی بلند و بالا قامت کے ساتھ قیامت بنی کھڑی تھی۔ اس نے دھیرے سے کیتھرینا سے کہا That is my girl اور کیتھرینا بے ساختہ مسکرا دی تھی۔ ”وہ تو مجھے پتہ تھا کہ تم میرے ساتھ نہیں ہو، اس لیے کہ کسی کے انتظار میں تمہاری نظریں مسلسل بھٹک رہی تھیں۔ چلو خوش رہو“ اور ڈانس کا یہ دور ختم ہو گیا تھا۔

پھر نرم موسیقی کا آغاز ہوا تھا اور زاہد کسی بات کا انتظار کیے بغیر ٹریسی کے پیچھے جا کھڑا ہوا تھا۔ دھیرے سے دونوں ہاتھوں سے اس کی کمر پکڑتے ہوئے بولا تھا ”یہ ڈانس تمہارے لیے ہے ٹریسی، آ جاؤ!“ وہ انکار نہیں کر سکی تھی۔ اسٹیوی ونڈر کی گونج دار آواز میں دھیمے سے گانے کے سروں پر وہ دونوں دھیرے دھیرے تھرک رہے تھے۔ جلتی بجھتی روشنی آنکھوں کے آگے چمک رہی تھی۔ زاہد کی رات کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس کا یہ اصول تھا کہ جس لڑکی کے ساتھ رات گزارنی ہے اس پہلی فرصت میں ہی پکڑ لینا ہے اور اگر ڈانس کا آغاز سلو میوزک سے ہو تو بات ہی کچھ اور ہے۔ چار پانچ دور شراب کے ہوں پھر کچھ ڈانس کے دور ہوں، پھر کچھ بوس و کنار، پھر رات کا پچھلا پہر ہو اور جب نشے میں ڈوبی ہوئی آواز میں لڑکی خود ہی پوچھے کہ تم رہتے کہاں ہو، تو سمجھ لینا چاہیے کہ محنت کارآمد ہوئی ہے۔ بہت ساری گزری ہوئی راتوں کی طرح یہ رات بھی ایسی ہی تھی۔

ٹریسی نے سفید اسکرٹ پر سفید جمپر پہنی ہوئی تھی، ہلکی سی لپ اسٹک سے دونوں ہونٹ رنگے ہوئے تھے۔ دونوں آنکھوں کے اوپر شیڈ کا رنگ کیا تھا، وہ اندازہ نہیں کر سکا۔ وہ بہت اچھا ڈانس کرتی تھی۔ اس نے دھیرے سے اس کے کان میں کہا ”آج تم کو مجھے سکھانا ہے کہ ڈانس کیا ہوتا ہے، ارے تم غضب کا ڈانس کرتی ہو۔ قیامت ہو قیامت۔ بہت اچھی ہو، بہت اچھی۔“ ٹریسی بے اختیار ہنس دی تھی۔

سامنے ہی ماجد ناچ رہا تھا ہیلن کے ساتھ۔ راؤ اور لا کے ساتھ نسیم اور وحید بھی مگن تھے، مہتا اور پٹیل بھی جھکولے کھا رہے تھے۔ کونے میں شمیم کی گود میں باربرا بیٹھی ہوئی گرم گرم سانس لے رہی تھی اور ہال کے بیچوں بیچ بینجمن اور ایما دنیا سے کافی بے نیاز ہو چکے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے زاہد کو لگا جیسے وہ لیٹ ہو گیا ہے یا اس کی ٹرین چھوٹ گئی ہے یا جیسے بس آئی ہی نہیں ہے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ٹریسی نے دھیرے سے اس کی ناک پکڑ کر کہا ”کیا سوچ رہے ہو، ڈانس کرو ڈانس، جب سوچنے کا وقت آئے گا تو سوچ بھی لینا“ زاہد کو اپنے اوپر ہنسی آ گئی تھی۔

اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو رات پڑی ہے۔ رات طویل رات۔ ڈانس ختم ہوتے ہی وہ دونوں بار پر آئے تھے۔ واڈکا اور کوک کا ایک ایک گلاس لیتے ہوئے دونوں نے باتوں کا آغاز کیا تھا۔ ہسپتال کی باتیں، نرسوں کی باتیں، ڈاکٹروں کی باتیں، تھیٹر کا قصہ، کنسلٹنٹ کا قصہ، نرسوں کے حقوق۔ عورتوں کے حقوق ٹریسی کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ٹریسی نرس تھی اور زیادہ تر اس کا سابقہ مردوں سے ہوتا تھا۔ اسے اس بات کی شکایت تھی کہ موجودہ نظام عورتوں کے خلاف ہے، مردوں کا بنایا ہوا ہے جو عورتوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتا ہے اور زاہد کو بھی اس کا احساس تھا۔

آج کی رات وہ عورتوں کے حقوق کا چیمپئن تھا۔ ٹریسی کی ہر بات صحیح تھی، ہر بات درست تھی۔ اس نے دھیرے سے ٹریسی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر رکھا، آہستہ سے چوما اور بولا ”تم جو کہتی ہو صحیح کہتی ہو ٹریسی، یہ پورا نظام مردوں کا بنایا ہوا ہے، ان ہی کے اصولوں پر چل رہا ہے، یہ ظلم ہے اور ظلم ضرور ختم ہو گا۔ یہ ڈرنک ختم ہو چکا ہے، میں ایک اور ڈرنک لے کر آتا ہوں، ایک گلاس اور، اور اس دفعہ جن اور ٹانک۔“

وہ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔

گورے ڈاکٹر بھی مست تھے۔ ہر ایک آزاد تھا، اپنے خول سے نکلا ہوا، اپنے معمولات سے بھاگا ہوا، ایک ڈرے ہوئے مفرور قیدی کی طرح جسے یقین ہو کہ وہ دوبارہ پکڑا جائے گا، جو کرنا ہے کر لو۔ لیبارٹری کا اسٹاف بھی مست تھا، پورٹر بھی پی رہے تھے، ٹریسی بھی تھرک رہی تھی، پارٹی، پارٹی ہر ایک پارٹی میں تھا۔ ہر ایک پارٹی تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments